شہزادی ڈیزی: جلاوطنی میں موت کا شکار ہونے والی شہزادی جنھوں نے عالمی جنگ روکنے کی کوشش کی،تصویر کا ذریعہJames Lafayette/Wikipedia Commons2 گھنٹے قبلقصرِ کشاز کا شمار دنیا کے ان خوبصورت ترین شاہی محلات میں ہوتا ہے جس کا شاید آپ نے نام بھی نہ سُنا ہو۔ یہ محل پولینڈ کے جنوب مغربی ہرے بھرے پہاڑی علاقے میں واقع ہے اور اسے دیکھ کر ایسا محسوس ہوتا ہے جیسے یہ عمارت سبز سمندر کے بیچ و بیچ کھڑی ہو۔یہ محل سلیزیا کے شہزادے بولکو اول نے 13ویں صدی میں تعمیر کروایا تھا لیکن ان کے بعد اس محل میں رہنے والا ہر ایک مکین اس پر انمٹ نقوش چھوڑ گیا ہے۔ پتھروں سے بنے مینار، گلابی مائل دیواریں اور گنبد نما چھتیں اس محل کا حصہ ہیں جو کہ دیکھنے والوں کو اپنے سحر میں گرفتار کر لیتی ہیں۔وسطیٰ یورپ کے دل میں واقع اس انتہائی دلکش شاہی محل کو اس کے ایک مکین کی وجہ سے جانا جاتا ہے۔ یہ مکین ایک انگریز شہزادی تھیں جن کا اصل نام تو میری تھریسا اولیویا کورنوالس ویسٹ تھا لیکن وہ ڈیزی وان پلیس کے نام سے زیادہ مشہور ہیں۔

ڈیزی کو شاہی خاندان پر لکھنے والے جریدے اکثر یورپ کی سب سے خوبصورت شہزادی بھی گردانتے ہیں جنھوں نے اس خطے کو نہ صرف معاشرتی اصلاحات کے ذریعے بہتر بنایا بلکہ پہلی عالمی جنگ کو روکنے کی بھی کوشش کی۔اس شہزادی کی موت کے 80 برس بعد بھی انھیں یاد کیا جاتا ہے۔،تصویر کا ذریعہAlamyمیٹ مئیکیٹائزن ڈیزی وان پلیس فاؤنڈیشن کے بانی ہیں اور ان کے ادارے کا مقصد شہزادی ڈیزی کی میراث کو فروغ دینا ہے۔وہ کہتے ہیں کہ ’ان کی یادیں کمیونسٹوں نے مٹا دی تھیں۔ میرے خیال میں انھیں ہم سلیزیا کی شہزادی ڈیانا بھی کہہ سکتے ہیں۔‘شہزادی ڈیزی سنہ 1873 میں جنوبی ویلز کے روتھن ویلز میں پیدا ہوئی تھیں۔ ان کا تعلق ایک معروف خاندان سے تھا اور ان کی آنکھیں پلیس کے شہزادے ہینس ہینرک سے چار ہو گئیں جن کا تعلق ہاکبرگ خاندان سے تھا۔دونوں کی شادی ہوئی اور انھوں نے قصرِ کشاز سمیت ہاکبرگ خاندان کے دو محلوں میں زندگی گزاری۔شہزادی صرف 18 برس ہی کی تھیں جب انھیں شادی کے بعد ایک علیحدہ مگر سخت قواعد والی دنیا میں قدم رکھنا پڑا۔ یہ وقت تھا جب یورپ کے شاہی خاندان کو موجودہ وقت میں سلیبریٹیز کا درجہ حاصل تھا، ایسے میں نوجوان شہزادی کی خوبصورتی نے نہ صرف دنیا کی توجہ ان کی طرف مبذول کروائی بلکہ انھوں نے بڑے خاندانوں کو بھی ہلا کر رکھ دیا۔