انتخابات ملتوی کرنے کے خلاف کیس کی سماعت کے دوران چیف جسٹس پاکستان عمر عطاء بندیال نے ریمارکس دیے ہیں کہ موجودہ صورتِ حال بہت تشویش ناک ہے، حکومت اور پی ٹی آئی فیصلہ کر لیں پاکستان کے لیے کیا بہتر ہے۔
ان کا کہنا ہے کہ حکومت اور پی ٹی آئی انتخابات چاہتی ہیں تو دونوں کو یقین دہانی کرانا ہو گی، یقین دہانی کیا ہو گی یہ عدالت نے نہیں بتانا، آپ نے طے کرنا ہے، عدالت کو صرف دونوں اطراف سے یقین دہانی چاہیے، انتخابات پُرامن، شفاف اور منصفانہ ہونے چاہئیں، یقین دہانی کرائیں کہ شفاف انتخابات کے لیے پی ٹی آئی اور حکومت پُرامن رہیں گی، عوام کے لیے کیا اچھا ہے کیا نہیں اس حوالے سے فریقین خود جائزہ لیں۔
چیف جسٹس نے کہا کہ آئین صرف حکومت بنانے اور گرانے کے لیے نہیں ہے، موجودہ سیاسی ماحول بہت خراب ہے، سیاست دان ایک دوسرے کے دست و گریباں ہیں، انتخابات تب ہی ہو سکتے ہیں جب حالات سازگار ہوں، حقائق سے منہ بھی موڑا نہیں جا سکتا، الیکشن کمیشن کو انتخابات کے لیے سہولت اور معاونت درکار ہوتی ہے۔
ان کا کہنا ہے کہ آئینِ پاکستان صرف حکومت بنانے اور گرانے کے لیے نہیں ہے، عوام کی زندگی اور خوشی کو مدِنظر رکھتے ہوئے ہی آئین کی تشریح ہوتی ہے، موجودہ صورتِ حال بہت تشویش ناک ہے، انتخابات تب ہی ہو سکتے ہیں جب حالات ساز گار ہوں، حقائق سے منہ بھی موڑا نہیں جا سکتا، الیکشن کمیشن محض ایک ادارہ ہے، الیکشن کمیشن کو انتخابات کے لیے سہولت اور معاونت درکار ہوتی ہے۔
چیف جسٹس پاکستان عمر عطاء بندیال کی سربراہی میں 5 رکنی لارجر بینچ نے سماعت کی۔
جسٹس اعجاز الاحسن، جسٹس منیب اختر ، جسٹس امین الدین خان اور جسٹس جمال خان مندوخیل اس لارجر بینچ کا حصہ تھے۔
سپریم کورٹ آف پاکستان میں انتخابات ملتوی کرنے کے خلاف کیس کی سماعت کے دوران پی ٹی آئی کے وکیل بیرسٹر علی ظفر نے دلائل دیے۔
تحریکِ انصاف کے وکیل بیرسٹر علی ظفر نے دلائل دیتے ہوئے کہا کہ سپریم کورٹ کے حکم کی 3 بار توہین کی گئی۔
چیف جسٹس نے سوال کیا کہ الیکشن کا شیڈول کب جاری ہوا تھا؟
تحریکِ انصاف کےوکیل بیرسٹر علی ظفرنے دلائل دیتے ہوئے کہا کہ الیکشن شیڈول 8 مارچ کو جاری کیا گیا تھا، الیکشن کمیشن کے پاس انتخابات کی تاریخ دینے کا اختیار ہی نہیں تھا، گورنر کے پی نے سپریم کورٹ کے حکم کے باوجود الیکشن کی تاریخ نہیں دی، صدرِ مملکت نے الیکشن کمیشن سے مشاورت کے بعد 30 اپریل کی تاریخ دی۔
بیرسٹر علی ظفر نے کہا کہ سپریم کورٹ نے 90 دن کی قریب ترین مدت میں انتخابات کی تاریخ دینے کا حکم دیا تھا، اسمبلی کی تحلیل کے 90 دن کے بہت بعد انتخابات کی تاریخ دے کربھی توہینِ عدالت کی گئی، لیکشن کمیشن نے آئین کو یا تو تبدیل یا پھر معطل کر دیا ہے، وزارتِ داخلہ و دفاع نے سیکیورٹی اہلکاروں کی فراہمی سے انکار کیا ہے، آئین انتظامیہ کے عدم تعاون پر انتخابات ملتوی کرنے کی اجازت نہیں دیتا، اس بات کی کیا گارنٹی ہے کہ اکتوبر میں حالات ٹھیک ہوں گے؟
جسٹس جمال مندوخیل نے پی ٹی آئی کے وکیل سے سوال کیا کہ سپریم کورٹ سے کیا چاہتے ہیں؟
