صومالیہ میں سونے کی تلاش کا جنون جو لوبان اور مرر کے لیے خطرہ بن گیا
- مصنف, میری ہارپر
- عہدہ, بی بی سی نیوز، ڈالو ماؤنٹین
ایک درخت کے نیچے زمین پر بیٹھا بوڑھا کہہ رہا تھا ’حضرت عیسیٰ کی پیدائش پر تین دانش مند جو سونا، لوبان اور مرر کی خوشبو کا تحفہ لائے تھے وہ یقینی طور پر یہاں سے گیا تھا۔‘
عدن حسن صلاح نامی اس شخص سے میری ملاقات ڈالو ماؤنٹین پر ہوئی، جو گولس رینج کا ایک حصہ ہے جو خود ساختہ جمہوریہ اور صومالیہ کی پنٹ لینڈ ریاست پر پھیلا ہوا ہے۔ اس علاقے کی ملکیت متنازع ہے۔
انھوں نے کہا ’اونٹوں کے قافلوں کے راستے جو صدیوں سے انھیں یہاں سے مشرق وسطیٰ تک لے جاتے رہے ہیں، خلا سے دیکھے جا سکتے ہیں۔‘
بائبل اس بات کا حوالہ دیتی ہے کہ کس طرح یہ جانور تحائف کو بیت اللحم لے گئے جہاں یہ خیال کیا جاتا ہے کہ حضرت عیسیٰ پیدا ہوئے تھے۔
سرونگ اور مانچسٹر یونائیٹڈ فٹ بال کی شرٹ میں ملبوس ایک نوجوان شخص ہمیں دیکھ زمین سے اچھل پڑا۔ ان کا نام محمد سعید عوید ارالے تھا۔
’جیسا کہ مجھے یقین ہے کہ آپ جانتے ہیں’پنٹ لینڈ‘ کا مطلب ہے ’شاندار خوشبوؤں کی سرزمین‘ ہے۔
انھوں نے مزید بتایا کہ ’حضرت عیسیٰ کی پیدائش سے ایک ہزار پانچ سو سال پہلے مصر کی سب سے طاقتور فرعون خاتون حتشیپسوت نے یہاں کا مشہور سفر کیا تھا۔ اس نے سفر کے لیے پانچ کشتیوں کی تعمیر کا حکم دیا، انھیں یہاں کے تین قیمتی مادوں سے بھرا اور واپس مصر چلی گئی تھی۔‘
ان کا کہنا تھا کہ ’سونا حتشیپسوت کے جسم کی سجاوٹ کے لیے استعمال ہوا اور لوبان اس کے محلوں اور مندروں میں جلایا گیا اور مرر اس کی موت کے بعد اس کی لاش کو ممی میں بدلنے کے لیے استعمال ہوا۔‘
اس علاقے سے ہزاروں سالوں سے سونا، لوبان اور مرر برآمد کیا جاتا رہا ہے۔ دنیا کا زیادہ تر لوبان قرنِ افریقہ سے آتا ہے۔
آج حصرت عیسیٰ کے لیے لائے گئے تحائف میں سے ایک سونا، دوسرے تحائف یعنی لوبان اور مرر کی تباہی کی وجہ بن رہا ہے۔
ڈالو پہاڑ پرموجود لوگ اس مسئلے کا حصہ ہیں۔ انھوں نے سونے کی تلاش میں پہل کی جو تقریباً پانچ سال پہلے شروع ہوئی تھی اور اس کی وجہ سے صدیوں پرانے لوبان اور مرر کے درختوں کو اکھاڑ دیا گیا۔
کینڈل لائٹ نامی ماحولیاتی تنظیم کے لیے کام کرنے والے حسن علی دری کا کہنا ہے کہ ’سونے کی کان کنی کرنے والے پہاڑوں میں جمع ہو گئے ہیں۔ جب وہ کان کنی کے لیے علاقوں کو صاف کرتے ہیں، تو وہ سبھی پودوں کو کاٹ دیتے ہیں۔ جب وہ سونے کی کھدائی کرتے ہیں تو وہ درختوں کی جڑوں کو نقصان پہنچاتے ہیں۔ وہ اپنی پلاسٹک کی بوتلوں اور دیگر کچرے سے اہم آبی گزرگاہوں کو بند کر دیتے ہیں۔‘
