’صحارا کا پیرس‘: معروف شخصیات کا ٹھکانہ جہاں آ کر امریکی صدر بھی ’سلطان کی طرح محسوس‘ کرتے تھے
،تصویر کا ذریعہGetty Images
- مصنف, ڈالیا وینٹورا
- عہدہ, بی بی سی نیوز
جو اوپر تصویر میں نظر آ رہا ہے وہ الكتبية مسجد کا مینار ہے، جو مراکش شہر کی دنیا میں سب سے معروف علامت کے طور پر جانا جاتا ہے۔ درحقیقت مراکش شہر ہی وہ شہر ہے جس نے اپنا نام اس ملک کو دیا جس میں یہ واقع ہے۔
الكتبية مسجد، جماعۃ الفنا کے جنوب مغرب میں واقع ہے اور یہاں موجود چوک کہانی سنانے والوں، کھانے کے سٹالز، سانپوں کے کرتب دکھانے والوں، تاجروں، مقامی لوگوں اور سیاحوں سے بھرا رہتا تھا۔
لیکن اس جگہ کی تمام خوشیاں آٹھ ستمبر کی رات کو اس وقت روٹھ گئیں جب ایک تباہ کن زلزلے نے مراکش میں زمین کو ہلا کر رکھ دیا۔
اس زلزلے سے تقریباً تین ہزار افراد ہلاک ہوئے اور تقریباً اتنی ہی تعداد میں شہری شدید زخمی ہوئے۔ اقوام متحدہ کے مطابق تقریباً تین لاکھ کے قریب لوگ اس زلزلے کے نتیجے میں متاثر ہوئے۔
اور آج جماعۃ الفنا ایک پناہ گزین مرکز سے مشابہہ چیز بن گئی ہے اور اب یہاں سیاحوں کی جگہ امدادی کارکنوں نے لے لی ہے۔
گیارہویں صدی کے بعد سے جب اسلامی جنگجو اڑتی ریت سے بچنے کے لیے اپنے چہروں پر نقاب اوڑھے صحرائے صحارا کے اٹلس پہاڑوں سے گزرے اور موجودہ مراکش میں ایک سلطنت قائم کی تو یہ شہر اقتصادی، سیاسی اور ثقافتی سرگرمیوں کا مرکز بن گیا۔
،تصویر کا ذریعہGetty Images
یہ خانہ بدوش قبائل ’الموراوڈز‘ کہلاتے تھے۔ وہ مذہب اسلام کی ایسی تشریح پر یقین رکھتے تھے جو سخت گیر تھی اور جو چیز ان قبائل کو جوڑتی تھی وہ حریف مسلمانوں اور مسیحیوں کے خلاف ’جہاد‘ کی طاقت تھی۔
مغربی افریقہ سونے سے مالا مال تھا جس کا انھیں فائدہ ہوا اور اس کے ساتھ وہ صحرائے صحارا سے ہونے والی تجارت کو بھی کنٹرول کرتے تھے۔
سنہ 1085 میں ’الموراوڈز‘ نے ہی عیسائیوں کو ایک ایسے سپین پر حکومت کرنے سے روکا جس پر مسلمانوں کی حکمرانی تھی اور یوں ’ری کونکوئسٹا‘ یعنی عیسائیوں کے مسلمانوں کے زیرِ قبضہ علاقے واپس لینے کی کوشش کو 400 سال تک ملتوی کرنے میں مدد کی۔
یہ وہ قبائل تھے جن کے خلاف مقبول ہسپانوی جنگجو روڈریگو ڈیاز نے بھی جنگ لڑی لیکن ہار گئے اور یوں ’الموراوڈز‘ کے بارے میں ’خوفناک دشمنوں‘ کی اصطلاح مشہور ہوئی ’جنھیں تباہ ہونا تھا۔‘ مسیحی فوجیوں نے ان کی موت کو اپنی فوجوں کو حوصلے بلند کرنے کے لیے استعمال کیا۔
تاہم ان قبائل کو شکست دینے والے دراصل مسلمان ’الموحد‘ قبائل تھے جو اٹلس پہاڑوں سے آئے تھے اور انھوں نے 1269 تک یہاں حکومت کی تھی۔
،تصویر کا ذریعہGetty Images
ثقافتی ورثہ
یہ اسی دور کی بات ہے جب مسجد الكتبية قائم ہوئی تھی۔ اس کے 77 میٹر اونچے مینار کو افریقی فن تعمیر کا شاہکار تصور کیا جاتا ہے۔ سپین کے شہر سیویلے میں ’سانتا ماریا ڈی لا سیڈے‘ کے کیتھیڈرل کا ٹاور گرالڈا بھی اسی سے متاثر ہو کر بنایا گیا تھا۔
