صدر پوتن نے مشرقی یوکرین میں فوجی دستے بھیجنے کا حکم کیوں دیا؟
- پال کِربی
- بی بی سی نیوز
یوکرین کی سرحد کے ساتھ بیلا روس اور روس کے فوجی مشترکہ جنگی مشقیں کر رہے ہیں
اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل، امریکہ اور اس کے اتحادی مغربی ملکوں کی طرف سے شدید ردعمل اور اقتصادی پابندیوں کی دھمکیوں کے باوجود روس کی پارلیمان کے ایوان بالا، فیڈریشن کونسل نے متفقہ طور پر یوکرین کے باغیوں کے زیر قبصہ علاقوں میں نام نہاد آزاد ریاستوں کے ساتھ ‘دوستی اور تعاون’ کے معاہدوں کی توثیق کر دی ہے۔
اس سے قبل روس کے پارلیمان کے ایوان زیرین ‘دوما’ ان معاہدوں کی توثیق کر چکی ہے۔
پیر کو روس کے صدر ولادمیر پوتن نے روس نواز باغیوں کے زیر قبضہ یوکرین کے مشرقی علاقوں میں خود ساختہ آزاد ریاستوں، ڈونیسک پیپلز رپبلک اور لوہانسک پیپلز رپبلک کو تسلیم کرتے ہوئے ان سے دوستی اور تعاون کے معاہدوں پر دستخط کیے تھے۔
گزشتہ کئی ماہ سے روس کے صدر ولادمیر پوتن یوکرین پر حملہ کرنے کی منصوبہ بندی کرنے کے بارے میں مغرب کے دعوؤں کی تردید کرتے رہے ہیں۔ لیکن پیر کو انھوں نے یوکرین کے ساتھ امن معاہدے کو پس پشت ڈالتے ہوئے روس نواز باغیوں کے زیر قبضہ مشرقی علاقوں میں امن قائم کرنے کا عذر پیش کرتے ہوئے روسی فوج کو ان علاقوں میں داخل ہونے کا حکم جاری کر دیا تھا۔
روس نے حالیہ مہینوں میں کم از کم ڈیڑھ لاکھ فوجی یوکرین کی سرحد کے ساتھ تعینات کر دیے تھے اور اب یوکرین کے دو خطوں کو آزاد ریاستیں تسلیم کر لیا ہے۔ اس کے بعد اگلا اقدام یورپ کے پورے ‘سکیورٹی ڈھانچے’ کو خطرے میں ڈال سکتا ہے۔
صدر پوتن نے مشرقی یوکرین میں فوجی دستے کیوں بھیجے ہیں؟
صدر پوتن نے ‘قیام امن’ کے نام پر فوجیوں کو یوکرین میں داخل ہونے کا حکم دیا ہے لیکن کوئی بھی یہ تسلیم کرنے کو تیار نہیں ہے کہ یہ فوجی امن قائم کرنے کے لیے روانہ کیے گئے ہیں۔
آسٹریلیا کے وزیر اعظم کا کہنا ہے کہ یہ خیال ‘بکواس’ ہے اور یوکرین کے ایک جنرل نے کہا ہے کہ یہ واضح ہے کہ یہ ‘ریگولر فورسز’ یا معمول کی فوج ہے۔
صدر پوتن نے ہمسایہ ملک یوکرین کے ساتھ امن معاہدے کی دھجیاں اڑاتے ہوئے دو مشرقی علاقوں کو آزاد ملک تسلیم کرلیا ہے جن پر سنہ 2014 کے بعد سے روس نواز باغیوں کا قبضہ تھا۔
سنہ 2014 میں پہلی مرتبہ روس نے اپنی سرحد سے متصل چار کروڑ چالیس لاکھ آبادی پر مشتمل ملک یوکرین پر حملہ کیا تھا اور اس کے جنوبی حصہ کرائیما پر اپنا تسلط قائم کر لیا تھا۔
