مارٹن بشیر: شہزادی ڈیانا کے ’دھوکہ دہی‘ سے کیے گئے انٹرویو پر بی بی سی کو سخت تنقید کا سامنا
- فرانچیسکا جلیٹ
- بی بی سی نیوز
سنہ 1995 میں مارٹن بشیر کے شہزادی ڈیانا سے کیے گئے انٹرویو پر ایک حالیہ انکوائری رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ انٹرویو کے وقت بی بی سی نے اپنی ’دیانت داری اور شفافیت کے اعلیٰ میعار کو برقرار نہیں رکھا تھا۔‘
انکوائری رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ مارٹن بشیر نے شہزادی ڈیانا سے انٹرویو کا وقت حاصل کرنے کے لیے ’دھوکہ دہی‘ سے جعلی دستاویزات تیار کیے تھے۔ اس تحقیقاتی رپورٹ میں مزید کہا گیا ہے کہ اس معاملے پر 1996 میں بی بی سی کی اپنی اندرونی انکوائری ’افسوسناک حد تک ناقص اور غیر موثر‘ تھی۔
بی بی سی اور مارٹن بشیر دونوں نے اس معاملے پر معذرت کی ہے اور بی بی سی نے شہزادہ ولیم اور شہزادہ ہیری کو بھی معذرتی خط لکھا ہے۔
بی بی سی کا یہ کہنا ہے کہ اس انکوائری رپورٹ سے ’واضح قسم کی ناکامیاں‘ ظاہر ہوئی ہیں، اور یہ بھی تسلیم کیا ہے کہ اُسے اس معاملے کی گہرائی میں جانا چاہیے تھا تاکہ ادارہ جان سکتا کہ اُس وقت اصل حقائق کیا تھے۔
بی بی سی نے شہزادی ڈیانا کے بیٹوں سے معذرت کرنے کے ساتھ ساتھ شہزادہ چارلس اور شہزادی ڈیانا کے بھائی ارل سپنسر کو بھی معذرتی خطوط بھیجے ہیں۔ بی بی سی اس انٹرویو کو سنہ 1996 میں بافتا ٹی وی ایوارڈ سمیت حاصل ہونے والے تمام ایوارڈ بھی واپس لوٹا رہا ہے۔
مارٹن بشیر نے کہا کہ ان کا اس وقت جعلی دستاویزات تیار کروانا ’ایک احمق ترین حرکت تھی‘ اور وہ اپنی اس حرکت پر نادم ہیں، لیکن انھوں نے کہا کہ ان کی اس حرکت کا شہزادی ڈیانا کے انٹرویو دینے کے فیصلے پر کوئی اثر نہیں پڑا تھا۔
یہ بھی پڑھیے
بینک کی وہ جعلی دستاویز جس سے ڈیانا کا اعتماد حاصل کیا گیا۔
انکوائری رپورٹ کے مشاہدات
برطانیہ کے ایک ریٹائرڈ جج لارڈ ڈائیسن ، جنھوں نے اس معاملے کی انکوائری کی ہے نے رپورٹ میں کہا ہے کہ:
مارٹن بشیر نے شہزادی ڈیانا تک رسائی حاصل کرنے کے لیے جعلی بینک دستاویزات تیار کر کے بی بی سی کے قوانین کی سنگین خلاف ورزی کی تھی۔
مارٹن بشیر نے شہزادی ڈیانا کے بھائی، ارل سپینسر، کو جعلی دستاویزات دکھا کر دھوکہ دیا اور پھر ان کا اعتماد حاصل کیا تاکہ وہ انھیں شہزادی ڈیانا تک رسائی دلوا دیں۔ اس انکوائری رپورٹ کے مطابق ’اس انداز سے شہزادی ڈیانا تک رسائی حاصل کرنے سے مسٹر بشیر نے انھیں انٹرویو دینے کے لیے راضی کیا۔‘
اور جیسے جیسے انٹرویو میں میڈیا کی دلچسپی بڑھتی گئی ، بی بی سی نے اس بات پر پردہ ڈال دیا کہ بشیر نے اس انٹرویو کو کس طرح ممکن بنایا تھا۔ جج لارڈ ڈائیسن کا کہنا تھا کہ ادارہ نے اپنی ’دیانت داری اور شفافیت کے اعلیٰ میعار کو برقرار نہیں رکھا تھا جو اس کی خصوصیات میں سے ایک ہے۔‘