یہ ایک کیتھولک چرچ ہے جو اس سے پہلے ایک مسجد ہوا کرتی تھی۔ اس وقت اس شہر کو ’اسبیلیہ‘ کہا جاتا تھا اور یہ موجودہ سپین میں الاندلس (اندلس) کا دارالحکومت تھا۔
یہاں قدیم قیمتی شاہکار بھی بھی باقی ہیں، جیسا کہ پرانے شہر مدینہ کے اندر ایک ایسا ضلع جس میں شاہی محل اور باغات کے ساتھ ساتھ دیواریں اور کئی یادگار دروازے ہیں۔
اس طرح کے عجائبات اس تاثر کو زائل کرتے ہیں جو الموراوید اور الموحد قبائل کے بارے عرب تاریخ میں پائے جاتے ہیں جن میں انھیں ’جاہل‘ اور ’غیر نفیس‘ کہا گیا ہے۔
یونیسکو کے مطابق مراکش کی تاریخ میں دیگر ایسے قدیم شاہکار بھی شامل ہیں جیسے سعدین کے مقبرے (16ویں صدی)، البادی محل (16ویں صدی) اور باہیہ محل (19ویں صدی)، جن میں سے ہر ایک منفرد ہے اور ان کا اپنا ایک مقام ہے۔
جماعۃ الفنا سکوائر کا ثقافتی ورثے کی ایک مخصوص فہرست میں ذکر ہے۔
یعنی اگر یوں کہا جائے تو غلط نہیں ہو گا کہ مدینہ شہر (پرانا شہر) کے 700 ہیکٹر ایک قدیم مگر زندہ تاریخی شہر کی ایک بہترین مثال پیش کرتے ہیں۔ جس کی گلیاں، مکانات، سرائے اور مساجد فنِ تعمیر کی ایک منفرد مثال پیش کرتے ہیں۔
،تصویر کا ذریعہGetty Images
مراکش کا پاشا اور جسم فروشی کا کاروبار
تاہم مراکش ہمیشہ سے ہی مراکش کا شاہی شہر نہیں تھا۔ گذشتہ صدیوں میں یہ اعزاز میکنیس، فیض اور رباط کو ملا۔
رباط کو فرانسیسیوں نے 1912 میں سلطانوں کے ساتھ ایک معاہدے تک پہنچنے کے بعد اپنی فوج کے دارالحکومت کے طور پر منتخب کیا تھا جنھوں نے شمالی افریقہ پر قبضہ کرنے اور نوآبادیاتی حکومت کے نفاذ میں اہم کردار ادا کیا۔
تاہم فرانسیسی حکمرانی میں بھی مراکش آزادی کی تحریکوں کے باعث بغاوتوں کا اتنا شکار تھا کہ فرانسیسی انتظامیہ اس سے نمٹنا نہیں چاہتی تھی۔
فرانسیسیوں نے اس وجہ سے اقتدار ’تھمی ایل گلووی‘ کو دیا جو ان جنگجو سرداروں میں سے ایک تھا جو اٹلس پہاڑوں کے قبائل کی قیادت کر رہا تھا۔
انھوں نے اس کا نام ’ماراکیش کا پاشا‘ رکھا اور اسے شہر اور جنوبی مراکش پر مکمل آزادی سے اقتدار کا موقع دیا۔
گلووی کو فرانسیسیوں کے ساتھ تعاون کرنے یا قوم پرستوں اور دوسرے دشمنوں کو پھانسی دینے اور ان کی لاشوں کو سرعام لٹکانے، یا انھیں اپنے زندانوں میں قید کرنے کی کھلی چھوٹ تھی۔
اس دوران، وہ اپنی حیثیت کے مطابق زندگی گزارتا تھا، ایک پاشا کی طرح۔ وہ ہر وقت آسائشوں سے گھرا ہوا ہوتا تھا اور غلاموں کا ایک لشکر اور 150 خواتین پر مبنی حرم اس کی خدمت پر مامور ہوتا تھا۔ یہ تمام تفصیلات برطانوی مصنف گیون میکسویل نے ہمیں ’لارڈز آف دی اٹلس‘ میں بتائی ہیں۔
انھوں نے زیتون، بادام اور زعفران کی تجارت سے خوب مال بنایا لیکن اس کی جن کاموں سے اس نے سب سے زیادہ مال بنایا وہ جرائم میں شمار ہوتے تھے۔ اس میں نہ صرف منشیات اور جسم فروشی بھی تھی جسے انھوں نے کنٹرول کیا اور بے پناہ مال بنایا۔
