روس یوکرین لڑائی: صدر پوتن جنگ ختم کرنے کے لیے کیا چاہتے ہیں؟
روس اور یوکرین کے وفود کے درمیان دونوں ملکوں کے درمیان جاری جنگ کے معاملے پر استنبول میں بات چیت ہوئی ہے۔ دونوں فریق اس سے قبل اپنے اپنے مؤقف کے کچھ حصوں کو سامنے لا چکے ہیں۔
یوکرین نے کہا ہے کہ وہ ماسکو کے ’غیرجانبداری‘ کے مطالبے پر غور کرے گا لیکن اپنی سرزمین پر سمجھوتہ نہیں کرے گا۔ دوسری جانب روس نے ان مطالبات کے قطعی معنی کو واضح کیے بغیر یوکرین سے ’فوجی سرگرمیوں کی روک تھام‘ اور ’نازی رویے سے دوری‘ کا مطالبہ کیا ہے۔
پانچ ہفتوں کی بمباری، تباہ حال شہروں میں ہزاروں اموات اور ایک کروڑ سے زیادہ لوگوں کے بے گھر ہونے کے بعد آخر صدر پوتن جنگ کو ختم کرنے کے لیے کیا چاہتے ہیں؟
یہاں ان تمام چیزوں کا خلاصہ پیش کیا جا رہا ہے کہ جن کا روس یوکرین کے ساتھ مذاکرات میں مطالبہ کر سکتا ہے۔
’نیوٹرل‘ یوکرین
روس کا طویل عرصے سے مطالبہ رہا ہے کہ یوکرین مغربی فوجی اتحاد نیٹو کی توسیع کے حوالے سے ’نیوٹرل‘ یا ’غیرجانبدار‘ رہے۔
جاپان میں ویسیڈا انسٹیٹیوٹ فار ایڈوانس سٹڈی کے ماہر پاسکل لوٹاز کہتے ہیں کہ دراصل کچھ تجزیہ کاروں کا خیال ہے کہ یہی روسی حملے کی ’بنیادی وجہ‘ تھی۔
پاسکل لوٹاز کہتے ہیں کہ روس شاید یہ مطالبہ کرے گا کہ یوکرین اپنے آئین میں یہ لکھ دے کہ وہ کبھی نیٹو میں شامل نہیں ہو گا اور روس کے ساتھ دو طرفہ معاہدے پر دستخط کرے تاکہ اس کی پوزیشن کو تقویت ملے۔
یوکرین کے صدر ولادیمیر زیلنسکی اس بارے میں اشارہ دے چکے ہیں کہ وہ ’غیرجانبداری‘ کے معاملے پر بات کرنے کے لیے تیار ہیں، حالانکہ یہ بہت کم واضح ہے کہ مستقبل میں یوکرین کے یورپی یونین میں شامل ہونے کے امکان کے حوالے سے اس کا کیا مطلب ہو سکتا ہے۔
یورپی یونین کی رکنیت باہمی سلامتی کی یقین دہانی کے ساتھ آئے گی اور یہ واضح نہیں کہ یوکرین اور روس اس صورتحال کو کس طرح دیکھ سکتے ہیں۔
’فوجی سرگرمیوں کی روک تھام‘
یہ ایک اور اہم نکتہ ثابت کر سکتا ہے کیونکہ فوجی سرگرمیوں اور نیٹو یا یورپی شراکت داروں کے بغیر یوکرین ایک اور روسی حملے کے لیے بہت کمزور ثابت ہو گا۔
لیکن لوٹاز کا ماننا ہے کہ اس مطالبے کا سب سے اہم نکتہ اس بات کو یقینی بنانا ہے کہ یوکرین کے پاس کوئی ایسا جارحانہ یا جوہری ہتھیار نہ ہو جو روس کی سلامتی کو خطرے میں ڈال دے، خاص طور پر نیٹو کے ہتھیار۔
یاد رہے کہ دوسری عالمی جنگ کے بعد جاپان اور امریکہ نے ایک دو طرفہ معاہدے پر دستخط کیے اور جاپان اپنی سلامتی کے لیے امریکہ پر انحصار کرنے لگا۔
تاہم لوٹاز کا ماننا ہے کہ روس کے مطالبات اس حد تک نہیں جائیں گے۔
’نازی طور طریقوں سے دوری‘
روسی صدر پوتن یوکرینی حکومت پر الزام عائد کرتے ہیں کہ وہ نازی گروپوں کے زیر کنٹرول ہے تاہم سیاسی مبصرین اس سے اختلاف کرتے ہیں۔
