پاکستان سے تعلق رکھنے والی دنیا کی کم عمر ترین نوبیل انعام یافتہ سماجی کارکن ملالہ یوسفزئی نے افغانستان میں لڑکیوں کے اسکول کھلنے کے چند گھنٹوں بعد ہی بند ہونے پر شدید تشویش کا اظہار کیا ہے ۔
انہوں نے ٹوئٹر پر جاری بیان میں کہا کہ مجھے ایک امید تھی کہ وہ افغان لڑکیاں جو پیدل اسکول جاتی ہیں انہیں گھر واپس نہیں بھیجا جائے گا لیکن طالبان نے اپنا وعدہ پورا نہیں کیا۔
ملالہ نے کہا کہ طالبان لڑکیوں کو سیکھنے سے روکنے کے بہانے ڈھونڈتے رہیں گے، کیونکہ وہ پڑھی لکھی اور بااختیار خواتین سے ڈرتے ہیں۔
خیال رہے کہ افغانستان میں لڑکیوں کے اسکول کھلنے کے چند گھنٹوں بعد ہی بند کردیے گئے تھے ، اقوام متحدہ نے اس صورتحال پر تشویش کا اظہار کیا ہے۔
طالبان ترجمان کا کہنا ہے کہ اس میں لڑکیوں کی تعلیم پر پابندی کا مسئلہ نہیں بلکہ لڑکیوں کے یونیفارم پر اعتراض ہے ۔
افغانستان میں اگست2021میں طالبان کے کنٹرول میں آنے کے بعد سے کئی ماہ تک بند رہنے والے لڑکیوں کے سیکنڈری اور ہائی اسکول آخر کار بدھ کو کھلے تو چند گھنٹوں بعد ہی طالبان حکام نے انہیں دوبارہ بند کروا دیا۔
اقوام متحدہ کی مندوب ڈیبررا لیونز نے ان اطلاعات کو ’پریشان کن‘ قرار دیا ہے۔ ایک ٹوئٹ میں انہوں نے کہاکہ اگر ایسا ہوا ہے تو اس کی ممکنہ وجہ کیا ہو سکتی ہے؟
طالبان کے ترجمان سہیل شاہین کے مطابق یہ اسکول میں لڑکیوں پر پابندی کا مسئلہ نہیں ہے بلکہ یہ ایشو لڑکیوں کے اسکول یونیفارم سے متعلق ہے جس کی وجہ سے یہ مسئلہ تعطل کا شکار ہے۔
سہیل شاہین نے یہ امید ظاہر کی کی سکول یونیفارم کا مسئلہ جلد حل ہوجائے گا اور سب ایک فیصلے پر متفق ہوجائیں گے۔
بدھ کو وزارت سے جاری ایک نوٹس میں کہا گیا کہ اسکول تب تک بند رہیں گے جب تک اسلامی قانون اور افغان ثقافت کے مطابق ان کے کھلنے کا منصوبہ نہ بنا لیا جائے۔
نوٹس میں کہا گیا کہ تمام لڑکیوں کے ہائی اسکولز اور ان اسکولوں کو اطلاع دی جا رہی ہے جن کی طالبات چھٹی کلاس سے اوپر کی کلاسوں میں ہیں کہ اگلے حکم تک اسکول بند رہیں گے۔
اے ایف پی کی ایک ٹیم دارالحکومت کابل کے ذرغونہ ہائی ا سکول میں عکس بندی کر رہی تھی جب ایک ٹیچر نے اندر داخل ہو کر کلاس برخاست ہونے کا اعلان کیا۔
دل گرفتہ طالبات کو طالبان کے کنٹرول سنبھالنے کے 7ماہ بعد تدریسی عمل جاری رکھنے کا موقع ملا تھا لیکن اس مرتبہ پھر انہیں نم آنکھوں کے ساتھ اپنے بستے باندھ کر واپس جانا پڑا۔
Comments are closed.