ان کا مزید کہنا تھا کہ ’ہر گزرتے دن کے ساتھ وہ ان قدیم درختوں کی موت کو یقینی بنا رہے ہیں۔ سب سے پہلے ختم ہونے والے مرر کے درخت ہیں جنھیں کان کنی کرنے کے لیے جگہ بنانے کی غرض سے اکھاڑ دیا جاتا ہے۔ ‘
’لوبان کے درخت چونکہ چٹانوں پر اگتے ہیں اس لیے چھ عرصے تک بچ جاتے ہیں لیکن جیسے ہی کان کن زمین میں گہری کھدائی کرتے ہیں یہ بھی تباہ ہو جاتے ہیں۔‘
لکڑی سے حاصل ہونے والی خوشبو
پہاڑی سے تھوڑا سا آگے ایک لوبان گاؤں ہے جہاں درخت نسل در نسل منتقل ہوتے رہے ہیں۔ ایک عورت اپنے برآمدے میں فیروزی پلاسٹک کی کرسی پر بیٹھی ہوئی تھی جس کے چاروں طرف بچے، ان کی مائیں اور بکریاں تھیں۔
جب میں نے ان سے بائبل میں مذکور تحائف کی کہانی کے بارے میں پوچھا تو رکوی محمد محمود کا کہنا تھا کہ ’مجھے نہیں معلوم کہ آپ کس بارے میں بات کر رہے ہیں۔ میں صرف اتنا جانتی ہوں کہ میرا خاندان سینکڑوں سالوں سے ان درختوں کا مالک ہے۔ وہ پر دادا سے دادا اور دادا سے لے کر باپ اور پھر بیٹے تک منتقل ہوتے ہیں۔‘
اس نے ایک نوجوان کو حکم دیا کہ وہ حال ہی میں ایک درخت سے اتار ہوا کچھ لوبان لائے۔ وہ کپڑے کی گٹھری لے کر باہر آیا اور اسے زمین پر رکھ کر کھولا۔ ہوا میں ایک مزیدار لکڑی کی خوشبو سی پھیل گئی۔
ہم نے لوبان کی گوند کا جائزہ لیا۔ ان کو صاف کیا جاتا ہے، خشک کیا جاتا ہے اور درجہ بند کر کے فروخت کیا جاتا ہے جہاں سے یہ دنیا بھر کے گرجا گھروں، مساجد اور عبادت گاہوں میں جلانے اور ادویات، اسینشیل آئلز، مہنگی کاسمیٹکس اور چینل فائیو سمیت عمدہ خوشبو بنانے کے لیے برآمد کیا جاتا ہے۔
جب میں نے ان سے پوچھا کہ اگر فینسی ڈپارٹمنٹ سٹورز، عمر میں اضافے کو روکنے والی معجزاتی اینٹی ایجنگ مصنوعات اور پراسرار ، دلکش خوشبوؤں سے لوبان ختم ہو گیا تو؟ اس پر رکوی محمود نے میری طرف خالی نظروں سے دیکھا اور کہا ’یہ میرے نزدیک احمقانہ بات ہے۔‘
’ہم مکھیوں اور مچھروں کو بھگانے کے لیے لوبان جلاتے ہیں۔ ہم نزلہ زکام دور کرنے کے لیے اسے سونگھتے ہیں اور ہم سوزش کو دور کرنے کے لیے اس کا استعمال کرتے ہیں۔ ‘
لوبان کو نکالنے والوں کو اس کی فروخت کے بہت کم پیسے ملتے ہیں، ایک کلو گرام کے پانچ ڈالر سے لے کر نو ڈالر تک۔ اس بارے میں بے رحم دلالوں اور لالچی غیر ملکی کمپنیوں کے بہت سے سکینڈل سامنے آئے ہیں۔
