casusl hookup review american hookup lisa wade pdf cougar hookup in louisiana burley bike hookup charlotte hookup bars

بدھ14؍شوال المکرم 1442ھ26؍مئی 2021ء

صدیوں پرانا سعودی آرٹ جس کا فن ایک نسل سے اگلی میں منتقل ہوا

القط العسیری: سعودی خواتین کی ثقافتی پینٹنگز جو دیکھنے والوں کو مسحور کر دیتی ہیں

  • شائستہ خان
  • بی بی سی ٹریول کے لیے

سعودی عرب

،تصویر کا ذریعہGetty Images

اگر آپ سعودی عرب کے جنوب مشرقی صوبے العسیر کے دل میں واقع ملک کے ثقافتی اثاثے کے لیے مختص گاؤں رجال المع ہیریٹِج ولیج سے گزریں تو آپ پر یہ بات واضح ہو جائے گی کہ سعودی عرب کا یہ دور دراز علاقہ باقی ملک سے بالکل مختلف ہے۔

یہاں آپ کو یک رنگی صحرائی زمین کے برعکس ہر طرف رنگ ہی رنگ دکھائی دیں گے، اس گاؤں کے ارد گرد سرسبز و شاداب پہاڑوں سے لے کر پھولوں کے ان رنگارنگ ہاروں تک جو عسیری مرد اپنے سروں پر باندھے دکھائی دیتے ہیں۔

بیسویں صدی کے آخری برسوں تک یہ خود مختار قبائلی لوگ عسیر کے پورے علاقے میں بنجر پہاڑوں کے درمیان ان ’لٹکتے ہوئے دیہات‘ میں رہتے تھے جہاں تک پہنچنے کا واحد ذریعہ موٹی موٹی رسیوں سے بنی ہوئی سیڑھیاں ہوا کرتی تھیں۔

یہاں کی بنجر اور سخت زمین، یہاں کی جغرافیائی تنہائی اور محدود قدرتی وسائل نے اس علاقے میں مکمل خود انحصاری کی ایک ایسی تہذیب کو جنم دیا جس کے بارے میں باقی دنیا کو کم ہی معلوم تھا۔

رجال المع دسویں صدی عیسوی میں قائم ہونے والا وہ گاؤں ہے جو ایک سرسبز وشاداب اونچی پہاڑی کے اوپر ٹِکا ہوا ہے جس میں واقع پتھر کے بنے ہوئے لگ بھگ 60 قلعہ نما مکان ہیں جن کی اونچائی تقریباً 20، 20 میٹر ہے۔

کسی زمانے میں یہ مقام ایک تجارتی مرکز ہوا کرتا تھا جو یمن اور حجاز کو آپس میں جوڑتا تھا اور آگے چل کر یہ تجارتی راستہ بحیرہ احمر سے جا ملتا تھا۔

تاہم اب یہ ’معلق گاؤں‘ ایک مقبول سیاحتی مقام بن چکا ہے اور جب موسم گرما میں سعودی عرب کے باقی علاقوں میں درجہ حرارت 40 ڈگری سینٹی گریڈ تک پہنچ جاتا ہے تو لوگ سرد مقام کی تلاش میں اسی گاؤں کا رخ کرتے ہیں۔

جن دنوں گرمیاں عروج پر ہوتی ہیں تو سیاحوں کے لیے یہاں روایتی رقص کی محفلیں سجائی جاتی ہیں اور یہاں رنگارنگ روشنیوں سے بھرپور ایک میلہ بھی منعقد کیا جاتا ہے جس میں سیاحوں کو اس علاقے کی روایات کے بارے میں بتایا جاتا ہے اور ہاتھ سے بنی ہوئی مقامی مصنوعات کا بازار بھی لگایا جاتا ہے۔

یہ بھی پڑھیے

یہاں آنے والے لوگ دو سو سال پرانے فن ’القط العسیری‘ کے نمونے دیکھ کر بہت لطف اندوز ہوتے ہیں۔ یہ فن عسیری خواتین کی پہچان ہے۔

یہاں کے مرد پتھر کے اونچے اونچے مکان بنانے کے لیے مشہور ہیں جبکہ عسیری خواتین کی مہارت کے نمونے ہمیں ان گھروں کے اندر ملتے ہیں جہاں سیڑھیوں کے ارد گرد اور مہمان خانے یا ’مجلس‘ کی دیواروں پر آپ کو خواتین کے بنائے ہوئے نقش ونگار دکھائی دیتے ہیں۔