وکیل علی ظفر نے جواب دیا کہ سپریم کورٹ آئین اور اپنے حکم پر عمل درآمد کرائے۔
جسٹس جمال مندوخیل نے کہا کہ عدالتی حکم پر عمل درآمد کرانا ہائی کورٹ کا کام ہے۔
وکیل علی ظفر نے دلائل دیتے ہوئے کہا کہ فنڈز نہ ہونے کی وجہ مان لی تو الیکشن کبھی نہیں ہوں گے، معاملہ صرف عدالت کے حکم پر عمل کا نہیں، 2 صوبوں کے الیکشن کا معاملہ ایک ہائی کورٹ نہیں سن سکتی، سپریم کورٹ اپنا اختیار استعمال کرتے ہوئے فیصلہ کر چکی ہے، سپریم کورٹ کا اختیار اب بھی موجود ہے۔
جسٹس منیب نے کہا کہ سپریم کورٹ کے حکم کے راستے میں الیکشن کمیشن کا فیصلہ رکاوٹ بنا، سپریم کورٹ ہی بہتر فیصلہ کر سکتی ہے کہ احکامات کی خلاف ورزی ہوئی یا نہیں۔
وکیل علی ظفر نے کہا کہ یہ پنجاب اور خیبر پختون خوا کے عوام کے بنیادی حقوق کا معاملہ ہے۔
جسٹس جمال مندوخیل نے ان سے سوال کیا کہ آپ کس عدالتی حکم پر عمل درآمد چاہتے ہیں؟
بیرسٹر علی ظفر نے کہا کہ میں یکم مارچ کے حکم نامے کی بات کر رہا ہوں جس میں 90 دن میں انتخابات کا حکم ہے۔
جسٹس جمال خان مندوخیل نے استفسار کیا کہ کیا یکم مارچ کا حکم عدالتی حکم ہے؟
چیف جسٹس نے کہا کہ میرے معزز ساتھی دستخط شدہ عدالتی فیصلے کا حوالہ دینا چاہ رہے ہیں، سب سے اہم سوال یہ ہے کہ کیا الیکشن کمیشن صدرِ مملکت کی دی گئی تاریخ بدل سکتا ہے؟ یہ پہلی بار ہوا ہے کہ الیکشن کمیشن نے صدر کی دی گئی تاریخ کو بدلا ہے، ہم نے دیکھنا ہے کہ الیکشن کمیشن کے پاس صدر کی دی گئی تاریخ بدلنے کا اختیار ہے یا نہیں۔
چیف جسٹس عمر عطاء بندیال نے کہا کہ الیکشن ہمارے گورننس سسٹم کو چلانے کے لیے ناگزیر ہیں، الیکشن کا عمل شفاف اور پُرامن ہونا چاہیے، آرٹیکل 218 انتخابات کے شفاف ہونے کی بات کرتا ہے، ہمارے رہنماؤں نے اب تک کیا کیا ہے؟
وکیل علی ظفر نے کہا کہ نگراں حکومت کا مقصد انتخابات ہوتا ہے جو 90 دنوں میں ہونا ہیں، ایسا نہیں ہو سکتا کہ الیکشن 90 دن سے 5 ماہ آگے کر دیے جائیں۔
جسٹس اعجاز الاحسن نے کہا کہ الیکشن کمیشن کا مؤقف تھا کہ وہ پولنگ کی تاریخ مقرر نہیں کر سکتا، اب الیکشن کمیشن نے پولنگ کی نئی تاریخ بھی دے دی ہے، کیا یہ الیکشن کمیشن کے مؤقف میں تضاد نہیں ہے؟
جسٹس منیب اختر نے کہا کہ سپریم کورٹ کے حکم پر تمام 5 ججز کے دستخط ہیں، ایسا نہیں ہے کہ سپریم کورٹ کے 2 فیصلے ہوں، فیصلوں میں اختلافی نوٹ معمول کی بات ہیں۔
چیف جسٹس نے کہا کہ الیکشن کمیشن نے انتخابات ملتوی کرنے کے لیے آرٹیکل 254 کا سہارا لیا ہے، کیا ایسے معاملے میں آرٹیکل 254 کا سہارا لیا جا سکتا ہے؟ آرٹیکل 254 آئین کی خلاف ورزی کی اجازت نہیں دیتا، جلد از جلد اس کیس کا فیصلہ کرنا چاہتے ہیں، الیکشن کمیشن پی ٹی آئی کی درخواست میں اٹھائے گئے سوالات پر جواب دے۔
ایڈیشنل اٹارنی جنرل نے عدالت سے استدعا کی کہ کیس کو 2 سے 3 دن بعد مقرر کر دیں۔
عدالت نے ایڈیشنل اٹارنی جنرل کی استدعا مسترد کر دی۔
ایڈیشنل اٹارنی جنرل نے عدالت کو بتایا کہ بیرسٹر شہزاد الہٰی نے اٹارنی جنرل پاکستان کے عہدے سے استعفیٰ دے دیا ہے، نئے اٹارنی جنرل کی تعیناتی تک سماعت ملتوی کی جائے۔
