- مصنف, صوفی عبداللہ اور اسمبت توکوئیوا
- عہدہ, بی بی سی
- 2 گھنٹے قبل
قازقستان میں لاکھوں افراد ایک سابق حکومتی وزیر سے جڑے ہائی پروفائل قتل کے مقدمے پر نظریں رکھے ہوئے تھے۔ یہ مقدمہ ملک میں گھریلو تشدد کی بڑھتی لہر کی نشاندہی بھی کرتا ہے۔اس مقدمے میں ایک طاقتور سیاستدان کو اپنی بیوی کے قتل کا ذمہ دار ٹھہرایا گیا اور اس حوالے سے ایک نیا قانون متعارف کروایا گیا۔مگر اس واقعے سے یہ سوال بھی پیدا ہوا کہ کیا اسی طرح دوسرے متاثرین کو بھی انصاف مل سکتا ہے۔انتباہ: اس تحریر میں خواتین کے خلاف تشدد کی تفصیلات شامل ہیں جو پڑھنے والوں کے لیے تکلیف کا باعث ہو سکتی ہیں۔
عدالت کی جانب سے بیان کردہ حقائق ہولناک تھے۔ملک کے سابق وزیر اقتصادیات نے سالتنات نوکینووا پر حملہ کیا اور انھیں مار مار کر ہلاک کر دیا۔ یہ سارا منظر جزوی طور پر سی سی ٹی وی کیمروں میں قید ہو گیا تھا۔،تصویر کا ذریعہSupreme Court of Kazakhstan/Telegramمقامی وقت کے مطابق تقریباً سوا سات کے بعد دارالحکومت آستانہ کے ایک ریستوران کی فوٹیج میں کویندیک بشمبائیف کو سلتنات پر حملہ آور ہوتے، انھیں لاتیں مارتے اور بالوں سے گھسیٹتے ہوئے دیکھا جا سکتا ہے۔اگلے 12 گھنٹوں کے دوران کیا ہوا، یہ واضح نہیں ہے۔ اس میں سے کچھ لمحات ان کے اپنے موبائل میں قید ہو گئے اور یہ فوٹیج عدالت کو دکھائی گئی لیکن عوام کو نہیں۔آڈیو میں بشمبائیف، سالتنات کی تضحیک کر رہے ہیں اور ان سے ایک دوسرے آدمی کے بارے میں پوچھ گچھ کر رہے ہیں۔ آڈیو میں سنا جا سکتا ہے کہ جس وقت ان کی اہلیہ کمرے میں بے ہوش پڑی تھیں، اس دوران بشمبائیف نے کئی مرتبہ قسمت کا حال بتانے والے ایک شخص کو کال کی۔ اس کمرے میں کوئی کیمرے نہیں تھے۔آخرکار رات کے آٹھ بجنے سے کچھ دیر قبل ایک ایمبولینس کو بلایا گیا مگر سالتنات پہلے ہی مر چکی تھیں۔ پوسٹ مارٹم کے مطابق تقریباً چھ سے آٹھ گھنٹے پہلے ان کی موت ہو چکی تھی۔تفصیلی فرانزک معائنے کے بعد عدالت میں بتایا گیا کہ سالتنات کو بیرونی چوٹوں کے علاوہ دماغ میں اندرونی چوٹ بھی آئی۔ ان کی کھوپڑی اور دماغ کی سطح کے درمیان 230 ملی لیٹر خون جما ہوا تھا۔ عدالت کو بتایا گیا کہ گلا دبانے کے نشانات بھی پائے گئے تھے۔،تصویر کا ذریعہSupreme Court of Kazakhstan/YouTubeجہاں یہ ریستوران واقع تھا، اس فوڈ کورٹ کمپلیکس کے ڈائریکٹر بشمبائیف کے رشتہ دار بختزان بئیزانوف ہیں۔انھیں جرم چھپانے پر چار سال قید کی سزا سنائی گئی ہے۔ انھوں نے مقدمے کی سماعت کے دوران دعویٰ کیا کہ بشمبائیف نے ان سے سی سی ٹی وی فوٹیج حذف کرنے کو کہا تھا۔13 مئی کو آستانہ میں سپریم کورٹ نے 44 سالہ کویندیک بشمبائیف کو 31 سالہ سالتنات نوکینوا کے قتل کے جرم میں 24 سال قید کی سزا سنائی۔قازقستان ایک ایسا ملک ہے جہاں ہر سال سینکڑوں خواتین اپنے پارٹنرز کے ہاتھوں ماری جاتی ہیں۔ اس مقدمے میں بھی سزا ہو گی یا نہیں، صورتحال بہت غیر یقینی تھی۔اقوام متحدہ کے اندازے کے مطابق اس ملک میں گھریلو تشدد کے چار میں سے صرف ایک کیس میں ہی ملزمان کو سزا مل پاتی ہے۔زیادہ تر عورتیں مقدموں سے گھبراتی ہیں۔سالتنات کے بھائی کہتے ہیں ’قازقستان کی عورتیں کئی سالوں سے چیخ رہی ہیں، مگر اس سے پہلے کسی نے ان کی چیخیں نہیں سنیں۔‘
،تصویر کا ذریعہFamily handoutسالتنات کا بچپن شمال مشرقی شہر پاولودر میں گزرا جو قازقستان کی روس کے ساتھ سرحد سے قریب ہے۔سکول سے تعلیم مکمل کرنے کے بعد وہ سابق دارالحکومت الماتی چلی گئیں جہاں وہ اپنے بڑے اور اکلوتے بھائی ایتبیک ایمنجیلدی کے ساتھ مختصر مدت کے لیے مقیم رہیں۔ ایتبیک بتاتے ہیں کہ اس دوران کس طرح ان دونوں ببہن بھائیوں میں قریبی تعلقات بنے۔کویندیک بشمبائیف سے سالتنات نوکینووا کی شادی کو ایک سال بھی نہیں ہوا تھا جب بشمبائیف نے انھیں قتل کر دیا۔میڈیا رپورٹس کے مطابق سنہ 2017 میں انھیں رشوت کے الزام میں گرفتار کیا گیا تھا اور 10 سال کی سزا سنائی گئی تھی تاہم بعد میں تین سال سے بھی کم عرصہ جیل میں گزارنے کے بعد انھیں رہا کیا گیا تھا۔سالتنات کے بھائی نے بتایا کہ اس وقت ان کی بہن ایک نجومی کے طور پر کام کر رہی تھیں۔ انھیں اس کام کا شوق نو سال کی عمر میں شروع ہوا جب ان کی گاڈ مدر نے انھیں ایک کتاب تحفے میں دی تھی۔سالتنات کے بھائی کے مطابق انھوں نے اس علم سے خواتین کی ہر طرح کی مدد کرنے کی کوشش کی، چاہے خاندانی رشتہ ہو یا شادی اور بچوں کے مسائل۔ وہ بتاتے ہیں کہ ان کی خوش مزاج، ہر وقت مسکراتی بہن ایک سکول کھولنے کی خواہشمند تھی۔،تصویر کا ذریعہFamily handoutاپنی گواہی میں ایتبیک نے بتایا کہ بشمبائیف نے سالتنات سے ملاقات کرنے کی کوشش کی مگر شروع میں انھوں نے ملنے سےانکار کر دیا۔اس کے بعد دونوں کو ایک دوسرے سے جنونی محبت ہو گئی۔ببشمبائیف، سالتنات کا فون نمبر حاصل کرنے میں کامیاب ہو گئے تھے۔ ایتبیک کا کہنا ہے کہ ان کی بہن نے انھیں وہ پیغامات دکھائے جن میں بشمبائیف نے انھیں ملنے کے لیے کہا تھا۔وہ کہتے ہیں کہ انھوں نے سالتنات کو میسیجز میں لکھی ہر بات پر یقین نہ کرنے اور بشمبائیف کے حوالے سے محتاط رہنے کا مشورہ دیا تھا۔