سعودی عرب

،تصویر کا ذریعہGetty Images

،تصویر کا کیپشن

رجال المع کبھی حجاز اور یمن کے درمیان ایک تجارتی مرکز ہوا کرتا تھا

عربی میں ’قط‘ کا مطلب ’لکھنا‘ ہوتا ہے اور القط العسیری وہ فن ہے عورتوں کی ایک نسل سے اگلی نسل میں منتقل ہوتا ہے جس میں جپسم یا سنگِ گچ کی بنی ہوئی دیواروں پر پُرپیچ نمونے بنائے جاتے ہیں۔

ان نمونوں میں تکون، مربع اور ہیرے کی شکل کے ڈیزائن بنائے جاتے ہیں اور ان کے درمیان سیاہ لکیریں لگائی جاتی ہیں جو جپسم کی سفید دیوار پر بہت خوبصورت دکھائی دیتے ہیں۔

ایسی مخروطی اشکال دراصل دیواروں پر بنائے جانے والے ان نقش و نگار کی باقیات ہیں جو ہمیں ہندوستان، شمالی افریقہ اور لاطینی امریکہ کی پرانی تہذیبوں میں دکھائی دیتے ہیں اور جب ان میں عسیری خواتین مقامی پہاڑوں، درختوں اور پھولوں سے کشید کیا ہوا شوخ سبز اور گہرا نارنجی رنگ بھرتی ہیں تو ان پر یہاں کی مقامی روایت کی مہر ثبت ہو جاتی ہے۔

عفاف بن داجم القحطانی وہ مقامی فنکارہ ہیں جو ان رنگ برنگے ڈیزائنوں کو کینوس پر بھی بناتی ہیں اور ان کے فن پاروں کی نمائش عالمی سطح پر ہوتی ہے۔

حال ہی میں ان کے فن پاروں کی نمائش دبئی میں منقعد ہونے والے ایک میلے میں بھی کی گئی ہے۔ رجال المع سے 140 کلومیٹر شمال میں واقع ان کے سٹوڈیو میں جائیں تو وہاں بھی آپ کو گہرے سبز رنگ کے ایسے ہی نمونے دکھائی دیتے ہیں۔

وہ کہتی ہیں کہ جب ’میں القط کی پینٹنگ بناتی ہوں تو مجھے لگتا ہے کہ اس کے ذریعے مجھے ذہنی دباؤ، ارد گرد کے مسائل اور بیرونی دنیا کی بیزاری سے فرار حاصل ہوتا ہے۔‘

عفاف کی پرورش جس ماحول ہوئی اس میں وہ القط آرٹ کے نمونوں میں گھری رہتی تھیں۔ وہ بتاتی ہیں کہ ان کے خاندان کی بہت سی خواتین اپنے گھروں کی دیواروں پر ایسے نقش و نگار بنایا کرتی تھیں۔ لیکن انھیں اپنے بچپن کی یادوں کو تازہ کرنے، اپنی روایات سے جُڑنے اور اس قدیم روایت کی اہمیت کو سمجھنے کا موقع سنہ 2018 میں اس وقت ملا جب انھوں نے ایک ورکشاپ میں حصہ لیا جس کا اہتمام سعودی عرب کی وزارتِ ثقافت نے کیا تھا۔

ویسے تو عفاف اب سنتھیٹک اور ایکریلک پینٹس استعمال کرتی ہیں مگر اُنھوں نے مجھے بتایا کہ کیسے گذشتہ دور کی خواتین مقامی درختوں، پتھروں اور سبزیوں سے حاصل کردہ قدرتی رنگ ہی استعمال کرتی تھیں۔ اُن کی خالہ ماہرہ القحطانی صرف تین بنیادی رنگ، سیاہ، سرخ اور سفید استعمال کرتی تھیں۔

وہ بتاتی ہیں کہ ’موم بتی کی راکھ کو پیس کر نقش و نگار کا بیرونی خاکہ بنانے کے لیے استعمال کیا جاتا تھا۔ سرخ رنگ دو ذرائع سے حاصل کیا جاتا جن میں العسیر پہاڑوں پر موجود چٹانوں سے حاصل کیا گیا المشغہ اور درختوں کی شاخوں پر موجود کیڑوں سے حاصل کردہ کارمائن شامل ہیں۔‘

سفید رنگ بھی العسیر پہاڑوں پر موجود جپسم سے حاصل کیا جاتا۔ اس کے علاوہ پیلا رنگ انار کے چھلکوں یا ہلدی کی جڑوں سے اور سبز رنگ تازہ کٹی ہوئی گھاس سے حاصل ہوتا۔