اس انکوائری رپورٹ میں یہ بھی کہا گیا ہے کہ مسٹر بشیر نے بعد میں اس وقت جھوٹ بولا تھا جب انھوں نے بی بی سی کے مینیجروں سے یہ کہا کہ انھوں نے یہ جعلی دستاویزات کسی کو نہیں دکھائی تھیں۔
انکوائری رپورٹ کے مطابق، مسٹر بشیر نے سنہ 1995 کے جو واقعات بیان کیے ہیں وہ نمایاں طور پر ’ناقابلِ بھروسہ ہیں، ان پر یقین نہیں کیا جا سکتا ہے اور بعض معاملات میں تو بے ایمانی بھی نظر آتی ہے۔‘
اپنے ایک بیان میں مسٹر بشیر نے جعلی دستاویزات بنانے پر معذرت کی ہے، لیکن انھوں نے اصرار کیا ہے کہ وہ یہ انٹرویو کرنے پر’بے انتہا فخر‘ محسوس کرتے ہیں۔ انھوں نے کہا کہ ’بینک کی دستاویزات کا شہزادی ڈیانا کے انٹرویو دینے کے ذاتی فیصلے پر کسی بھی قسم کا کوئی اثر نہیں پڑا تھا۔‘
’اس انکوائری کو ثبوت کے طور پر دی گئی ان (شہزادی ڈیانا) کے اپنے ہاتھ کی لکھی ہوئی تحریر (جسے رپورٹ میں شائع بھی کیا گیا ہے) کسی بھی شک و شبے سے بالا ہو کر اس بات کی تصدیق کرتی ہے اور لارڈ ڈائیسن کو دیے گئے دیگر شواہد بھی اس بات کو مزید ثابت کرتے ہیں۔‘
اس انکوائری میں پہلی مرتبہ شہزادی ڈیانا کا دسمبر سنہ 1995 میں تحریر کردہ نوٹ بھی شائع کیا گیا ہے۔
،تصویر کا ذریعہDyson Investigation
ڈیانا کا مارٹن بشیر کو سنہ 1995 میں تحریر کردہ خط جو لارڈ ڈائیسن کے مطابق مسٹر بشیر کو 2020 میں ملا۔
لارڈ ڈائیسن نے انکوائری رپورٹ میں کہا کہ مسٹر بشیر کو شہزادی ڈیانا کا تحریر کردہ یہ نوٹ نومبر سنہ 2020 میں اپنے گھر کی تلاشی کے دوران ملا تھا، اور انھوں نے اسے بی بی سی کے اہلکاروں کو دیا تھا۔
نوٹ میں لکھا ہے ’مارٹن بشیر نے مجھے کوئی دستاویزات نہیں دکھائیں، اور نہ ہی مجھے کوئی ایسی معلومات دیں جس کے بارے میں، میں پہلے سے واقف نہیں تھی۔‘
لارڈ ڈائیسن نے یہ نتیجہ اخذ کیا کہ 1996 میں وہ انکوائری، جس نے مسٹر بشیر، پینورما اور بی بی سی کے غلط کاموں کی خبروں کو بری الذمہ قرار دیا تھا، یہ ‘افسوسناک حد تک ناقص اور غیر موثر’ تھی۔
پینورما کے لیے مارٹن بشیر کے ساتھ شہزادی ڈیانا کا انٹرویو بی بی سی کے لیے ایک بہت بڑی خبر تھی جسے صحافتی اصطلاح میں ’سکُوپ‘ کہا جاتا ہے۔ اس میں شہزادی کا وہ فقرہ بھی تھا کہ ’اس شادی میں ہم تین تھے۔‘
یہ پہلا موقع تھا جب شاہی خاندان کے کسی ایک فرد نے شاہی خاندان کی زندگی کے بارے میں اتنی کھل کر بات کی تھی – ٹیلی ویژن کے ناظرین نے اسے شہزادہ چارلس کے ساتھ ڈیانا کی ناخوشگوار شادی اور ان کے نجی امور کے بارے میں خبروں میں دلچسپی کی وجہ سے بہت شوق سے دیکھا تھا۔
لیکن اس کے بعد سے شہزادی ڈیانا کے بھائی، ارل سپینسر نے صحافی مارٹن بشیر کے انٹرویو کرنے کے لیے استعمال کیے جانے والے ہتھکنڈوں پر سوال اٹھایا تھا۔
ارل سپینسر کے الزامات کی وجہ سے اس معاملے کے عوام کے سامنے آنے کے بعد گذشتہ سال بی بی سی کی جانب سے آزادانہ انکوائری کا آغاز کیا گیا تھا۔ اس انکوائری کے نتائج جمعرات کو شائع ہوئے ہیں۔