یہ الزام یوکرین کے صدر زیلنسکی ہر ذاتی حملہ ثابت ہو سکتا ہے، جو ایک یہودی خاندان سے تعلق رکھتے ہیں اور جن کے آباؤاجداد دوسری عالمی جنگ کے دوران نازیوں سے لڑے تھے۔
لوٹاز کہتے ہیں کہ ’نازیوں‘ کے خاتمے کا مطالبہ دراصل حکومت کی تبدیلی مانگنے کے مترادف ہے لیکن یوکرینی فوج کی طرف سے شدید مزاحمت کے بعد اس کا امکان کم ہو گیا ہے۔
اپنی ساکھ بچانے کے لیے روس یہ قبول کر سکتا ہے کہ زیلنسکی اقتدار میں رہیں لیکن وہ ازوف بٹالین کو ہٹانے پر مصر ہے، جو ایک انتہائی دائیں بازو کا گروپ ہے اور جس نے روس کے خلاف مزاحمت میں اہم کردار ادا کیا۔
دونتسک اور لوہانسک
یوکرین کے ساتھ امن مذاکرات کے بعد روس نے ایک نئی فوجی حکمت عملی کا اعلان کیا جس میں ’ڈرامائی طور پر‘ یوکرین کے دارالحکومت کیو پر حملوں کو کم کرنا شامل ہے لیکن اس کے بعد روس کی توجہ مشرقی یوکرین کے روسی بولنے والے علاقوں کی طرف ہو گی، جو روسی حمایت یافتہ علیحدگی پسندوں کے زیر کنٹرول ہیں۔
روس یوکرین سے یہ مطالبہ کرسکتا ہے کہ یوکرین دونتسک اور لوہانسک کے علاقوں میں موجود علیحدگی پسندوں کے مراکز کو چھوڑ دے۔
یہ بھی پڑھیے
کریمیا
یہ بھی ممکن ہے کہ روس یوکرین سے مطالبہ کرے کہ وہ کریمیا کے روسی الحاق کو سرکاری طور پر قبول کرے۔
اس جزیرہ نما علاقے پر روس نے سنہ 2014 میں حملہ کر کے قبضہ کر لیا تھا اور اس پر ماسکو کی حکومت ہے۔
اگر یوکرین اس شرط کو قبول کرتا ہے تو یہ اس کے لیے ایک بڑا علاقائی نقصان ہو گا۔
واضح رہے کہ سنہ 1997 میں پوتن سے پہلے روس اور یوکرین کے درمیان ہونے والے معاہدے میں کریمیا پر یوکرین کی خودمختاری کو تسلیم کیا گیا تھا۔
روسی زبان
روس اس بات کی یقین دہانی کا مطالبہ بھی کر سکتا ہے کہ یوکرین میں روسی زبان کو تحفظ فراہم کیا جائے گا۔
سنہ 2014 میں ماسکو کے ساتھ تنازعے میں شدت بعد سے روسی زبان یوکرین میں سیاسی تنازعے کا ایک نقطہ بن گئی۔
سنہ 2017 میں یوکرین کی عدالتوں نے سکولوں میں روسی زبان پڑھانے پر پابندی عائد کر دی تھی اور اس کے بعد سے ملک میں روسی زبان کے استعمال کو کم کرنے کے لیے دوسرے بل بھی سامنے آئے۔
جنوری کے بعد سے ملک کے تمام اخباروں اور میگزین کی یوکرینی زبان میں اشاعت لازمی قرار دی گئی۔
ان تمام معاملات پر صدر پوتن کے مطالبات جو بھی ہوں، سیاسی مبصرین کا کہنا ہے کہ یوکرین اور روس کے درمیان امن معاہدے پر بات چیت میں کافی وقت لگ سکتا ہے لیکن دونوں ملکوں کے کسی معاہدے تک پہنچنے کی وجوہات بھی موجود ہیں۔
یوکرین کے لیے یہ وجوہات اپنے شہریوں کی ہلاکت کو روکنا، اپنے شہروں میں ہونے والی تباہی اور پڑوسی ممالک میں جانے والے پناہ گزینوں کے بہاؤ کو روکنا ہے۔
روس کے لیے یہ وجوہات اپنے فوجیوں کو ہونے والے جانی نقصان اور مغرب کی جانب سے عائد کردہ اقتصادی پابندیوں کے نتائج کو کم کرنے سے متعلق ہیں، جو پہلے ہی عام روسی شہریوں کو شدید متاثر کر رہی ہیں۔
Comments are closed.