باربرا بورکوی شہزادی ڈیزی کی سرگزشت ’سسٹرز: پرنسز ڈیزی آف پلیس اینڈ شیلاغ ڈچز آف وِنچیسٹر‘ کی مصنف ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ ’ڈیزی محفلوں کی روح اور جان ہوا کرتی تھیں۔‘وہ کہتی ہیں کہ ’ان تک نہ صرف رسائی ممکن تھی بلکہ وہ عاشقانہ مزاج بھی رکھتی تھیں اور انھیں ہر شخص پسند کرتا تھا۔‘باربرا کے مطابق شہزادی مزاجاً شوخ و چنچل تھیں اور اپنی ’برطانوی حسِ مزاح‘ کی وجہ سے مشہور تھیں۔ مصنفہ مزید کہتی ہیں کہ ایسی بہت سی کہانیاں موجود ہیں جو کہ شاہی محل میں شہزادی کی شرارتوں کی گواہیاں دیتی ہیں۔،تصویر کا ذریعہAlex Webberمیٹ مئیکیٹائزن کہتے ہیں ’وینیٹی فیئرز جیسے جریدے شہزادی ڈیزی کی کہانیوں سے بھرے رہتے تھے۔ انھوں کیسے کپڑے پہنے یا کیسی محفلیں منعقد کیں۔‘’جب وہ محل سے نکلا کرتی تھیں تو صحافی ان کا پیچھا کیا کرتے تھے۔‘سنہ 1901 میں جب ان کی برق رفتار گاڑی حادثہ کا شکار ہوئی تو اس کی خبریں دور دراز آسٹریلیا تک بھی پہنچیں۔لیکن شرارتوں کے لیے مشہور شہزادی ڈیزی کی شخصیت کا ایک پہلو اور بھی تھا۔ انھوں نے کبھی باقاعدہ تعلیم تو حاصل نہیں کی لیکن اس کے باوجود وہ کمال کی دوراندیش تھیں۔جب پہلی عالمی جنگ سے دنیا دوچار ہوئی تو انھوں نے یورپ کے رہنماؤں کو اکھٹا کر کے مفاہمت کروانے کی کوشش کی تاکہ دنیا کو ایک قیامت خیز جنگ سے بچایا جا سکے۔میٹ مئیکیٹائزن کہتے ہیں کہ شاید شہزادی کسی خوش فہمی کا شکار تھیں ’لیکن انھوں نے سوچا کہ شاید اگر سب مل کر بیٹھ سکیں تو جنگ کو ٹالا جا سکتا ہے۔‘یورپ میں جنگ کے بادل گرج رہے تھے اور ایسے میں ہر طرف چھائے پاگل پن میں شہزادی ڈیزی کی آواز عقل و دانش کی کرن جیسی محسوس ہوتی تھی۔باربرا کہتی ہیں کہ ’وہ دیکھ رہی تھیں کہ کیسے رشتے بگڑ رہے ہیں اور اسی لیے انھوں نے پوری کوشش کی کہ کسی طرح قیصر ولہیلم دوم اور شہنشاہ جارج پنجم کے درمیان ملاقات کروائی جا سکے۔‘وہ کہتی ہیں کہ ’ان کی کوشش بیکار گئی لیکن ان کی کوششیں قائدانہ تھیں۔‘،تصویر کا ذریعہAlamyپہلی عالمی جنگ کا زمانہ شہزادی ڈیزی کے لیے مشکل تھا۔ جرمنی میں لوگوں کا خیال تھا کہ وہ برطانوی جاسوس ہیں جبکہ کچھ برطانوی افراد ریڈ کراس کے لیے ان کے کام اور اس کے تحت جرمن فوجیوں کے علاج کو تنقید کا نشانہ بناتے تھے۔ایک ایسا وقت بھی آیا جب محفلوں کی جان سمجھی جانے والی شہزادی ڈیزی کو ان کے کئی دوستوں نے تنہا چھوڑ دیا۔