اسی طرح انھیں مرر کے دس ڈالر فی کلو کے حساب سے پیسے ملتے۔ لوبان کی طرح مرر کی گوند بھی چھوٹے کانٹے دار درختوں سے حاصل کی جاتی ہے۔ اسے لاشوں پر لگانے، پرفیوم اور عطر بنانے اور ادویات میں استعمال کیا جاتا ہے۔
یہ خیال کیا جاتا ہے کہ اس میں جراثیم کش، دردکش اور سوزش ختم کرنے کی خصوصیات ہیں اور اس کا استعمال ٹوتھ پیسٹ، ماؤتھ واش اور جلد پر لگانے والے لوشن میں کیا جاتا ہے۔
گاؤں والوں نے بتایا کہ کیسے ان کے علاقے میں سونے کی تلاش میں آنے والے بیلچوں اور کدال لے کر ان کے علاقے میں آئے۔
رکوی محمود نے اپنی مٹھی ہلاتے ہوئے کہا کہ ’ہم ان کے خلاف ثابت قدمی سے کھڑے ہو گئے تھے۔ہم نے ان سے کہا کہ تم یہاں اپنے خام مال اور پیلے سونے کے لیے آئے ہو، ہمارے پاس ہمارا سبز سونا ہے اور وہ کوئی ہم سے چھین نہیں سکتا۔‘
جس کے بعد کان کن یہاں سے بھاگ گئے اور کبھی واپس نہیں آئے۔
لوبان کے گاؤں میں ماحول سونے کے کان کنوں کے علاقے سے بالکل مختلف تھا۔
یہ سادہ اور بنیادی تھا، یہاں ایک برادری کا احساس تھا۔ نوجوان اور بوڑھے افراد کی چہل پہل تھی، وہ بیٹھے چائے پی رہے اور بات چیت کر رہے تھے کہ کیسے لوبان کی کم قیمت میں فروخت نے مہنگائی اور شدید قحط کے دور میں ان کا گزارہ مشکل بنا دیا ہے۔
منشیات اور جہادیوں کے ٹیکس
سونے کے کان کنوں کی جگہ کے بارے میں کیا عجیب بات ہے یہ جاننے میں کچھ وقت لگا۔ آخرکار مجھے احساس ہوا کہ وہاں کوئی خواتین اور بچے نہیں تھے۔
درخت کے نیچے بیٹھے اس بوڑھے شخص صلاح جن سے میں ملا تھا کا کہنا تھا کہ ’ہم نہیں جانتے کہ ہمارے خاندانوں کو کیا ہو گیا ہے۔ ہم خانہ بدوش ہوا کرتے تھے لیکن نہ ختم ہونے والی خشک سالی اور قحطوں کا مطلب یہ تھا کہ ہمیں اپنا روایتی رہن سہن چھوڑنا پڑا۔‘
انھوں نے بتایا کہ وہ سونے کی تلاش کے لیے 2017 میں پہاڑوں پر کیسے آئے تھے۔
انھوں نے لکڑیوں سے بنی چند چھونپڑیوں کی جانب اشارہ کرتے ہوئے کہا ’جب ہم یہاں آئے تھے تو یہاں کچھ بھی نہیں تھا۔ یہ صرف ایک خشک دریا تھا۔ یہ وہ پہلی جگہ تھی جہاں سونا ملا تھا۔ ہم نے یہاں ایک گاؤں بسا دیا ہے۔‘
میں نے صلاح اور ان کے ساتھ بیٹھے ہوئے چند دیگر مردوں سے پوچھا کہ کیا وہ خانہ بدوش کی زندگی پر سونا کھودنے کی زندگی کو ترجیح دیتے ہیں؟ تو وہ نفی میں سر ہلاتے ہوئے غصے سے چلائے اور کہا ’ خانہ بدوشوں کی حیثیت سے ہمیں عزت حاصل تھی۔ ہم کسی پر انحصار نہیں کرتے تھے۔ ہم اپنے خاندانوں، اونٹوں، بکریوں اور بھیڑوں کے ساتھ رہتے تھے۔ ہمارے پاس کسی چیز کی کمی نہیں تھی۔