یہ اندازہ لگایا جاتا ہے کہ آزادی سے پہلے 1956 میں مراکش میں تقریباً 27 ہزار رجسٹرڈ جسم فروش خواتین کام کرتی تھیں، جو کہ آبادی کا تقریباً 10 فیصد تھیں۔
،تصویر کا ذریعہGetty Images
کھیل کے میدان
لیکن ایل گلووی ایک ایسا حکمران تھا جس نے مراکش میں بہت سے شہری منصوبوں کی نگرانی کی تھی۔ اس نے محلوں سے لے کر مراکش کے پہلے گولف کورس تک سب کچھ بنایا اور ساتھ ہی ایک خوبصورت ٹرین سٹیشن جس کے ذریعے کاسا بلانکا شہر کے ساتھ ریلوے کا نیا رابطہ قائم ہوا۔
یہ ان کی حکومت کے دوران ہی تھا کہ گولیز شہر تعمیر کیا گیا تھا جو مدینہ کی دیواروں کے ساتھ ایک بالکل نیا یورپی طرز کا شہر تھا جس میں وسیع بلیوارڈز جیکارنڈا کے درخت، کیفے، خوبصورت باغات تھے۔
سرخ شہر کے اندر، افسانوی لا مامونیہ ہوٹل 1923 میں قائم ہوا تھا۔
اس شہرکے نام کا مطلب ہے ’پناہ حاصل کرنے کی جگہ‘ ہے اور یہی شہر مراکش کے پاشا کی حکومت کی بربریت کے باوجود دنیا کے اشرافیہ کے لیے پناہ گاہ بن گیا۔ یہاں جوزفین بیکر، ایڈتھ پیاف اور چارلی چیپلن جیسی مشہور شخصیات کو ان کے محلات میں پرتعیش ضیافتوں کے ساتھ خوش آمدید کہا گیا اور ان پر تحائف کی بارش کی گئی۔
ونسٹن چرچل بھی برطانیہ کے وزیر اعظم بننے سے پہلے ہی مراکش سے انتہائی متاثر تھے۔
انھوں نے اسے ’صحارا کا پیرس‘ کہا اور ان کے لیے یہ شہر ’ایک سہ پہر گزارنے کے لیے دنیا کی سب سے خوبصورت جگہ‘ تھا۔
دوسری جنگ عظیم کے دوران ان کے مصروف شیڈول نے بھی انھیں اس شہر سے دور نہیں رکھا۔
ان بہت سی خوبصورت دوپہروں میں سے ایک ولا ٹیلر میں گزاری گئی جو کہ قدیم شہر میں ان کی پسندیدہ جگہ تھی۔ انھوں نے سنہ 1943 میں امریکی صدر فرینکلن ڈی روزویلٹ اور دیگر اتحادیوں کے ساتھ کاسا بلانکا میں سربراہی اجلاس میں شرکت کی تھی جس میں وقفے کے دوران وہ یہاں آئے تھے۔
قصبے کے سب سے اونچے حصے سے دونوں رہنماؤں نے غروب آفتاب کے جادوئی لمحے کا لطف اٹھایا تھا جب آخری کرنوں نے اٹلس پہاڑوں کی برف پوش چوٹیوں کو رنگین کر دیا تھا۔
روزویلٹ نے مسحور ہو کر کہا تھا کہ ’میں ایک سلطان کی طرح محسوس کرتا ہوں‘، برطانوی وزیر اعظم کی پوتی سیلیا سینڈیز نے اپنی کتاب ’ٹریولز ود ونسٹن چرچل‘ میں یہ واقعہ بیان کیا ہے۔
چرچل نے اس موقع پر کہا کہ ’یہ دنیا کی سب سے خوبصورت جگہ ہے۔‘
،تصویر کا ذریعہGetty Images
جادوئی رنگ
پھر دیکھتے ہی دیکھتے سب کچھ ختم ہو جاتا ہے۔ الگلوئی کی طاقت کا خاتمہ اس وقت ہوا جب اس نے سلطان محمد پنجم کے خلاف سازش کی جنھیں مراکش کے قوم پرستوں کی حمایت حاصل تھی۔
سنہ 1956 میں آزادی کے ساتھ ہی، سلطان بادشاہ بن گئے اور ایلگلوئی کو گھٹنے ٹیکنے پر مجبور ہونا پڑا۔ اس کے فوراً بعد ہی ان کی موت واقع ہوئی اور انھیں عوام کا غدار قرار دیا گیا۔
