صدر پوتن اور کم جونگ کے درمیان ممکنہ ملاقات امریکہ اور اتحادیوں کے لیے کتنی پریشان کُن ہو سکتی ہے؟

کم معائدہ

،تصویر کا ذریعہGETTY IMAGES

  • مصنف, جین میکنزی
  • عہدہ, بی بی سی نیوز، سیول

شمالی کوریا کے رہنما کم جونگ اُن کے رواں ماہ متوقع دورہ روس بارے میں جیسے ہی خبر سامنے آئی تو امریکہ اور اس کے اتحادیوں میں تشویش اور بے چینی کی لہر دوڑ گئی۔

امریکی حکام کا کہنا ہے کہ کم جونگ اُن اور روسی صدر ولادیمیر پوتن شمالی یوکرین کے خلاف جاری جنگ میں شمالی کوریا کی جانب سے روس کی حمایت اور اسے ہتھیاروں کی فراہمی میں معاونت فراہم کرنے کے امکان پر بات چیت کرنے کا ارادہ رکھتے ہیں۔

بظاہر شمالی کوریا اور روس کے درمیان ہتھیاروں کا ممکنہ معاہدہ ایک مضبوط آپشن ہو سکتا ہے۔

روس کو یوکرین کی جنگ جاری رکھنے کے لیے ہتھیاروں، خاص طور پر گولہ بارود اور توپ خانے کی اشد ضرورت ہے، اور شمالی کوریا کے پاس یہ سب خاصی مقدار میں موجود ہے۔

دوسری طرف، پابندیوں کے شکار شمالی کوریا کو پیسے اور خوراک کی اشد ضرورت ہے۔ تین سال سے زیادہ کی سرحدی بندش، اور سنہ 2019 میں امریکہ کے ساتھ مذاکرات کے خاتمے نے شمالی کوریا کو کہیں زیادہ الگ تھلگ کر دیا ہے۔

اور ان تمام عوامل نے شمالی کوریا اور روس کو ایک دوسرے کے زیادہ قریب آنے اور معاملات کو آگے بڑھانے کے امکانات کو مزید روشن اور واضح کر دیا ہے۔ امریکہ کچھ عرصے سے دونوں ممالک کے درمیان ممکنہ ہتھیاروں کے معاہدے کے بارے میں خبردار کرتا رہا ہے، لیکن اب کم جونگ اُن اور ولادیمیر پوتن کے درمیان ممکنہ ملاقات اس معاملے کو ایک نئی نہج پر پہنچا سکتی ہے۔

فی الوقت امریکہ کی واحد ترجیح شمالی کوریا کے ہتھیاروں کو یوکرین میں فرنٹ لائن تک پہنچنے سے روکنا ہو گی، لیکن یہاں سیئول میں تشویش اس بات پر ہے کہ روس کو اپنے ہتھیار فروخت کرنے کے بدلے میں شمالی کوریا کو کیا ملے گا۔

مواد پر جائیں

ڈرامہ کوئین

ڈرامہ کوئین

’ڈرامہ کوئین‘ پوڈکاسٹ میں سنیے وہ باتیں جنہیں کسی کے ساتھ بانٹنے نہیں دیا جاتا

قسطیں

مواد پر جائیں

موجودہ مایوس کن صورتحال میں روس کے ساتھ اس ممکنہ معاہدے کو نظر میں رکھتے ہوئے کم جونگ اُن بڑے معاشی فائدے کی اُمید میں ہوں گے۔

اس بات کے بھی انکانات ہیں کہ شاید وہ روس سے فوجی تعاون بڑھانے کا مطالبہ کریں۔ گذشتہ روز جنوبی کوریا کی انٹیلیجنس سروس نے بریفنگ دی کہ روس کے وزیر دفاع نے روس، چین اور شمالی کوریا کو اُسی طرز کی مشترکہ بحری مشقیں کرنے کی تجویز دی ہے جیسا کہ امریکہ، جنوبی کوریا اور جاپان کی جانب سے کی گئیں تھیں۔ یہ وہ مشقیں تھیں جن کی وجہ سے شمالی کوریا میں اضطراب کی کیفیت پیدا ہوئی تھی۔

تاہم مستقبل میں کم جونگ روس سے ہتھیاروں کا مطالبہ بھی کر سکتے ہیں۔

لیکن اب تک سب سے زیادہ تشویشناک خواہش کا اظہار جو کم جونگ اُن صدر پوتن سے کر سکتے ہیں وہ یہ ہے کہ وہ انھیں جدید ہتھیاروں کی ٹیکنالوجی یا اس ضمن میں رہنمائی فراہم کریں تاکہ انھیں اپنے جوہری ہتھیاروں کے پروگرام میں کامیابیاں حاصل کرنے میں مدد مل سکے۔ وہ اب بھی اہم سٹریٹجک ہتھیاروں میں مہارت حاصل کرنے کے لیے جدوجہد کر رہے ہیں، خاص طور پر ایک جاسوس سیٹلائٹ اور جوہری ہتھیاروں سے لیس آبدوز۔

