- مصنف, مازیار مشتاق گوہری
- عہدہ, بی بی سی ورلڈ سروس
- 49 منٹ قبل
مریم اور اُن کے شوہر گل محمد اپنے 20 سالہ بیٹے رسول بخش کی بحر ہند سے واپسی کا بے چینی سے انتظار کر رہے تھے لیکن یہ انتظار ختم ہونے کا نام ہی نہیں لے رہا تھا۔ مریم بتاتی ہیں کہ اس انتظار کے دوران ایک وقت ایسا آیا جب انھوں نے لوگوں سے سوال کرنا شروع کر دیا کہ ’ہمارا بیٹا واپس کیوں نہیں آ رہا؟‘کسی کے پاس اُن کے سوالوں کا جواب نہیں تھا۔ کئی ہفتے یوں ہی گزر گئے اور پھر چند مچھیرے آخرکار رسول کے بارے میں خبر لے کر آئے۔ رسول بخش صومالی قذاقوں کے ہتھے چڑھ گئے تھے۔20 سالہ رسول بخش شادی شدہ ہیں اور دو بچوں کے باپ ہیں۔اس کے بعد کئی ماہ رسول بخش کی کوئی خبر نہ آئی۔ اور پھر ایک دن اچانک ایک فون کال آئی۔ سگنل ٹوٹ رہے تھے لیکن دوسری جانب آواز کے بارے میں شک کی کوئی گنجائش نہ تھی۔ یہ رسول بخش کی ہی آواز تھی۔
مریم کو وہ لمحہ اب بھی یاد ہے۔ وہ بتاتی ہیں کہ ’وہ (رسول) رو رہا تھا اور اس نے بتایا کہ اس کے پورے جسم پر زخم ہیں۔‘ اُس وقت مریم کو احساس ہوا کہ وہ کتنی بے یارومددگار ہیں۔ ’اُس نے ہماری منت کی کہ اس کو قذاقوں سے چھڑوایا جائے۔‘مریم کہتی ہیں کہ ’کوئی تصور بھی نہیں کر سکتا کہ اس لمحے میں نے خود کو کتنا بے بس محسوس کیا۔ میں اپنے بیٹے کو صرف یہ بتا پائی کہ ہم کتنے غریب ہیں، یہ تو تم جانتے ہی ہو۔‘بی بی سی نے ایسے پاکستانی اور ایرانی ملاحوں سے بات کی ہے جن کا کہنا ہے کہ اُن کے پاس دو ہی راستے ہیں۔ اپنے خاندان کو بھوکا رکھیں یا پھر صومالی قذاقوں کے ہاتھوں یرغمال بننے کا خطرہ مول لیں۔بحر ہند میں بحری قذاقی کا خطرہ پھر سے ملاحوں اور مچھیروں کی زندگیاں مشکل بنا رہا ہے۔ تاہم اغوا برائے تاوان سمیت قتل کی وارداتوں اور انسانی ڈھال کے طور پر استعمال ہونے کے باوجود روزگار کے سلسلے میں یہ ملاح سمندر لوٹنے پر مجبور ہوتے ہیں۔ کشتیوں کے مالکان کا کہنا ہے کہ اب وہ سکیورٹی کی ضمانت دینے والے ایسے صومالی باشندوں کو ہزاروں ڈالر ادا کرتے ہیں جو اُن کے مطابق خود بھی قذاقی کے کام میں ملوث ہیں۔
تاوان
رسول بخش کو اغوا کرنے والے بحری قذاقوں نے رہائی کے عوض 12 ہزار ڈالر تاوان کا مطالبہ کیا۔ اتنی رقم کی ادائیگی رسول بخش کے بوڑھے اور غریب والدین کے لیے ناقابل تصور تھی جو ایران کے چابہار صوبے کے ایک گاؤں کے رہائشی ہیں۔اس علاقے میں قحط کی وجہ سے بہت سے نوجوان روزگار کے لیے اب جان جوکھم میں ڈال کر بحر ہند کا رُخ کرتے ہیں۔رسول کی والدہ، مریم، اپنے بیٹے کے تاوان کی رقم اکھٹا کرنے خود باہر نکلیں اور انھوں نے لوگوں سے پیسے مانگے۔ اُن کے لیے پیدل چلنا بھی مشکل تھا لیکن انھوں نے ایک کے بعد دوسرے قصبے کا رُخ کیا۔اس سے قبل انھوں نے اپنے گھر کا سارا سامان اور مویشی بیچ ڈالے، حتیٰ کہ اپنا کھجور کا درخت بھی۔
اغوا یا بھوک
جونکیں
،تصویر کا ذریعہGetty Images
منافع بخش کاروبار
،تصویر کا ذریعہINDIAN NAVY
بے چین راتیں
کراچی کی بندرگاہ ایسی کہانیوں سے بھری ہوئی ہے۔ 43 سالہ کپتان غلام رشید نے بتایا کہ اُن کے دوست کی کشتی پر گذشتہ سال قذاقوں نے حملہ کیا تھا اور فرار ہونے کی کوشش کرنے پر عملے پر فائرنگ کر دی گئی۔’عملے کا ایک رکن زخمی ہوا اور قذاقوں نے اسے زندہ سمندر میں پھینک دیا۔‘ وہ کہتے ہیں کہ ’سمندر میں ایسے مناظر رات کی نیند اڑا دیتے ہیں۔ ہم اپنی آنکھیں بند کر لیتے ہیں لیکن ہمارا دل کبھی نہیں سوتا۔‘ایک سال قید کاٹنے کے بعد رسول بخش کو آخرکار رہا کر دیا گیا اور وہ اپنے والدین سے مل پائے۔ وہ اس علاقے کے اُن ملاحوں میں سے ایک ہیں جن کے خاندانوں نے تاوان دے کر رہائی دلوائی۔
BBCUrdu.com بشکریہ
body a {display:none;}
Comments are closed.