اقتدار کی اس تبدیلی نے اور بھی زیادہ غیر ملکیوں کے لیے دروازے کھول دیے، امیر اور مشہور افراد، شہر کا دورہ کرنے والے جو کبھی چند دنوں کے لیے اور کبھی برسوں کے لیے آیا کرتے تھے۔
بیٹلز اور رولنگ سٹونز نے یہاں کرسمس ایک ساتھ گزارا اور ماریانے فیتھ فل، اینڈی وارہول، لوولو ڈی لا فالائس اور اوسی کلارک جیسی مشہور شخصیات بھی یہاں ٹھہر چکی ہیں۔
ممتاز فیشن کالم نگار اور ووگ ایڈیٹر انچیف ڈیانا ویری لینڈ نے لکھا ہے کہ ’ایک دن جو اٹلس پہاڑوں میں آبشار کے قریب پکنک کے ساتھ شروع ہوتا ہے وہ مراکش کے نوجوان اور یورپی دوستوں، فنکاروں، ادیبوں، موسیقاروں سے بھرے گھر میں رات کے کھانے کے ساتھ ختم ہو سکتا ہے۔‘
،تصویر کا ذریعہGetty Images
لیکن مراکش نے صرف مسحور کن اشرافیہ کو اپنی طرف متوجہ نہیں کیا۔ یہ ہپیز اور بوہیمینز کے لیے بھی ایک مقناطیس بن گیا جو سورج، آزادی اور شاید تھوڑی سی بدکاری کی تلاش میں آئے تھے۔
یہ روایت شہر میں بہت سے دوسرے چیزوں کی طرح برقرار ہے۔
مراکش ہزاروں یورپی تارکین وطن اور ریٹائر ہونے والوں کے لیے ایک آپشن ہے جو ایک غیر ملکی طرز زندگی کے خواہاں ہیں لیکن اتنی جدیدیت میں لپٹے ہوئے ہیں کہ وہ سمندری بیماری کا شکار نہ ہوں۔
مراکش کے دس لاکھ سے بھی کم باشندے ہیں لیکن یہاں ایک سال میں تقریباً 30 لاکھ سیاح آتے ہیں۔ ان میں ستارے بھی شامل ہیں جیسے میڈونا، جنھوں نے وہاں اپنی 60 ویں سالگرہ منائی۔ ان کے علاوہ مقبول ناموں میں کرسٹیانو رونالڈو اور رابرٹ ڈی نیرو شامل ہیں جنھوں نے شہر میں اپنے ہوٹل بنانے کا فیصلہ کیا ہے۔ یہ فہرست بہت طویل ہے۔
،تصویر کا ذریعہGetty Images
دراڑیں اور ملبہ
فی الحال، انسانی المیہ ترجیح ہے۔ جسمانی اور نفسیاتی زخموں کو بھرنے میں وقت لگے گا۔
لیکن وقت پر شہر کی تاریخ کو محفوظ کرنا بھی ضروری ہے۔ یونیسکو کے مطابق حالیہ زلزلے سے پہنچنے والے نقصان کے جائزے کے بعد کہا جا سکتا ہے کہ خربوچ مسجد کا مینار اور جماعۃ الفنا چوک تقریباً مکمل طور پر تباہ ہو چکے ہیں۔ الكتبية مسجد کے مینار میں شدید دراڑیں پڑ گئی ہیں۔
میلہ کے پرانے یہودی محلے میں کئی مکانات منہدم ہو گئے ہیں۔ پرانے شہر کی مشہور سرخ پتھر کی دیوار میں بے شمار دراڑیں اور سوراخ ہیں۔
خوش قسمتی سے مراکش کے پاس فنکاروں اور کاریگروں کا ورثہ موجود ہے جنھوں نے کئی دہائیوں سے اپنے ٹھوس ورثے کو محفوظ اور بحال کیے رکھا ہے۔
سیاسی وجوہات کی بنا پر اپنے ابتدائی سالوں میں فرانسیسی محافظوں نے مراکش میں ایک ثقافتی مہم چلائی جس میں مراکش میں کاریگروں کے سکولوں کی تخلیق شامل تھی تاکہ قرون وسطی کے طریقوں کو دستاویزی شکل دی جا سکے اور ان طریقوں کو سیکھا جا سکے جن کے ساتھ قدیم شہر بنایا گیا تھا۔
انہی فنکاروں نے مدینہ کو محفوظ رکھنے میں مدد دی ہے جس کی بہت سے لوگ تعریف کرتے ہیں اور اب ان دراڑوں کو مٹانے کے لیے بھی ان کی ضرورت پڑے گی تاکہ یہ شہر مستقبل میں بھی اپنا جادو دکھا سکے۔
Comments are closed.