صدر جو بائیڈن گزشتہ کئی ہفتوں سے اس بارے میں خبردار کرتے رہے ہیں کہ روس یوکرین پر حملہ کرنے والا ہے۔ سٹیلائٹ سے حاصل ہونے والی تصاویر میں روسی فوج کو یوکرین کی سرحد سے نو سے 19 میل کے فاصلے میں جمع ہوتے ہوئے دیکھا گیا تھا۔
یوکرین کے مشرقی خطے ڈونیسک میں گزشتہ آٹھ سال سے جاری کشیدگی ختم نہیں ہو سکی اور روس ان علاقوں میں نہ صرف مزید فوج تعینات کرسکتا ہے بلکہ اس سے آگے بھی جا سکتا ہے۔ یوکرین کی سرحد کے قریب اس کے ڈیڑھ لاکھ فوجی موجود ہیں۔
صدر پوتن اس بات پر اصرار کرتے رہے ہیں کہ وہ جنگ نہیں چاہتے اور بات چیت پر تیار ہیں۔
لیکن یوکرین کے ساتھ امن معاہدے کو ختم کر کے دو علاقوں کو آزاد ریاستیں تسلیم کرنے سے بات چیت کا امکان فی الحال باقی نہیں رہا ہے۔
اب تک صدر پوتن مغربی ملکوں سے روس کے دفاعی خدشات کو دور کرنے کا مطالبہ کرتے رہے ہیں بصورت دیگر وہ مناسب جوابی فوجی اور تیکنیکی اقدامات کرنے کی دھمکیاں بھی دیتے رہے ہیں۔
صدر پوتن نے یوکرین کو خبردار کیا تھا کہ اگر اس نے مشرقی حصوں میں کارروائیاں بند نہیں کیں تو پھر مزید خون ریزی کا وہ خود ذمہ دار ہو گا۔
لیکن اس علاقے میں کئی ’جعلی‘ واقعات پیش آئے ہیں جن میں سے کسی کو بھی حملے کے بہانے کے طور پر استعمال کیا جا سکتا ہے۔
باغی رہنماؤں نے یوکرین کی طرف سے ممکنہ حملے کے پیش نظر اس علاقے سے عام شہریوں کو نکل جانے کی ہدایت کی تھی۔ اس بارے میں باغیوں نے جو ویڈیو جاری کی تھی وہ دو روز قبل ریکارڈ کی گئی تھی۔
یوکرین روس کا ہدف کیوں ہے؟
روس ایک عرصے سے یوکرین کی یورپی اداروں میں شمولیت کی مخالفت کرتا رہا ہے جن میں امریکہ کی سربراہی میں قائم 30 ملکوں کا فوجی اتحاد نیٹو اور یورپی یونین دونوں شامل ہیں۔
پوتن نے دعوی کیا ہے کہ یوکرین مغرب کی کٹ پتلی ہے اور کبھی ایک باقاعدہ ملک نہیں رہا ہے۔
اس کا بڑا مطالبہ یہ رہا ہے کہ مغربی ملک یہ گارنٹی دیں کہ یوکرین کو نیٹو کا حصہ نہیں بنایا جائے گا۔
یوکرین کی سرحدیں یورپی یونین اور روس دونوں سے ملتی ہیں۔ سابق سویت یونین کا حصہ ہونے کی وجہ سے اس کے روس کے ساتھ گہرے ثقافتی اور سماجی تعلقات ہیں اور یہاں روسی زبان وسیع پیمانے پر بولی جاتی ہے۔ لیکن سنہ 2014 میں جب سے روس نے اس خطے پر حملہ کیا ہے دونوں ملکوں کے تعلقات کشیدہ ہو گئے ہیں۔
روس نے یوکرین پر تب حملہ کیا جب اس کے روس نواز صدر کو سنہ 2014 کے اوائل میں معزول کر دیا گیا تھا۔ اس وقت سے مشرقی یوکرین میں ہونے والی جنگ 14 ہزار سے زائد جانیں لے چکی ہے۔
باغی علاقوں کو تسلیم کرنا خطرناک کیوں؟
اب تک ڈونیسک اور لوہانسک کی نام نہاد عوامی جمہوریتیں روس نواز باغیوں کے زیرِ انتظام رہی ہیں۔ صدر پوتن کی جانب سے انھیں تسلیم کرنے کے بعد روس اب یہاں فوجی اڈے بھی تعمیر کر سکتا ہے۔
