سابق وزیراعظم شاہد خاقان عباسی نے کہا ہے کہ جہاں صحافت آزاد نہیں رہتی وہاں شہری آزادی بھی چلی جاتی ہے۔
اسلام آباد میں مجوزہ پاکستان میڈیا ڈیولپمنٹ اتھارٹی بل کے خلاف ملک بھر کے صحافی سراپا احتجاج ہیں۔
پارلیمنٹ ہاؤس کے بعد صحافیوں کے احتجاج سے خطاب میں شاہد خاقان عباسی نے کہا کہ پاکستان میں ایسے قوانین متعارف کروائے جارہے ہیں کہ کس طرح صحافت کو کنٹرول کیا جائے۔
انہوں نے مزید کہا کہ کیا چینلز کو ٹیلی فون کرنا کافی نہیں تھا کہ پی ایم ڈی اے کی ضرورت پڑگئی، جہاں صحافت کی آزادی نہیں رہتی شہری کی آزادی بھی چلی جاتی ہے۔
سابق وزیراعظم نے یہ بھی کہا کہ ن لیگ صحافیوں کے احتجاج میں برابر کی شریک ہے، ایسے قانون کو لانے کی کوشش کی جارہی ہے کہ حق کی آواز کو دبایا جائے۔
اُن کا کہنا تھا کہ جب کالے قانون ہوں تو کوئی آزادی نہیں ہوتی، کیا پیمرا کافی نہیں تھا کہ میڈیا اتھارٹی کی ضرورت پڑ گئی۔
شاہد خاقان عباسی نے کہا کہ پوری دنیا میں صحافت آزاد سے آزاد تر ہوتی جارہی ہے، پاکستان میں ایسے قوانین متعارف کروائے جارہے ہیں کہ کس طرح صحافت کو کنٹرول کیا جائے۔
انہوں نے کہا کہ یہ ملک کے عوام کا آئینی حق کے کہ وہ اپنی رائے کا اظہار کرسکیں، صحافت کی آزادی عوام کا آئینی حق ہے، ہم اس احتجاج میں برابر کے شریک ہیں۔
سابق وزیراعظم نے یہ بھی کہا کہ ایوب خان سے لے کر مشرف تک کی حکومتوں نے یہ کوششیں کیں، یہ حکومت صحافیوں کی آواز کو دبانے کی کوشش کر رہی ہے۔
اُن کا کہنا تھا کہ آج پولیس اہلکار ڈنڈے لے کر کھڑے ہیں کہ صحافیوں کو کیسے روکنا ہے، ایسے قانون کو لانے کی کوشش کی جارہی ہے کہ حق کی آواز کو دبایا جائے۔
شاہد خاقان عباسی نے کہا کہ پاکستان میں سچ کو دبانے کے لیے نئے نئے طریقے لائے جارہے ہیں، جب کالے قانون ہوں تو کوئی آزادی نہیں ہوتی، ہم آئینی حق کی بات کر رہے ہیں کوئی سیاسی گفتگو نہیں کر رہے۔
Comments are closed.