باربرا کہتی ہیں کہ ’اس سے انھیں پریشانی ہوئی۔ ان کے ایک خط میں انھوں نے محل سے قریب ایک جھیل میں ڈوب جانے کی بھی بات کی۔‘اس سے ان کی ازدواجی زندگی پر بھی اثر پڑا اور بلآخر 1922 میں ان کی اور شہزادہ ہینرک کی طلاق ہو گئی۔ وہ طلاق کے بعد فرسٹنسٹائن میں رہیں اور فلاحی کام جاری رکھے۔میٹ مئیکیٹائزن کہتے ہیں کہ ’ہینس ہینرک ان سے عمر میں 12 برس بڑے تھے۔ ڈیزی کو جرمن زبان پر عبور حاصل نہیں تھا اس لیے فرسٹنٹائن میں ان کی زندگی تنہائی میں گزر رہی تھی اور اسی وجہ سے انھوں نے فلاحی کاموں میں اپنا سکون تلاش کیا۔‘شہزادی ڈیزی نے بچوں کے لیے جراثیم سے پاک دودھ کے سٹیشن قائم کیے اور ذہنی محرومیوں کا شکار بچوں کے لیے ایک سکول بھی قائم کیا۔باربرا کہتی ہیں کہ ’ایسے پروجیکٹس برطانیہ میں شروع ہو رہے تھے لیکن سلیزیا میں ایسے پروجیکٹس کا نام بھِی نہیں سُنا گیا تھا۔،تصویر کا ذریعہAlamyشہزادی ڈیزی نے کپڑوں پر دستکاری کرنے والی خواتین کے لیے ایک کمپنی بھی قائم کی جس کا کام یہ یقینی بنانا تھا کہ اس کاروبار سے ملنے والا منافع ان خواتین کے پاس ہی رہے۔ اس کے علاوہ انھوں نے اپنے علاقے سے گزرنے والے دریا کو آلودگی سے پاک رکھنے کے لیے برطانوی ماہرِ جرثومیات رابڑٹ گرین کی بھی خدمات حاصل کیں۔میٹ مئیکیٹائزن کہتے ہیں کہ ’یہ ماحول دوست کوششیں اپنے وقت سے بہت آگے کی تھیں۔ کچھ وقت ضرور لگا لیکن ان کی کوششوں سے ان کے علاقوں سے کالا بخار اور پیٹ کی بیماریاں ختم ہو گئیں۔‘یہ فلاحی کام شہزادی ڈیزی کی پہچان بن چکے تھے۔ کرسمس کے موقع پر وہ ہزاروں مقامی لوگوں کو محل میں مدعو کرتیں اور ان کے بچوں کو تحفے میں کھلونا دیا کرتی تھیں۔وہ اپنے خاص ملازمین کے ساتھ برطانوی طرز کی کرسمس کی پارٹیوں سے بھی لُطف اندوز ہوا کرتی تھیں۔ یوں سمجھیں کہ وہ انواع اقسام کے کھانوں سے نہ صرف ان کی تواضع کیا کرتی تھیں بلکہ ان کے ناز و نخرے بھی اُٹھایا کرتی تھیں۔آج جب آپ پولینڈ کے تیسرے بڑے محل ’دا پرل آف سلیزیا‘ کا دورہ کرتے ہیں تو آپ شہزادی ڈیزی سے زیادہ دور نہیں رہتے۔ اسے ’دا پرل‘ شاید اس لیے کہا جاتا ہے کیونکہ شہزادی ڈیزی کے پاس موتیوں سے بنا ایک مشہور ہار تھا۔یہ ہار انھیں ہنی مون کے دوران شہزادے ہینزک نے تحفے میں دیا تھا لیکن یہ 19 فٹ لمبا خوبصورت ہار کہیں گُم ہو گیا اور اس کی گمشدگی آج بھی ایک معمہ ہے۔