بدھ14؍شوال المکرم 1442ھ26؍مئی 2021ء

صدر پوتن باعزت طریقے سے یوکرین جنگ سے کیسے نکل سکتے ہیں؟

یوکرین، روس تنازع: صدر پوتن باعزت طریقے سے جنگ سے کیسے نکل سکتے ہیں؟

  • جان سمپسن
  • ورلڈ افیئرز ایڈیٹر

لوہانسک میں تباہ شدہ روسی ٹینک

،تصویر کا ذریعہGetty Images

،تصویر کا کیپشن

لوہانسک میں تباہ شدہ روسی ٹینک

بدترین جنگوں کا بھی اختتام ہوتا ہے۔ جیسے دوسری عالمی جنگ میں آخری نتیجے یہی تھا کہ مرنے تک لڑائی جاری رہے۔ اکثر جنگیں ایسے معاہدوں پر ختم ہوتی ہیں جن سے کوئی مکمل طور پر مطمئن نہیں ہوتا۔ لیکن اس سے کم از کم خونریزی رُک جاتی ہے۔ اور اکثر سب سے بُری لڑائیوں کے باوجود متحارب فریق بتدریج اپنے پرانے اور کم دشمنی پر مبنی تعلقات کو بحال کر لیتے ہیں۔

اگر ہماری قسمت اچھی ہو تو روس اور یوکرین کے درمیان امن کے لیے اِسی عمل کا آغاز ہو گیا ہے۔ یوکرین میں روس سے متعلق ناراضی کئی دہائیوں تک چلے گی۔ مگر دونوں فریقین امن چاہتے ہیں: یوکرین اس لیے کہ اس کے شہر اور گاؤں تباہ ہو چکے ہیں۔ اور روس اس لیے امن چاہتا ہے کہ (یوکرینی صدر کے مطابق) اُس نے چیچنیا میں دونوں پُرتشدد جنگوں سے زیادہ فوجی اور ساز و سامان کا نقصان اٹھایا ہے۔ (تاہم یوکرینی صدر کے اس دعوے کی تصدیق ناممکن ہے۔)

لیکن کوئی بھی ایسے امن معاہدے پر دستخط نہیں کرنا چاہے گا جس سے اُن کے اپنے زوال کا امکان پیدا ہو۔ روسی صدر ولادیمیر پوتن اپنی ساکھ اور عزت کو برقرار رکھنے کی کوشش کریں گے۔ یوکرین کے صدر زیلنسکی نے اپنی سفارتکاری کا ہنر منوایا ہے اور وہ کچھ بھی کہنے یا کرنے کو تیار ہیں جو اُن کے لیے اور اُن کے لوگوں کے لیے قابل قبول ہو تاکہ اُن کا ملک روسی افواج سے نجات پا سکے۔

صدر زیلنسکی کا اہم مقصد یہ بھی ہے کہ یوکرین یہ سب کچھ ہونے کے بعد ایک متحد ملک بن کر اُبھرے، نہ کہ بطور ایک روسی صوبہ یا خطہ۔ یہ وہ تاثر ہے جو اس جنگ کے آغاز سے قبل روسی صدر پوتن کا خیال تھا۔

صدر پوتن کی توجہ اس بات پر ہے کہ وہ کسی طرح اپنی فتح کا اعلان کر دیں۔ انھیں اس بات سے فرق نہیں پڑے گا اگر ان کی پوری انتظامیہ یہ سمجھتی ہو کہ روس نے بلاضرورت یوکرین میں مداخلت کی۔ نہ ہی انھیں اس بات سے کوئی سروکار ہو گا کہ 20 فیصد کے قریب روسی، جو دنیا کے حقائق جانتے ہیں، وہ یہ کہیں کہ پوتن نے اپنی خواہش کی بنیاد پر سب داؤ پر لگایا اور ہار گئے۔

یوکرین، جنگ، روس

،تصویر کا ذریعہGetty Images

،تصویر کا کیپشن

ایڈیٹر ماریہ

یہ لڑائی ان لوگوں کی حمایت حاصل کرنے کی کوشش میں لڑی جا رہی ہے جو سرکاری ٹی وی کی ہر بات سُنتے اور مانتے ہیں۔ بے شک روسی ٹی وی پر بہادر ایڈیٹر ماریا نے پس منظر میں بینر اٹھا رکھا تھا کہ آپ کو جو کچھ بتایا جا رہا ہے وہ پراپیگنڈا ہے، اس کے باوجود بعض ناظرین پوتن کی مہم پر یقین کرتے رہیں گے۔