چند مہینوں میں ان کی شادی ہو گئی اور مسائل شروع ہونے میں زیادہ دیر نہیں لگی۔سالتنات نے اپنے بھائی کے ساتھ اپنے زخموں کی تصویریں شیئر کیں اور کئی مواقع پر اپنے شوہر کو چھوڑنے کی کوشش بھی کی۔بشمبائیف کے منع کرنے پر جب سلتنات نے اپنی پسند کی نوکری چھوڑ دی تو اس وقت ایتبیک نے بہن کو سمجھایا کہ وہ اسے الگ تھلگ کرنے کی کوشش کر رہا ہے۔جج نے بشمبائیف کو سزا سناتے ہوئے ریمارکس دیے کہ یہ انتہائی بیدردی کے ساتھ کیا گیا قتل تھا۔مگر بشمبائیف نے اس کی سنگینی کا اعتراف نہیں کیا۔ اس نے مانا کہ اس نے سالتنات کو جسمانی نقصان پہنچا جس کی وجہ سے ان کی موت واقع ہوئی لیکن اس نے سختی سے اس بات سے انکار کیا کہ وہ ایسا جان بوجھ کر رہا تھا۔اس نے جیوری سے انصاف کرنے کا مطالبہ کیا۔اس دوران اس کے وکیل نے ایتبیک سے پوچھا کہ کیا سالتنات اپنے رشتوں میں ’مردوں پر غلبہ پانے‘ کو ترجیح دیتی تھی یا اسے مردوں کا غلبہ پسند تھا۔ایتبیک نے ان سے پوچھا کہ ’کیا وہ سنجیدہ ہیں؟‘،تصویر کا ذریعہFamily handout
ایک جرات مندانہ عمل
مشرقی یورپ اور وسطی ایشیا کے لیے ایمنسٹی انٹرنیشنل کے ڈپٹی ڈائریکٹر ڈینس کریوشیف کے نزدیک یہ پوچھ گچھ حیران کن نہیں تھی۔انھوں نے بی بی سی کو بتایا کہ ’زندہ بچ جانے والی خاتون پر اکثر کسی ایسے سلوک کا الزام لگایا جاتا ہے جس سے مجرم کو اشتعال آیا ہو۔ اس پر خاندان کو تباہ کرنے، اپنے شوہر یا والدین یا سسرال والوں کی عزت اچھالنے کا الزام لگایا جا سکتا ہے۔‘وہ کہتے ہیں کہ گھریلو تشدد کی رپورٹ کرنے کے لیے بہت زیادہ ہمت کی ضرورت ہوتی ہے اور ہمیں یقین ہے کہ اس بارے میں بہت کم خواتین رپورٹ کرتی ہیں۔اقوام متحدہ کے اندازے کے مطابق قازقستان میں ہر سال تقریباً 400 خواتین گھریلو تشدد کے باعث ہلاک ہو جاتی ہیں۔ قازقستان کی وزارت داخلہ کے مطابق سنہ 2018 اور 2022 کے درمیان کرائسس سینٹرز پر گھریلو تشدد کا شکار افراد کی کالز میں 141.8 فیصد اضافہ ہوا ہے۔اس کے باوجود کریوشیف کا کہنا ہے کہ گھریلو تشدد کے معاملے میں خواتین میں برداشت بہت زیادہ ہے تاہم وہ مانتے ہیں کہ اس میں کمی آ رہی ہے۔لیکن جیسے ہی سالتنات کے آخری تکلیف دہ لمحات کی تفصیلات کمرہ عدالت سے لائیو سٹریم کے ذریعے قوم کے سامنے آئیں، حکومت پر کارروائی کے لیے دباؤ بڑھ گیا۔سوشل میڈیا صارفین اس کیس کے بارے میں آگاہی پھیلانےکے لیے ٹِک ٹاک جیسے پلیٹ فارم پر گئے۔ اور ایک لاکھ 50 ہزار سے زیادہ افراد نے ایک پٹیشن پر دستخط کیے جس میں گھریلو تشدد کے قانون میں اصلاحات کا مطالبہ کیا گیا ہے۔