جن علاقوں میں روزانہ جنگ بندی کی سینکڑوں خلاف ورزیاں ہوتی ہیں، وہاں روسی فوجیوں کے داخلے سے کھلی جنگ کا خطرہ کہیں بڑھ جائے گا۔
یہ بھی پڑھیے
روس کے پانچ بینکوں اور تین ارب پتی افراد پر برطانوی پابندیاں: برطانیہ میں روس کی کتنی دولت موجود ہے؟
اقوامِ متحدہ کے سیکریٹری جنرل انتونیو گتیریس نے روس کی جانب سے ان علاقوں کی آزادی تسلیم کرنے کو یوکرین کی سالمیت اور خود مختاری کے خلاف قرار دیا ہے جبکہ مغرب کا کہنا ہے کہ یہ بین الاقوامی قانون کی خلاف ورزی ہے۔
یوکرین کے صدر سرحدی مورچوں پر فوجیوں سے ملاقات کرتے ہوئے
سنہ 2014-15 میں منسک میں ہونے والے دو امن معاہدوں کے ذریعے ان علاقوں کو یوکرین کے اندر خصوصی حیثیت دے دی گئی تھی۔
ان معاہدوں پر کبھی عملدرآمد نہیں ہوا مگر مذاکرات پھر بھی جاری تھے اور فرانس اور جرمنی ان پر مکمل طور پر عمل پیرا نظر آ رہے تھے۔
مگر اب یہ مذاکرات خطرے میں پڑ گئے ہیں۔
روس نے پہلے ہی مشرقی یوکرین میں یوکرین کی جانب سے ‘نسل کشی’ کے بے بنیاد الزامات عائد کر کے حملے کی تیاری مکمل کر رکھی تھی۔ اب اس نے باغیوں کے زیرِ انتظام علاقوں میں سات لاکھ پاسپورٹ جاری کر دیے ہیں تاکہ یہ کسی بھی اقدام کو اپنے شہریوں کا تحفظ قرار دے سکے۔
روس کس حد تک جا سکتا ہے؟
زیادہ تر توجہ مشرقی یوکرین کی طرف ہے جہاں روسی فوجی جلد ہی محاذ پر پہنچ سکتے ہیں۔
مگر صدر بائیڈن کے مطابق: ‘ہمارا خیال ہے کہ وہ یوکرین کے دارالحکومت کیف پر حملہ کریں گے جس کی آبادی 28 لاکھ معصوم افراد پر مشتمل ہے۔’
ماسکو نے اصرار کیا ہے کہ اس کا حملے کا کوئی ارادہ نہیں مگر روس کرائمیا، بیلاروس اور یوکرین کی مشرقی سرحدوں کے گرد فوجی نقل و حرکت شروع کر سکتا ہے۔
Tروس اور امریکہ کے صدور کے درمیان ویڈیو لنک کے ذریعے کئی مرتبہ بات ہو چکی ہے
روس یوکرین پر مشرق، شمال اور جنوب سے چڑھائی کرتے ہوئے پورے ملک کو اپنے قبضے میں لے سکتا ہے اور اس کی جمہوری طور پر منتخب حکومت کو ختم کر سکتا ہے۔
لیکن یوکرین نے اپنی فوج بنا لی ہے اور اس کے علاوہ روس کو عوام کی طرف سے بھی مزاحمت کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے۔
امریکی فوج کے چیف آف سٹاف مارک ملی کا کہنا ہے کہ روسی فوج کی تعداد کے پیش نظر صورت حال انتہائی ہولناک رخ اختیار کر سکتی ہے اور شہری علاقوں کے گلی کوچوں میں لڑائی ہو سکتی ہے۔
روس کے رہنماؤں کے پاس دوسرے کیا راستے ہیں، غالباً یوکرین کی فضاؤں میں پروازوں پر پابندی، بندرگاہوں کا محاصرہ اور جوہری ہتھیاروں کی ہمسایہ ملک بیلاروس میں تعیناتی۔
