صدر پاکستان ڈاکٹر عارف علوی نے ہیلتھ سروسز اکیڈمی اسلام آباد کی توسیع اور اکیڈمی میں پانچ نئے ڈپارٹمنٹس قائم کرنے کی منظوری دے دی ہے۔
ہیلتھ سروسز اکیڈمی میں قائم کیے جانے والے ڈپارٹمنٹس میں ہیلتھ اکنامکس، ڈیجیٹل ہیلتھ، پبلک ہیلتھ نیوٹریشن اینڈ لائف اسٹائل میڈیسن، انوائرمنٹل ہیلتھ اینڈ کلائمیٹ چینج اور ہیلتھ پالیسی پلاننگ اینڈ مینجمنٹ شامل ہیں۔
ان خیالات کا اظہار ہیلتھ سروسز اکیڈمی کے وائس چانسلر ڈاکٹر شہزاد علی خان نے اتوار کو انسٹیٹیوٹ آف لیڈر شپ ایکسیلینس کے ساتھ باہمی تعاون کے معاہدے کی یادداشت پر دستخط کرتے ہوئے کیا۔
اس موقع پر انسٹیٹیوٹ آف لیڈرشپ ایکسیلینس کے صدر ہارون قاسم، ہیلتھ سروسز اکیڈمی کے رجسٹرار، پروفیسر ڈاکٹر مبشر حنیف، سید جمشید احمد، شوکت علی جاوید، ڈاکٹر مسعود جاوید اور دیگر ماہرین صحت موجود تھے۔
ڈاکٹر شہزاد علی خان کا کہنا تھا کہ ہیلتھ سروسز اکیڈمی کو یونیورسٹی کا درجہ دیا جا چکا ہے اور اس ادارے کا بنیادی مقصد ماہرین صحت کی صلاحیتوں میں اضافہ کرنا ہے تاکہ ملک میں پلاننگ اور منیجمنٹ کے علاوہ صحت کے دیگر شعبوں میں تربیت یافتہ ماہرین فراہم کیے جا سکیں۔
ان کا کہنا تھا کہ کہ ہیلتھ سروسز اکیڈمی میں ریسرچ انوویشن اینڈ کمرشلائزیشن اور کوالٹی انہانسمنٹ سیل بھی قائم کر دیئے گئے ہیں اور اب وقت ہے کہ اکیڈمی کے لیے تربیت یافتہ فیکلٹی حاصل کی جائے تاکہ ملک کے مختلف اداروں اور حکومت میں شامل ماہرین کو تربیت دی جا سکے۔
ان کا کہنا تھا کہ اس مقصد کے حصول کے لیے ہیلتھ سروسز اکیڈمی پاکستان سمیت دنیا بھر کے اداروں سے معاہدے اور عوامی تعاون کی یاداشتوں پر دستخط کر رہی ہے تاکہ پاکستان میں موجود ماہرین کی صلاحیتوں میں اضافہ کیا جائے اور اس کے ساتھ ساتھ ہیلتھ سروسز اکیڈمی کو بھی تربیت یافتہ اساتذہ میسر آسکیں۔
ڈاکٹر شہزاد علی خان نے بتایا ہے کہ ہیلتھ سروسز اکیڈمی کو اسلامی تعاون کی تنظیم کے لیے پبلک ہیلتھ سیکریٹریٹ کا درجہ بھی دیا جا چکا ہے، ہیلتھ سروسز اکیڈمی نے کومسٹیک کے ساتھ بھی باہمی یاداشت کا معاہدہ کیا ہے جس کے تحت پاکستانی ماہرین صحت افریقی مسلمان ممالک کے ماہرین کو پبلک ہیلتھ کے شعبے میں تربیت فراہم کریں گے۔
انہوں نے مزید بتایا کہ صدر مملکت عارف علوی کی ہدایت پر ہیلتھ سروسز اکیڈمی پاکستان میں ادویات کی غیر قانونی طریقے سے فروخت اور ادویات کے صحیح استعمال کے حوالے سے ایکشن پلان بنانے پر بھی کام کر رہی ہے، جلد ہی اس حوالے سے ایک ایکشن پلان بنا کر صدر مملکت کو پیش کیا جائے گا تاکہ پاکستان بھر میں مریضوں کے مفادات کا تحفظ کیا جاسکے۔
ان کا کہنا تھا کہ انسٹیٹیوٹ آف لیڈرشپ ایکسیلینس اور دیگر پاکستانی اور بین الاقوامی اداروں کے ساتھ تعاون بڑھانے کے نتیجے میں پاکستان کو صحت کے شعبے میں تربیت یافتہ ماہرین فراہم ہو سکیں گے جس کے نتیجے میں پاکستانی اسپتالوں اور صحت کے شعبے میں انقلابی تبدیلیاں لائی جاسکتی ہیں۔
اس موقع پر خطاب کرتے ہوئے انسٹیٹیوٹ آف لیڈرشپ ایکسیلینس کے صدر ہارون قاسم کا کہنا تھا کہ دنیا بھر میں پاکستانی ماہرین صحت کو اپنی صلاحیتوں کی بدولت بہترین مقام حاصل ہے لیکن بدقسمتی سے پاکستانی ماہرین صحت لیڈرشپ کی ٹریننگ نہ ہونے کے سبب فیصلہ سازی کے عمل میں شامل ہونے اور پوزیشنز پر پہنچنے سے رہ جاتے ہیں، اگر پاکستانی ماہرین کو لیڈر شپ ٹریننگ فراہم کی جائے تو وہ نہ صرف عالمی ادارہ صحت اور دیگر عالمی تنظیموں بلکہ دنیا کی بڑی بڑی صحت کی یونیورسٹیوں اور اداروں میں لیڈنگ پوزیشنز حاصل کر سکتے ہیں۔
ہارون قاسم نے کہا کہ ان کا ادارہ اس وقت پورے ملک میں 1000 ماہرین صحت کو لیڈر شپ ٹریننگ فراہم کرچکا ہے، اس وقت ان کے ماہرین پورے ملک کے اسپتالوں اور صحت کی یونیورسٹیوں کے ساتھ تعاون کررہے ہیں تاکہ پاکستانی ماہرین کی صلاحیتوں کو بڑھایا جائے اور انہیں ملکی صحت کے اداروں کو بین الاقوامی اداروں کی طرز پر چلانے کے قابل بنایا جا سکے۔
Comments are closed.