اونٹ ہمارے خیمے اور کھانا پکانے کے برتن اٹھاتے تھے۔ مویشیوں ہمیں کھانا اور دودھ فراہم کرتے تھے۔ جو سونا ہمیں ملتا ہے وہ ہم کھا پی نہیں سکتے۔ یہ ہمارے خیمے اور سامان کہیں لے جا نہیں سکتا۔‘
کان کنوں نے بتایا کہ کیسے انھوں نے سونا ان سوداگروں کو فروخت کیا جو سمندر کے راستے اسے دبئی سمگل کرتے تھے۔
سونے کی کان کنی نہ صرف ماحول کو تباہ کر رہی ہے بلکہ ان کی زندگیوں کو بھی اجاڑ رہی ہے۔
لال رنگ کی مانچسٹر یونائیٹیڈ فٹبال کلب کی شرٹ پہنے ہوئے آرال نے بھی کہا کہ ’ہم نشے کے عادی بن گئے ہیں۔‘ انھوں نے ایک نشہ آور پتے کا حوالے دیتے ہوئے کہا کہ ’ہم کھٹ ڈیلرز کے غلام بن گئے ہیں۔‘ یہ نشہ آور پتے کو بہت سے صومالی چباتے ہیں۔
ان کا کہنا تھا کہ ’وہ ہماری زندگیوں کو کنٹرول کرتے ہیں اور ہم اپنی تمام رقم اپنے خاندانوں پر لگانے کی بجائے کھٹ پر لگا دیتے ہیں۔ اور ہمیں اس کا نقصان ہے۔‘
جب وہ یہ بات کر رہے تھے تو ایک لینڈ کروزر گاؤں میں داخل ہوئی۔ گاڑی سے دو خوش لباس آدمی نکلے۔ کان کنوں نے بتایا کہ وہ کھٹ ڈیلر ہیں۔
بزرگ صلاح کا کہنا ہے کہ ’سونے نے اور بھی طرح ہماری زندگیوں کو برباد کیا ہے۔ اس نے ہم میں سے کچھ کو پاگل بنا دیا جیسا ہمارے ایک دوست کو 50 ہزار ڈالر مالیت کا سونا ملا اور وہ خوشی سے حواس باختہ ہو گیا۔‘
کینڈل لائٹ کے حسن علی دری بتاتے ہیں کہ کیسے سونا مقامی آبادی کو تباہ کر رہا ہے۔
وہ کہتے ہیں کہ ’کچھ سکول بند ہو چکے ہیں کیونکہ وہاں کے تمام اساتذہ سونا تلاش کرنے کی دوڑ میں سکول چھوڑ کر چلے گئے ہیں، طلبا بھی سکول چھوڑ کر جا رہے ہیں۔‘
ان کا کہنا تھا کہ دوسرے علاقوں سے صومالی باشندے پہاڑوں کی جانب آ رہے ہیں جس سے مخلتف قبائل میں جان لیوا تصادم کا خطرہ بڑھ رہا ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ ’بہت سے کان کن مسلح ہیں اور اب ہمیں یہاں سے نکلنا چاہیے اور واپس چلنا چاہیے۔ یہاں زیادہ دیر تک ٹھہرنا محفوظ نہیں ہے۔‘
اسلام پسند انتہا پسند گروہ الشباب اور نام نہاد شدت پسند تنظیم دولت اسلامیہ کی صومالی شاخ نے سونا کھودنے والوں سے ٹیکس کا مطالبہ کرنا شروع کر دیا ہے۔
جب ہم پہاڑوں سے نکل کر دھول بھری سڑک پر واپس آ رہے تھے تو میں سوچ رہا تھا کہ کیا مہنگے پرفیوم، کاسمیٹکس اور جیولری خریدنے والوں کو اندازہ ہے کہ یہ چیزیں کہاں سے آتی ہیں، کتنے ہاتھوں سے گزرتی ہیں اور ان کی وجہ سے کتنی تباہی ہوتی ہے۔
Comments are closed.