وہ یوکرین پر سائبر حملے بھی کر سکتا ہے۔ یوکرین کی حکومت کی ویب سائٹ جنوری میں بیٹھ گئی تھی اور فروری کے وسط میں یوکرین کے دو سب سے بڑے بینک حملوں کی زد میں آئے تھے۔
یوکرین کے معاملے پر مغربی ممالک کسی حد تک جائیں گے؟
مغربی ملکوں نے یہ واضح کر دیا ہے کہ ان کا لڑاکا دستوں کو یوکرین بھیجنے کا کوئی ارادہ نہیں ہے اور روس کی کارروائی کے خلاف صرف اقتصادی پابندیوں ہی کا سہارا لیا جائے گا۔
نیٹو ملکوں نے یوکرین کو مدد کا یقین دلایا ہے لیکن وہ صرف فوجی مشیروں، ہتھیاروں اور فوجی ہسپتالوں تک ہی محدود ہے۔ دریں اثناء پانچ ہزار فوجی بلکان کی ریاستوں اور پولینڈ میں تعینات کر دیے گئے ہیں۔ چار ہزار مزید فوجیوں کو رومانیہ، بلغاریہ، ہنگری اور سلواکیہ بھیجے جانے کا امکان ہے۔
اقتصادی پابندیوں کی نوعیت کیا ہو گی؟
یوکرین بحران کے سنگین ہونے کے بعد برطانیہ نے آخر کار پانچ روسی بینکوں اور تین ارب پتی روسی شخصیات پر پابندیاں عائد کرنے کا اعلان کیا ہے۔ اس سے پہلے برطانیہ نے خبردار کیا تھا کہ ’کریملن میں اور اس کے ارگرد افراد کو چھپنے کے لیے کوئی جگہ نہیں ملے گی۔’
امریکہ کا کہنا ہے کہ وہ روس کے مالیاتی اداروں اور اہم صنعتوں کو نشانہ بنائے گا۔ یورپی یونین کا کہنا ہے کہ وہ مالیاتی منڈیوں تک روسی رسائی کو محدود کر دے گا۔
جرمنی تک روس کی نارڈ اسٹریم 2 گیس پائپ لائن بھی خطرے میں نظر آتی ہے۔ یہ مکمل ہے لیکن ابھی تک جرمنی کے ریگولیٹر سے منظوری نہیں دی گئی ہے۔
پابندیوں کا انتہائی قدم روس کے بینکنگ نظام کو بین الاقوامی سوئفٹ ادائیگی کے نظام سے منقطع کرنا ہو سکتا ہے۔ لیکن اس سے امریکی اور یورپی معیشتوں پر منفی اثر پڑ سکتا ہے۔
صدر پوتن کیا چاہتے ہیں؟
روس نے نیٹو کے ساتھ اپنے تعلقات کو از سر نو استوار کرنے میں ‘سچائی کے لمحے’ کی بات کی ہے اور تین مطالبات کو اجاگر کیا ہے۔
روس سب سے پہلے یہ قانونی یقین دہانی چاہتا ہے کہ نیٹو اتحاد میں توسیع نہیں کی جائے گی۔
روسی نائب وزیر خارجہ سرگئی ریابکوف کا کہنا ہے کہ ‘ہمارے لیے یہ یقینی بنانا لازمی ہے کہ یوکرین کبھی بھی نیٹو کا رکن نہ بنے۔’
صدر پوتن نے شکایت کی ہے کہ روس کے پاس ‘پیچھے ہٹنے کے لیے مزید کوئی جگہ نہیں ہے، کیا وہ سمجھتے ہیں کہ ہم صرف خاموشی سے بیٹھیں گے؟’
سنہ 1994 میں روس نے یوکرین کی آزادی اور خودمختاری کا احترام کرنے کے معاہدے پر دستخط کیے تھے۔
لیکن پچھلے سال صدر پوتن نے ایک طویل تحریر لکھی جس میں روسیوں اور یوکرینیوں کو ’ایک قوم‘ کے طور پر بیان کیا گیا تھا اور اب انہوں نے دعویٰ کیا ہے کہ جدید یوکرین مکمل طور پر کمیونسٹ روس نے تخلیق کیا تھا۔ وہ دسمبر 1991 میں سوویت یونین کے خاتمے کو ‘تاریخی روس کے ٹوٹنے’ کے طور پر دیکھتے ہیں۔