،تصویر کا ذریعہ Alex Webberاس گمشدگی نے بھوتوں کی کہانیوں کو جنم دیا۔ آج اس محل کا دورہ کروانے والے گائیڈز سیاحوں کو ایک ایسے شریر بونے کی کہانیاں سُناتے ہوئے نظر آتے ہیں جنھیں شہزادی ڈیزی نے اپنی آنکھوں سے دیکھا تھا۔یہ محل دن کی روشنی میں بھی انتہائی خوبصورت نظر آتا ہے اور یہاں موجود میکسی ملن ہال بھی سیاحوں کی توجہ کا مرکز ہے۔ یہ ہال وہ ہے جہاں ڈیزی اور ہینرک ونسٹن چرچل جیسے مہمانوں سے ملاقاتیں کیا کرتے تھے۔چرچل اس زمانے میں اُبھرتے ہوئے سیاستدان تھے اور انھوں نے 1905، 1906 اور 1912 میں فرسٹنٹائن کا دورہ کیا تھا۔ میٹ مئیکیٹائزن کہتے ہیں کہ ’وہ چرچل کی بڑی ناقد تھیں۔ ان کے مطابق چرچل بلند آواز اور جلدباز تھے لیکن وہ یہ بھی کہہ گئیں تھیں کہ ایک دن وہ وزیرِ اعظم بنیں گے۔‘قصرِ کشاز میں آویزاں تصویریں اس محل میں گزرنے والی زندگیوں کی کہانیاں سُناتی ہیں۔ یہ تصاویر محل کے خانساماں نے بنائیں تھیں جو کہ تصویر کشی کے شوقین تھے۔لوئس ہاروئن نے شہزادی ڈیزی کی خاندان کے ہمراہ متعدد تصاویر بنائیں تھیں۔شہزادی ڈیزی کی 150 ویں سالگرہ کے جشن کے موقع پر محل میں ایک نمائش کا اہتمام کیا گیا تھا جہاں ان اشیا کو رکھا گیا جو شہزادی کے زیرِ استعمال رہیں۔ ان اشیا میں شہزادی ڈیزی کا آئینہ اور آتش دان بھی شامل ہیں۔شہزادی ڈیزی خود یہ اعتراف کرتی تھیں کہ وہ اپنے آتش دان کے پاس بیٹھ کر کتابیں پڑھنا پسند کیا کرتی تھیں۔ یہ وہی جگہ تھی جہاں بیٹھ کر وہ اپنی ڈائری لکھا کرتی تھیں اور ان میں سے تین جرنل ان کی زندگی میں ہی چھپی تھیں۔باربرا کہتی ہیں کہ ’وہ اپنے دور کی ایک بہترین داستان گو تھیں۔ یہ ایک آزمائی ہوئی بات ہے کہ ایڈورڈین اور وکٹورین تاریخ دان اپنی کتابوں میں شہزادی ڈیزی کی لکھی ہوئی باتوں کا حوالہ دیتے ہیں۔‘شہزادی ڈیزی کے محل کو دیکھ کر اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ انھیں باغبانی سے بھی دلچسپی تھی اور وہ مہمانوں کو باغوں کی سیر کروانا بھی پسند کرتی تھیں۔تاہم ڈیزی نے اپنی زندگی کی آخری سانسیں فرسٹنٹائن میں نہیں لیں۔ ہاکبرگ خاندان بہت امیر تھا لیکن شہزادے ہینرک کی شاہ خرچیوں کا اثر ان کی دولت پر پڑتا ہوا نظر آیا۔ہاکبرگ خاندان کو اپنا قرضہ اتارنے کے لیے 1943 میں یہ محل نازیوں کے حوالے کرنا پڑا تھا۔میٹ مئیکیٹائزن کہتے ہیں کہ ’یہ منصوبہ بنایا گیا تھا کہ نازی جرمنی کی وزارتِ خارجہ اس محل میں بنائی جائے گی۔ ایڈولف ہٹلر، گورنگ اور ربنٹروپ کے اپارٹمنٹ بھی ایک زمانے میں یہیں موجود تھے۔‘لیکن مشرقی محاذ پر ناکامی کے سبب ہٹلر اس محل کا کبھی دورہ نہیں کر سکے۔ اس محل کے نیچے 50 میٹر چوڑی خفیہ سُرنگیں بھی بنائی گئی تھیں۔،تصویر کا ذریعہAlex Webberآج تک یہ معلوم نہیں ہو سکا ہے کہ ان سرنگوں کا مقصد کیا تھا لیکن یہ اندازہ لگایا جاتا ہے کہ یہ سرنگیں صرف پناہ گاہیں نہیں تھیں بلکہ یہاں ہٹلر کے نام نہاد ’ونڈر ویپنز‘ بنائے جانے تھا یا پھر چُرایا ہوا خزانہ چھپایا جانا تھا۔سنہ 1941 میں ڈیزی کو جلا وطن کر دیا گیا تھا اور وہ اس وقت جرمن نام سے مشہور علاقے والڈن برگ میں رہائش پزیر ہوئی تھیں۔سنہ 1943 میں وہ متعدد بیماریوں سے نبرد آزما تھیں اور چلنے پھرنے سے قاصر وہیل چیئر کا سہارا لینے پر مجبور ہوگئیں تھیں۔اسی برس 23 جون کو انھوں نے اپنی 70 ویں سالگرہ منائی اور اس موقع پر وہاں موجود بینڈ نے ان کے لیے برطانوی نغمے بھی بجائے۔ اس کے اگلے ہی دن وہ موت کے آغوش میں سو گئیں۔وہ گھر جہاں انھوں نے اپنی آخری سانسیں لیں آج بھی موجود ہے لیکن اسے دیکھ کر ویرانی کا احساس ہوتا ہے۔ ایک عوامی پارک کے اندر واقع گھر کے اردگرد کئی سارے درخت ہیں اور یہاں موجود لوگوں کو اکثر یہ احساس ہوتا ہے کہ شاید کسی کھڑکی میں شہزادی ڈیزی کھڑی ہوں۔شہزادہ ہینرک نے شہزادی ڈیزی کو پام ہاؤس بھی تحفے میں دیا تھا جو کہ 19 سو مربع میٹر پر پھیلا ہوا ہے۔ یہاں 49 فٹ لمبا گرین ہاؤس بھی موجود ہے جہاں جاپانی طرز پر بنے ایک باغ میں پودوں کی 250 زائد اقسام موجود ہیں۔والڈنبرگ اور کشاز کے درمیان واقع اس پام ہاؤس کے بارے میں شہزادے ہینرک نے کہا تھا کہ یہ ایک ’لحیم شحیم‘ پھولوں کا گُلدستہ ہے جو وہ اپنی اہلیہ کو تحفے میں در رہے ہیں۔شہزادی ڈیزی سے لگاؤ رکھنے والے افراد والڈنبرگ کے مشرق میں تین گھنٹے سفر کر کے ایک اور مقام پر جا سکتے ہیں جہاں ہاکبرگ محل واقع ہے جہاں ان کی ایک یادگار بھی بنائی گئی تھی۔دوسری جانب برطانیہ میں ان کے بچپن کے گھر روتھن محل کو ایک پرتعیش سپا میں تبدیل کردیا گیا ہے۔اس کے باوجود سلیزیا میں شہزادی ڈیزی کو سب سے زیادہ یاد کیا جاتا ہے۔ دہائیوں تک تاریخ سے غائب شہزادی ڈیزی کی آواز ایک بار پھر محل اور علاقے میں سُنائی دے رہی ہے جسے انھوں نے مثبت طور پر تبدیل کر کے رکھ دیا۔
BBCUrdu.com بشکریہ

body a {display:none;}