تو کیا صدر پوتن اس تباہ کن جنگ کے بعد بھی روسی اکثریت کو اچھے ہی دکھائی دیں گے؟ شاید ایسا اس صورت میں ممکن ہو سکتا ہے اگر یوکرین کے آئین میں لکھا جائے کہ وہ مستقبل میں نیٹو کا رُکن نہیں بنے گا۔ صدر زیلنسکی نے پہلے ہی اس کی تیاری کر لی ہے جب انھوں نے نیٹو سے کچھ ایسا مانگا جو وہ کبھی نہیں دے سکتا تھا (یوکرین میں نو فلائی زون کا مطالبہ)۔ پھر انھوں نے مایوس ہو کر نیٹو پر تنقید کی۔ زیلنسکی نے یہ تک کہہ دیا کہ اگر نیٹو کا یہ رویہ ہے تو یہ شمولیت کے لائق نہیں۔

یہ بھی پڑھیے

ہوشیار اور عقلمندانہ سیاسی حکمت عملی میں اس سے بہتر کچھ نہیں۔ نیٹو پر ایسا الزام عائد ہوتا ہے جس سے وہ آسانی سے نکل سکتا ہے۔ اور یوکرین کو اس کی آزادی واپس مل جائے گی۔

لیکن یہ تو صرف آسان مرحلہ ہے۔ زیلنسکی اور یوکرین کے لیے فوراً یورپی یونین کا حصہ بننا مشکل ہو گا۔ روس اُن کی اس خواہش سے بھی خوش نہیں۔ تاہم اس سے بھی نکلنے کے طریقے موجود ہیں۔ یوکرین کے لیے سب سے مشکل بات یہ ہضم کرنا ہو گی کہ روس اس کے علاقوں پر قابض ہو جائے گا۔ یہ اس عزم کی خلاف ورزی ہو گی جس کا اعادہ اس نے یوکرینی سرحدوں کے تحفظ کے لیے بین الاقوامی معاہدوں پر دستخط کے ساتھ کیا تھا۔

سنہ 2014 میں کریمیا کو کھونا پھر بھی یوکرین کے لیے کچھ حد تک قابل قبول ہو۔ روس نے عندیہ دیا ہے کہ وہ مشرقی یوکرین کے علاقوں پر قابض رہے گا جہاں اس نے اپنا کنٹرول مضبوط کر لیا ہے۔

صدر پوتن، روس

،تصویر کا ذریعہReuters

سنہ 1939 میں جوزف سٹالن نے فن لینڈ میں مداخلت کی تھی اور یہ پہلے روسی سلطنت کا حصہ ہوا کرتا تھا۔ انھیں یقین تھا کہ ان کی افواج کسی بھی وقت اس پر کنٹرول حاصل کر لیں گی۔ پوتن نے بھی سنہ 2022 میں ایسا ہی یوکرین کے بارے میں سوچا ہے۔

سٹالن کے جرنیل ان سے ڈرے ہوئے تھے اور ظاہر ہے اپنی زندگی بچانے کے لیے انھوں نے سٹالن سے کہا کہ وہ بالکل ٹھیک سوچ رہے ہیں۔ مگر ظاہر ہے وہ درست نہیں تھے۔

یہ ونٹر وار (سرد جنگ) 1940 تک لڑی گئی اور سوویت فوج کو بڑی شرمندگی کا سامنا کرنا پڑا۔ فن لینڈ کو یہ جواز ملا کہ وہ قومی سطح پر اس بات پر فخر محسوس کرے کہ اس نے ایک سپر پاور کے خلاف مزاحمت کی۔ اسے اپنا کچھ علاقہ ضرور قربان کرنا پڑا کیونکہ سٹالن اور پوتن جیسے آمر چاہتے ہیں کہ وہ اس طرح کی صورتحال سے ایسے نکلیں جیسے بظاہر ان کی فتح ہوئی ہو۔ تاہم فن لینڈ کو سب سے اہم اور سب سے لازوال چیز ملی: خود مختاری اور مکمل آزادی والی قوم بننے کا موقع۔

line

روس کا یوکرین پر حملہ: ہماری کوریج

line

یوکرین کے لیے حالات کچھ اسی طرح کے ہیں۔ اس نے کئی روسی حملوں کا ردعمل دیا ہے جس سے پوتن کی افواج کمزور اور غیر مؤثر دکھائی دیتی ہیں۔ یوکرین بھی وہی کر سکتا ہے جو فن لینڈ نے کیا تھا۔ اگر پوتن کی فوجیں کیئو اور یوکرین کے مزید علاقوں پر قبضہ نہیں کر لیتی تو یوکرین اپنی قومی شناخت بچا سکتا ہے۔ جیسے فن لینڈ نے 1940 میں کیا تھا۔

لیکن اگر ولادیمیر پوتن کو برتری چاہیے تو انھیں اب تک استعمال ہونے والے ہتھیاروں میں سے سب سے خطرناک ہتھیار استعمال کرنا ہو گا۔ لڑائی تین ہفتوں سے جاری ہے اور موجودہ حالات میں کسی کو اس بات پر شک نہیں ہونا چاہیے کہ جنگ کا اصل فاتح کون ہو گا۔

BBCUrdu.com بشکریہ
You might also like

Comments are closed.