وہ کہتی ہیں کہ ’جب تجارتی راستے فروغ پا گئے تو بینگنی رنگ انڈیا یا ایران سے حاصل کیا جاتا۔ کیمیائی رنگوں کے آنے سے خواتین اپنے ڈیزائنز میں نئے رنگ استعمال کرنے لگیں۔‘

سعودی عرب

،تصویر کا ذریعہAfaf bin Dajem Al Qahtani

برش کی جگہ اُن کی خالہ مسواک استعمال کیا کرتی تھیں۔ ’اس شاخ کی نوک کو چبایا جاتا ہے اور اسے برش کی طرح استعمال کر لیا جاتا ہے، یا پھر اس کی نوک پر جانوروں کے بال لگا دیے جاتے ہیں۔‘

بڑی جگہوں مثلاً سیڑھیوں کے لیے برش کی جگہ کپڑے کا استعمال کیا جاتا۔

القط پینٹنگز ویسے تو آزاد طبع ہوتی ہیں مگر کچھ مخصوص نقوش تمام فنکار دہراتے ہیں۔ مثال کے طور پر الکاف وہ افقی لکیریں ہوتی ہیں جنھیں دیوار کی بنیاد پر پینٹ کیا جاتا ہے اور خواتین اپنی انگلیوں کا استعمال کر کے اس ڈیزائن کی پیمائش کرتی ہیں۔

البترا میں چوڑی عمودی پٹیوں اور سفید خالی جگہوں کا استعمال کیا جاتا ہے جس سے دیکھنے والوں کی توجہ کسی نقش کے ایک خاص حصے پر مبذول کروانے میں مدد ملتی ہے۔

ان نقوش کے نام العسیر کی زندگی اور یہاں کے لینڈ سکیپ سے متاثر ہیں۔ مثال کے طور پر بلسانہ ایک جالی نما ڈیزائن ہے جس کے بیچ نقطے بنائے جاتے ہیں۔ یہ گندم کی نشاندہی کرتا ہے جو یہاں کی ایک مستحکم فصل ہے۔ اس کے علاوہ المحاریب (محراب کی جمع) ایک نصف دائرہ ہے جو مکہ کی سمت کی نشاندہی کرتا ہے۔

العسیر کے دارالحکومت ابحا سے تعلق رکھنے والی محقق اور آرٹسٹ جمیلہ متر کہتی ہیں کہ القط پینٹنگ وہ نہیں جو آپ سیکھ لیتے ہیں، بلکہ آپ بچپن سے ہی اس کے ساتھ بڑے ہوتے ہیں۔ ’میں جب چھوٹی تھی، تب سے ہی میں نے اپنی نانی اور اپنی امی کو یہ کام کرتے دیکھا۔ اُن کے لیے اپنے گھر کو مزیّن کرنا اور اسے خوبصورت بنانا ایک قدرتی اور ضروری چیز تھا۔‘

عید الفطر کے موقع پر خواتین اپنے مہمانوں کو اپنی تازہ پینٹ کی ہوئی بیٹھک میں بٹھایا کرتیں۔ جمیلہ کو یاد ہے کہ وہ اس کام میں اپنی والدہ کی مدد کیا کرتی تھیں۔ ’وہ کوئی صورت بنایا کرتیں اور پھر مجھے ہدایت کرتیں کہ اس میں پیلا یا نیلا رنگ بھر دوں۔‘

ماؤں سے بیٹیوں تک مشق اور مشاہدے کے ذریعے منتقل ہونے والی روایت کے علاوہ القط عسیری خواتین کے لیے باعثِ فخر بھی ہے۔ جمیلہ کہتی ہیں کہ ’دیہاتی آپس میں بات کرتے تھے کہ دیکھو اُس کا گھر کتنا خوبصورت ہے۔‘

سعودی عرب

،تصویر کا ذریعہEric Lafforgue/Alamy

سعودی وزارتِ ثقافت کے ساتھ مل کر کام کرنے والی غیر سرکاری تنظیم سعودی ہیریٹیج پریزرویشن سوسائٹی کی ریحاف غساس کا ماننا ہے کہ القط صرف ایک آرٹ سے بڑھ کر کہیں زیادہ ہے۔ ’یہ ایسی سماجی سرگرمی ہے جو لوگوں کو ایک دوسرے کے قریب لاتی ہے اور نانیوں اور ماؤں کو یہ معلومات اپنی بیٹیوں تک منتقل کرنے کا ایک طریقہ ہے۔‘

