صدر مملکت عارف علوی نے آفیشل سیکریٹ ترمیمی بل اور آرمی ایکٹ ترمیمی بل پر دستخط کر دیے۔
ذرائع قومی اسمبلی سیکرٹریٹ کے مطابق آرمی ایکٹ 31 جولائی کو مشترکہ اجلاس میں منظور ہوا تھا، یہ بل صدر کو توثیق کے لیے یکم اگست کو ارسال کیا گیا تھا۔
گزشتہ قومی اسمبلی نے مدت ختم ہونے سے پہلے آفیشل سیکریٹ ایکٹ کی منظوری دی تھی۔
واضح رہے کہ سینیٹ میں آفیشل سیکرٹ ایکٹ ترمیمی بل پیش کیا گیا تو اپوزیشن کے ساتھ حکومتی اتحادی بھی برہم ہوگئے تھے اور پیپلز پارٹی کے رضا ربانی نے کئی بلوں کی کاپیاں پھاڑ دی تھیں۔
پاکستان بار کونسل کی جانب سے آفیشل سیکرٹ ایکٹ میں ترمیم کی شدید مذمت کی گئی تھی، اس حوالے سے پاکستان بار کونسل کی جانب سے کہا گیا تھا کہ وفاقی حکومت فوری طور پر آفیشل سیکرٹ ایکٹ ترمیمی بل واپس لے، آئین کی بالادستی اور قانون کی حکمرانی کے خلاف کسی بھی اقدام کی بھرپور مخالفت کریں گے۔
پاکستان بار کونسل کی جانب سے جاری ہونے والے اعلامیے میں کہا گیا تھا کہ اس بل سے خفیہ اداروں کو کسی بھی شہری کو حراست میں لینے کی کھلی چھوٹ دے دی گئی ہے، ترمیم سے خفیہ اداروں کو سرچ وارنٹ کے بغیر کسی بھی شہری یا جگہ کی تلاشی کی چھوٹ دی گئی ہے۔
دوسری جانب قومی اسمبلی نے پاکستان آرمی ایکٹ ترمیمی بل 2023 منظور کیا تھا، سینیٹ پہلے ہی یہ بل پاس کر چکا تھا، بل سابق وزیر قانون اعظم نذیر تارڑ نے قومی اسمبلی میں پیش کیا تھا۔
سابق وزیر قانون اعظم نذیر تارڑ نے کہا تھا کہ اس بل کا اطلاق سویلین پر نہیں ہو گا، آرمی ایکٹ ترمیمی بل2023 کا سپریم کورٹ میں جاری مقدمے پر کوئی اثر نہیں ہو گا، دہری شہریت رکھنے والے افواج پاکستان میں شمولیت اختیار نہیں کر سکیں گے۔
آرمی ایکٹ ترمیمی بل کے مطابق ملکی سلامتی اور مفاد میں حاصل معلومات کے غیر مجاز انکشاف پر سزا ہو گی، متعلقہ شخص کو 5 سال تک قید کی سزا دی جائے گی، پاکستان اور افواج کے خلاف کسی قسم کے انکشاف پر بھی کارروائی ہو گی۔
Comments are closed.