صدر پوتن نے یہ بھی دلیل دی ہے کہ اگر یوکرین نیٹو میں شامل ہوتا ہے تو یہ اتحاد کرائمیا پر دوبارہ قبضہ کرنے کی کوشش کر سکتا ہے۔
اس کے دوسرے بنیادی مطالبات یہ ہیں کہ نیٹو ’روس کی سرحدوں کے قریب تباہ کن ہتھیار‘ تعینات نہ کرے، اور یہ کہ وہ 1997 سے اتحاد میں شامل ہونے والے رکن ممالک سے افواج اور فوجی ڈھانچے کو ہٹائے، یعنی وسطی یورپ، مشرقی یورپ اور بالکان۔
حقیقت میں روس چاہتا ہے کہ نیٹو اپنی 1997 سے پہلے کی سرحدوں پر واپس چلا جائے۔
نیٹو کیا کہتا ہے؟
نیٹو ایک دفاعی اتحاد ہے جس میں نئے اراکین کی شمولیت کے لیے دروازے کھلے رکھنے کی پالیسی ہے، اور اس کے 30 رکن ممالک اس بات پر قائم ہیں کہ کوئی تبدیلی نہیں آئے گی۔
یوکرین کے صدر نے نیٹو میں شمولیت کے لیے ‘واضح، قابل عمل ٹائم فریم’ کا مطالبہ کیا ہے لیکن جرمنی کے چانسلر نے واضح کیا ہے کہ طویل عرصے تک ایسا ہونے کا کوئی امکان نہیں ہے۔
یہ خیال کہ نیٹو کا کوئی بھی موجودہ ملک اپنی رکنیت ترک کر دے گا، یہ ناقابل عمل ہوگا یا اس پر بات چیت کی شروعات نہیں ہو سکتی۔
صدر پوتن کی نظر میں، مغرب نے 1990 میں وعدہ کیا تھا کہ نیٹو ‘مشرق میں ایک انچ بھی نہیں’ پھیلے گا لیکن ایسا نہیں ہوا۔
یہ سوویت یونین کے ٹوٹنے سے پہلے کی بات ہے، تاہم، اس وقت کے سوویت صدر میخائل گورباچوف سے کیے گئے وعدے میں دوبارہ متحد جرمنی کے تناظر میں صرف مشرقی جرمنی کا حوالہ دیا گیا تھا۔
مسٹر گورباچوف نے بعد میں کہا تھا کہ اس وقت نیٹو کی توسیع کے موضوع پر کبھی بات نہیں کی گئی۔
کیا کوئی سفارتی حل ہے؟
جرمنی نے روس پر الزام لگایا ہے کہ وہ بغیر کسی وجہ کے مشرقی یوکرین کا احاطہ کرنے والے امن عمل کو جان بوجھ کر تباہ کر رہا ہے۔ اس بین الاقوامی امن معاہدے کی بحالی کا کوئی راستہ نظر نہیں آتا۔
پوتن بائیڈن سربراہی ملاقات کی بات ہوئی تھی لیکن اب اس کا کوئی امکان نہیں۔
روس امریکہ کے ساتھ ایک معاہدہ چاہتا تھا جس میں جوہری ہتھیاروں کو ان کے قومی علاقوں سے باہر تعینات کرنے سے روک دیا جائے۔ امریکہ نے مختصر اور درمیانے فاصلے تک مار کرنے والے میزائلوں کو محدود کرنے کے ساتھ ساتھ بین البراعظمی میزائلوں کے نئے معاہدے پر بات چیت شروع کرنے کی پیشکش کی ہے۔
روس مغرب کے ردعمل سے ناخوش تھا لیکن میزائل اڈوں پر باہمی جانچ کے ’شفاف طریقہ کار‘ کی طرف اس کا رویہ مثبت رہا ہے، دو روس میں، اور دو رومانیہ اور پولینڈ میں۔
Comments are closed.