رواں سال 15 اپریل کو صدر قاسم جومارت توکائیف نے ایک بل پر دستخط کیے گھریلو تشدد کی سزا کو مزید سخت کر دیا گیا ہے۔ اس سے قبل سنہ 2017 میں اس ملک نے گھریلو تشدد کو جرم قرار دیا تھا۔’سالتنات کا نیا قانون‘ اسے جرم قرار دیتا ہے۔ اسے پہلے اسے دیوانی کے مقدمات کے زمرمے میں رکھا گیا تھا۔اب متاثرہ خاتون کی رپورٹ کے بغیر بھی مقدمہ کیا جا سکتا ہے۔،تصویر کا ذریعہFamily handoutدینارا سمائیلووا کہتی ہیں کہ یہ حقیقت یہ ہے کہ یہ سب ابھی بھی ناکافی ہے۔ دینارا نے گھریلو تشدد اور ریپ متاثرین کی مدد کے لیے ایک فاؤنڈیشن بنائی ہے۔وہ بتاتی ہیں کہ اگر کوئی عورت کم سے کم 21 دن ہسپتال میں داخل نہیں رہتی تو اس صورت میں اسے پہنچنے والے نقصان کو بہت معمولی سمجھا جاتا ہے۔ وہ کہتی ہیں کہ فریکچر، ٹوٹی ہوئی ناک اور جبڑا ٹوٹنے تک کو معمولی نقصان سمجھا جاتا ہے۔سنہ 2016 میں سمائیلووا نے سوشل میڈیا پر اپنی کہانی پوسٹ کی جس میں انھوں نے بتایا کہ کیسے وہ اجتماعی ریپ اور جنسی تشدد سے بچیں۔اس پوسٹ پر آنے والے ردِعمل کو دیکھ کر انھیں فاؤنڈیشن بنانے کا خیال آیا۔ وہ بتاتی ہیں کہ چند دنوں کے اندر اندر انھیں خواتین کی طرف سے تقریباً سو پیغامات موصول ہوئے۔ان پیغامات میں خواتین نے انھیں اپنے ساتھ ہونے والے تشدد سے لے کر کس طرح اس بارے میں بات تک کرنے سے روکا گیا، اور مجرمان بچ نکلے۔۔۔ یہ سب بتایا۔سمائیلووا بتاتی ہیں کہ ان کی فاؤنڈیشن آٹھ سالوں سے ’تشدد کے چونکا دینے والے کیسز‘ شائع کر رہی ہے مگر حکومت کی جانب سے کوئی جواب نہیں دیا گیا۔ وہ اب قازقستان میں نہیں رہتیں کیونکہ حکام نے انھیں غلط معلومات پھیلانے، پرائیویسی کی خلاف ورزی اور دھوکہ دہی کے الزامات میں مطلوبہ افراد کی فہرست میں ڈال رکھا ہے۔ستم ظریفی یہ ہے کہ یہ سب سالتنات جیسی کہانیاں ہیں۔ایتبیک کا کہنا ہے کہ ان کی بہن ہمیشہ لوگوں کو انصاف دلانے کے لیے لڑتی تھیں ’جب بھی اس نے کسی کو تکلیف میں دیکھا یا اسے پتا چلا کہ کسی کو تحفظ کی ضرورت ہے، وہ ہر ایسے شخص کی مدد کے لیے موجود ہوتی۔‘وہ مانتے ہیں کہ نیا قانون کافی نہیں ہے لیکن یہ ایک آغاز ہے، اس سے لوگوں کو پتا چلتا ہے کہ سب سے طاقتور افراد بھی قانون کی گرفت سے نہیں بچ سکتے۔ان کا کہنا ہے کہ یہ ٹرائل لوگوں کو دکھائے گا کہ قازقستان میں قانون سب کے لیے یکساں ہے اور قانون کی نظر میں سب برابر ہیں۔
BBCUrdu.com بشکریہ
body a {display:none;}
Comments are closed.