چیف جسٹس عمرعطاء بندیال نے کہا کہ نامزد اٹارنی جنرل مجھ سے آج ملاقات کر کے گئے ہیں، کل تک نئے اٹارنی جنرل بھی آ جائیں گے، ماضی میں بھی الیکشن کمیشن نے انتخابات کی تاریخ میں توسیع کی، بینظیر بھٹو کی شہادت پر بھی 2008ء میں انتخابات کی تاریخ میں توسیع ہوئی، 1988ء میں بھی انتخابات کی تاریخ کو آگے بڑھایا گیا، الیکشن کمیشن کے پاس شیڈول تبدیل کرنے کا اختیار ہے، کیا انتخابات کو اتنے لمبے عرصے کے لیے التواء میں رکھا جا سکتا ہے؟ عدالتی فیصلے پر عمل درآمد معاملے کا ایک پہلو ہے، بینظیر بھٹو کی شہادت پر انتخابی تاریخ کو کسی نے چیلنج نہیں کیا تھا، انتخابات میں التواء بنیادی حقوق کا معاملہ بھی ہے، انتخابات کی تاریخ میں صوبے کے عوام کے بنیادی حقوق ہیں، کیا آئین میں نگراں حکومت کی مدت دی گئی ہے؟ کیا انتخابات میں التواء سے نگراں حکومت کی مدت میں توسیع نہیں ہو گی؟
جسٹس جمال مندوخیل نے سوال کیا کہ کیا صدرِ مملکت نے 30 اپریل کی جو تاریخ دی وہ 90 دن کی معیاد کے اندر تھی؟
جسٹس اعجازالاحسن نے کہا کہ الیکشن کمیشن نے عدالتی فیصلے پر عمل کر کے 3 تاریخیں تجویز کیں، اس کے بعد صدرِ مملکت نے 30 اپریل کی تاریخ دی، تاریخ کے بعد الیکشن کمیشن نے شیڈول کا اعلان کیا۔
چیف جسٹس پاکستان عمر عطاء بندیال نے ریمارکس دیے ہیں کہ موجودہ صورتِ حال بہت تشویش ناک ہے، حکومت اور پی ٹی آئی فیصلہ کر لیں پاکستان کے لیے کیا بہتر ہے۔
ان کا کہنا ہے کہ حکومت اور پی ٹی آئی انتخابات چاہتی ہیں تو دونوں کو یقین دہانی کرانا ہو گی، یقین دہانی کیا ہو گی یہ عدالت نے نہیں بتانا، آپ نے طے کرنا ہے، عدالت کو صرف دونوں اطراف سے یقین دہانی چاہیے، انتخابات پُرامن، شفاف اور منصفانہ ہونے چاہئیں، یقین دہانی کرائیں کہ شفاف انتخابات کے لیے پی ٹی آئی اور حکومت پُرامن رہیں گی، عوام کے لیے کیا اچھا ہے کیا نہیں اس حوالے سے فریقین خود جائزہ لیں۔
چیف جسٹس نے کہا کہ آئین صرف حکومت بنانے اور گرانے کے لیے نہیں ہے، موجودہ سیاسی ماحول بہت خراب ہے، سیاست دان ایک دوسرے کے دست و گریباں ہیں، انتخابات تب ہی ہو سکتے ہیں جب حالات سازگار ہوں، حقائق سے منہ بھی موڑا نہیں جا سکتا، الیکشن کمیشن کو انتخابات کے لیے سہولت اور معاونت درکار ہوتی ہے۔
ان کا کہنا ہے کہ آئینِ پاکستان صرف حکومت بنانے اور گرانے کے لیے نہیں ہے، عوام کی زندگی اور خوشی کو مدِنظر رکھتے ہوئے ہی آئین کی تشریح ہوتی ہے، موجودہ صورتِ حال بہت تشویش ناک ہے، انتخابات تب ہی ہو سکتے ہیں جب حالات ساز گار ہوں، حقائق سے منہ بھی موڑا نہیں جا سکتا، الیکشن کمیشن محض ایک ادارہ ہے، الیکشن کمیشن کو انتخابات کے لیے سہولت اور معاونت درکار ہوتی ہے۔
سپریم کورٹ نے انتخابات ملتوی کرنے پر الیکشن کمیشن کو نوٹس جاری کر دیا جبکہ گورنرز کو بھی بذریعہ چیف سیکریٹری نوٹس جاری کیا۔
عدالتِ عظمیٰ نے پی ٹی آئی کی درخواست میں شامل تمام فریقین کو بھی نوٹسز جاری کر دیے اور سماعت کل صبح ساڑھے 11 بجے تک ملتوی کر دی۔
Comments are closed.