وہ کہتی ہیں کہ ’جب مقامی لوگ آپ کو اپنے سجائے گئے گھر میں مدعو کرتے ہیں تو آپ اُن کا احساسِ تفاخر محسوس کر سکتے ہیں۔ جس جذبے اور محبت سے یہ آرٹ تیار کیا جاتا ہے، وہ متاثر کُن ہے۔‘

ویسے تو القط سنہ 2017 سے یونیسکو کی انسانی ثقافتی ورثے کی فہرست میں شامل ہے مگر عفاف کا اندازہ ہے کہ اب صرف 50 کے قریب ہی خواتین یہ بنا رہی ہیں۔ اس آرٹ کے تحفظ کے لیے سرکاری ادارے تربیتی ورکشاپس منعقد کر رہے ہیں اور خواتین آرٹسٹس کی نئی نسل کو تربیت فراہم کر رہے ہیں۔

نجی شعبے میں کئی تنظیموں اور افراد نے اپنے آبائی گھروں میں میوزیمز بنائے ہیں جہاں وہ آنے والے لوگوں کو اپنے خاندان کے القط پینٹرز کے بارے میں آگاہ کرتے ہیں۔

جمیلہ کہتی ہیں کہ ’ہمیں القط پر بہت ناز ہے کیونکہ یہ ہماری شناخت ہے۔ یہ خواتین کا آرٹ ہے جو العسیر کے خطے کے لیے ایک (منفرد) شناخت بن گیا ہے۔ یہ ہمیشہ آسان نہیں ہوتا۔‘

القط العسیری کو کہاں دیکھا جا سکتا ہے؟

چونکہ القط العسیری اکثر نجی گھروں میں ہی نظر آتا ہے، اس لیے سیاح رجال المع میوزیم جا سکتے ہیں جو ثقافتی گاؤں کے العوان قلعے میں ہے۔ وہاں پر اُنھیں بحال کیے گئے القط نگار نظر آئیں گے۔

وہ کہتی ہیں کہ پہلے نئی نسل کے لوگ القط کو ’قدیم‘ تصور کرتے تھے مگر یونیسکو کی جانب سے ثقافتی ورثے میں شامل کیے جانے کے بعد اُنھوں نے بھی اس پر ناز کرنا شروع کر دیا ہے۔ وہ ہنستے ہوئے کہتی ہیں کہ ’اُنھوں نے (کووڈ 19 کے دوران) القط ڈیزائنز کے ماسک اور ٹیٹوز بھی بنوائے۔‘

مقامی بازاروں میں روایتی کیتلیوں، مٹی کے برتنوں اور دیگر اشیا پر القط ڈیزائن جا بجا نظر آتے ہیں مگر اب یہ ڈیزائن مہنگے فیشن برانڈز تک بھی پہنچ گئے ہیں جو اُنھیں منفرد عسیری اور سعودی ثقافت ہونے کی وجہ سے خریدتے ہیں۔ لگژری برانڈز مثلاً ہندامی اور تماشی دونوں میں ہی القط ڈیزائن کی مصنوعات کی پوری رینج موجود ہے۔

صراط عبیدہ میں عفاف بتاتی ہیں کہ العسیر کی خواتین ہر اس چیز پر فخر کرتی ہیں جو اُنھیں ورثے میں ملی، اور وہ اس ورثے کو آگے بڑھانے کے لیے بھی پرعزم ہیں۔ وہ کہتی ہیں کہ ’العسیر کے عربی میں معنی مشکل کے ہیں۔ یہاں کے لینڈ سکیپ کی طرح یہاں کی خواتین بھی پرعزم، تخلیقی اور صابر ہیں۔‘

وہ کہتی ہیں کہ ’العسیر کی خواتین زیبائش، آرٹ اور جدت کو پسند کرتی ہیں۔ اور یہ غیر معمولی نہیں، کیونکہ ہمارا خطہ خوبصورت اور متاثر کُن ہے۔‘

بی بی سی ٹریول سنہ 2021 میں دنیا سے محبت کی 50 وجوہات کو اجاگر کر رہا ہے جس کے لیے پوری دنیا میں مقامی آبادیوں کے گمنام ہیروز اور مشہور افراد کی متاثر کُن کہانیاں پیش کی جا رہی ہیں۔

BBCUrdu.com بشکریہ
You might also like

Comments are closed.