تاہم سیئول میں حکام کا خیال ہے کہ اس سطح پر تعاون کا امکان نہیں ہے کیونکہ یہ روس کے لیے سٹریٹجک طور پر خطرناک ثابت ہو سکتا ہے۔

ایشیئن انسٹیٹیوٹ فار پالیسی سٹڈیز کے ریسرچ فیلو یانگ یوک کے مطابق ’اگر روس ممکنہ معاہدے کے بدلے میں شمالی کوریا کو ہتھیار فروخت نہیں کرتا تب بھی وہ اسے جوہری پروگرام کے لیے مالی مدد فراہم کر سکتا ہے۔‘

ان کا مزید کہنا تھا کہ ’اگر روس تیل اور خوراک کی مد میں ادائیگی کرتا ہے، تو وہ شمالی کوریا کی معیشت کو بحال کر سکتا ہے، جس کے نتیجے میں شمالی کوریا کے ہتھیاروں کے نظام کو بھی مضبوط کیا جا سکتا ہے۔ یہ ان کے لیے آمدنی کا ایک اضافی ذریعہ ہے جو ان کے پاس فی الحال نہیں ہے۔‘

فوجی حکمت عملی اور ہتھیاروں کے نظام کے ماہر یانگ نے مزید کہا کہ ’ہم نے 15 سالوں سے شمالی کوریا کے خلاف پابندیوں کا ایک نیٹ ورک بنایا ہے، تاکہ اسے بڑے پیمانے پر تباہی پھیلانے والے ہتھیاروں کی تیاری اور تجارت سے روکا جا سکے۔ اب روس، جو کہ اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کا مستقل رکن ہے، اس پورے نظام کو تباہ کر سکتا ہے۔‘

گذشتہ ایک سال سے بیجنگ نے اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل میں شمالی کوریا کو اس کے ہتھیاروں کے تجربات پر سزا دینے سے انکار کیا ہے۔

شمالی کوریا بیجنگ کو اپنے اور جنوبی کوریا میں تعینات امریکی افواج کے درمیان ایک مفید بفر زون فراہم کرتا ہے، یعنی وہ پیانگ یانگ کے استحکام کے لیے معنی خیز اقدامات کو یقینی بنائے رکھتا ہے۔

لیکن پیانگ یانگ ہمیشہ سے صرف چین پر انحصار کرنے کے بارے میں پریشان اور بے چین رہا ہے کیونکہ عالمی پابندیوں کی وجہ سے اسے مُشکلات کا سامنا ہے۔ اتحادیوں کی تلاش میں روس کے ساتھ، یہ کِم جونگ اُن کو اپنے حامیوں کی تعداد میں اضافے کو ایک اچھا موقع فراہم کرتا ہے۔

اور روس سے اچھے تعلقات کی بنا پر شمالی کوریا یہ محسوس کرتا ہے کہ وہ بیجنگ سے کہیں زیادہ مراعات حاصل کر سکتا ہے۔ روسی صدر شمالی کوریا کے جوہری تجربے کے پیش نظر خاموش رہنے پر راضی ہو سکتے ہیں، جبکہ یہ چینی صدر شی جن پنگ کے لیے بہت مُشکل ثابت ہو گا۔

کم جان اُن شمالی کوریا کو کبھی بھی آسانی سے معالات کے حل کی جانب جانے نہیں دیتے۔ وہ اپنی سکیورٹی کے بارے خاصے پریشان رہتے ہیں اور ہمیشہ سے ہی بیرون ملک دوروں کو خطرے سے بھرا خیال کرتے ہیں۔ ا

پنے آخری بین الاقوامی دوروں کے لیے، فروری 2019 میں ڈونلڈ ٹرمپ سے ملنے کے لیے ہنوئی، اور اپریل 2019 میں صدر پوتن سے ملنے کے لی، وہ بکتر بند ٹرین پر سوار ہوئے تھے۔

یہ واضح نہیں ہے کہ دونوں رہنماؤں نے اپنی ملاقات کتنی نجی ہونے کا ارادہ کیا ہے، لیکن امریکہ امید کر رہا ہے کہ اسے ممکنہ ملاقات کی تفصیل عام کر کے وہ اس ملاقات اور ممکنہ ہتھیاروں کے معاہدے کو ناکام بنا سکتا ہے۔

یوکرین پر روس کے حملے کے بعد سے امریکی حکمت عملی کا ایک حصہ انٹیلیجنس جاری کرنا رہا ہے تاکہ ڈیل ہونے سے روکنے کی کوشش کی جا سکے۔ شمالی کوریا اور روس نے اب تک ہر اس تجویز کی تردید کی ہے کہ وہ ہتھیاروں کی تجارت کے بارے میں سوچ رہے ہیں۔

BBCUrdu.com بشکریہ