اسلام آباد میں صدارتی ریفرنس کی سماعت کے موقع پر ریڈ زون مکمل طور پر سیل کر دیا گیا ہے، سیرینا چوک، نادرا چوک، ڈی چوک، میریٹ چوک سمیت تمام راستے بند کردیے گئے ہیں۔
سپریم کورٹ میں وزیر اعظم عمران خان کے خلاف تحریک عدم اعتماد سے متعلق مختلف آئینی و قانونی معاملات کے حوالے سے دائر سپریم کورٹ بار ایسوسی ایشن کی درخواست اور وفاقی حکومت کی جانب سے دائر کیے گئے صدارتی ریفرنس کی سماعت آج ہو رہی ہے۔
چیف جسٹس پاکستان ،جسٹس عمر عطاء بندیال کی سربراہی میں جسٹس اعجاز الاحسن ،جسٹس مظہر عالم خان میاں خیل ،جسٹس منیب اختر اور جسٹس جمال خان مندوخیل پر مشتمل لارجر بینچ کیس کی سماعت کرے گا۔
سماعت کے آغاز سے قبل پولیس کی بھاری نفری ریڈ زون کے داخلی راستوں پر تعینات ہے، سپریم کورٹ اور سیکریٹریٹ جانے والے سائلین اور ملازمین کو شدید مشکلات کا سامنا ہے۔
سیکرٹریٹ اور سپریم کورٹ جانے کیلئے صرف مارگلہ روڈ والا راستہ کھلا ہے، سپریم کورٹ کے اندر اور باہر پولیس کی بھاری نفری تعینات ہے، واٹر کینن بھی قریب پہنچادی گئی ہے۔
اس کے علاوہ ریڈ زون کے داخلی راستوں پر بھی پولیس کی بھاری نفری تعینات ہے۔
گزشتہ روز سپریم کورٹ کے سینئر ترین جج جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے سپریم کورٹ بار ایسوسی ایشن کی درخواست اور صدارتی ریفرنس کی اکٹھی سماعت کے لیے پانچ رکنی لارجر بینچ کی تشکیل کے حوالے سے چیف جسٹس کے نام ایک خط لکھ کر اپنے شدید تحفظات کا اظہارکیا۔
جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے22مارچ کو چیف جسٹس کے نام لکھے گئے ایک خط میں موقف اختیار کیا کہ جمعرات کے روز آئین کے آرٹیکل 184(3)کے تحت فائل کی گئی ۔
سپریم کورٹ بار ایسوسی ایشن کی درخواست کی ہفتہ کے روز سماعت کے بعد عدالت نے حکمنامہ میں تحریر کیا ہے کہ اس درخواست کی سماعت مجوزہ صدارتی ریفرنس(اگر کوئی ہے تو) کے ساتھ کی جائے گی۔
فاضل جج نے لکھا ہے کہ مجھے شدید حیرت ہے کہ ایک ایسا صدارتی ریفرنس جو کہ ابھی عدالت میں دائر ہی نہیں ہوا ہے ،اس کو دو رکنی بینچ نے سماعت کے لئے کیسے مقرر کر دیا ہے؟ مجھے معلوم ہے کہ آئین کے آرٹیکل 184(3)کے تحت فائل کی گئی درخواست میں تو حکم نامہ کا اجراء بنتا ہے۔
تاہم ایسی درخواست کی تو صدارتی ریفرنس ،جس میں چند آئینی سوالات پر سپریم کورٹ کی رائے طلب کی گئی ہو؟کے ساتھ سماعت بنتی ہی نہیں ہے ،کیونکہ آئین کے آرٹیکل 184(3)اور 186کا دائرہ کار ایک دوسرے سے یکسر مختلف ہے ۔
فاضل جج نے لکھا ہے کہ دو رکنی بینچ نے آئینی درخواست اور صدارتی ریفرنس کو پانچ رکنی لارجر بینچ کے سامنے سماعت کے لئے مقررکرنے کا حکم جاری کیا ہے ،اور اس بینچ میں سنیارٹی میں چار ،آٹھ اور تیرھویں نمبر پر آنے والے ججوں کو شامل کیا گیا ہے ۔
فاضل جج نے لکھا ہے کہ بینچ کی تشکیل کا یہ طریقہ کار آپ کے پیشروئوں(سابق چیف جسٹسز)کی جانب سے مروج کئے گئے طریقہ کار کوتباہ کرنے کے مترادف ہے۔
جنہوں نے بینچوں کی تشکیل میں چیف جسٹس کی صوابدید جبکہ اہم آئینی مقدمات کی سماعت کے بینچوں میں سینئر ترین ججوںکو ہی شامل کرنے کا طریقہ رائج کیا تھا ،اور اس طریقہ کار کے علاوہ کوئی قابل فہم طریقہ کار موجود ہی نہیں ہے ۔
ایسی صورت میں بہت سے مسائل اور غیر ضروری بدگمانیاں پیدا ہوں گی،فاضل جج نے لکھا ہے کہ آئین ایک سینئر جج کو اس کی سنیارٹی کی بناء پر ذمہ دار ترین جج تصور کرتا ہے ،اور بینچوں کی تشکیل کے معاملے میں اس اصول سے کسی طور پر بھی پہلو تہی ممکن نہیں ہے۔
سینئر ججز، بطور ادارہ سپریم کورٹ کے تسلسل کو یقینی بناتے ہیں،میرے علم کے مطابق آپ کے پیشروئو اہم مقدمات کی سماعت کے لئے بینچ کی تشکیل کے لئے سینئر ترین ججوں سے مشاورت کرتے تھے ،اگر اس مروجہ پریکٹس کو تباہ کیا گیا تو اس کے سپریم کورٹ پر بطور ادارہ بہت ہی منفی اثرات مرتب ہوں گے ۔
فاضل جج نے خط کے آخر میں کسی معاملے پر خاموش بیٹھنے کی بجائے سامنے لانے سے متعلق قرآن پاک کی سورہ لقمان کا حوالہ بھی دیا ہے ،فاضل جج نے اس خط کی نقول سپریم کورٹ کے تمام ججوں، صدر مملکت ، اٹارنی جنرل ،ایڈوکیٹ جنرل ،سپریم کورٹ بار ایسوسی ایشن کے صدر اور سپریم کورٹ کے رجسٹرار کو بھی بھجوائی ہیں۔
Comments are closed.