شہزادی ڈیانا کے بھائی ارل سپنسر نے بی بی سی پینورما کو بتایا: ’ستم ظریفی یہ ہے کہ میں نے 31 اگست 1995 کو مارٹن بشیر سے ملاقات کی تھی، اور اس کے ٹھیک دو سال بعد ہی ان (شہزادی ڈیانا) کی موت ہوگئی تھی ، اور میں ان دونوں واقعات کے مابین ایک لکیر کھینچ رہا ہوں۔’
انھوں نے کہا کہ ستمبر 1995 میں جب انھوں نے مارٹن بشیر کو شہزادی ڈیانا سے متعارف کرایا تھا تب سے یہ بالکل واضح تھا کہ ’ہر ایک کو ناقابل اعتماد بنایا جائے گا ، اور مجھے لگتا ہے کہ ڈیانا نے واقعی اہم لوگوں پر اعتماد کھو دیا تھا۔‘
پیٹرک جیفسن، ڈیانا کے سابق نجی سکریٹری نے کہا کہ اس انٹرویو نے ’بکنگھم پیلس سے بقیہ رابطے بھی ختم کر دیئے تھے۔‘ انھوں نے کہا کہ انٹرویو کے بعد ، شہزادی ڈیانا شاہی خاندان کی حمایت سے محروم ہوگئیں تھیں، جس نے انھیں اتنے برسوں سے رہنمائی اور حفاظت فراہم کی تھی۔‘
بی بی سی کی معافی
بی بی سی کے ڈائریکٹر جنرل، ٹم ڈیوی نے کہا کہ ’اگرچہ اس رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ ڈیانا، پرنسز آف ویلز، بی بی سی کو انٹرویو دینے کی خواہش رکھتی تھیں، لیکن یہ بات واضح ہے کہ انٹرویو کے موقعہ کو حاصل کرنے کے لیے یہ عمل سامعین کی توقعات کے معیار سے کہیں کم تھا۔ اس پر ہمیں بہت افسوس ہے۔ لارڈ ڈائیسن نے واضح ناکامیوں کی نشاندہی کی ہے۔‘
’اگرچہ آج کل کے بی بی سی میں نمایاں طور پر بہتر عمل اور طریقہ کار ہے، لیکن اس وقت (بی بی سی میں) موجود افراد کو اس طرح سے انٹرویو کا موقعہ حاصل کرنے کے طریقہِ کار سے روکنا چاہیے تھا۔‘
’اُس وقت جو ہوا بی بی سی کو اُس کی تہہ تک پہنچنے کے لیے زیادہ سے زیادہ کوشش کرنی چاہیے تھی اور اس کے بارے میں زیادہ شفاف ہونا چاہیے تھا کہ اس وقت کیا کچھ ہوا تھا۔‘
’اگرچہ بی بی سی ایک چوتھائی صدی کا وقت واپس لا نہیں سکتا ہے ، لیکن ہم مکمل اور غیر مشروط معافی مانگ سکتے ہیں۔ بی بی سی آج یہ معافی کی پیش کش کر رہا ہے۔‘
کارپوریشن کے چیئرمین رچرڈ شارپ نے یہ بھی کہا کہ بی بی سی نے اس رپورٹ کے ان نتائج کو ’اس کی ناقابل قبول ناکامی‘ تسلیم کرتے ہوئے ’کسی بھی تحفظ کے بغیر قبول کر لیا‘ ہے۔
انھوں نے کہا کہ ’ہم اس میں خوشی محسوس نہیں کرتے ہیں کہ یہ ماضی کی بات ہے۔‘
لارڈ ٹونی ہال، نیوز ڈائریکٹر جنھوں نے 1996 میں اس معاملے کی بی بی سی کی اندرونی انکوائری کی تھی، نے کہا کہ وہ آج شائع ہونے والی انکوائری کو قبول کرتے ہیں ’جس چیز کی کمی تھی وہ آج پوری ہو گئی ہے۔‘ اور وہ تسلیم کرتے ہیں کہ ’مارٹن بشیر کو شک کا فائدہ دینے میں وہ غلط تھے۔‘
مارٹن بشیر بی بی سی سے گزشتہ ہفتے الگ ہو گئے ہیں
مارٹن بشیر کون ہیں؟
اٹھاون سالہ مارٹن بشیر برطانیہ کے مشہور صحافیوں میں سے ایک ہیں۔ شہزادی ڈیانا کے انٹرویو کے ساتھ ساتھ، سنہ 2003 میں امریکی پاپ سٹار مائیکل جیکسن کے ساتھ نشر ہونے والے انٹرویو کی وجہ سے بھی وہ اخبارات کی سرخیوں میں نمایاں ہوئے تھے۔ انھوں نے آئی ٹی وی کے ساتھ ساتھ مختلف امریکی ٹیلی ویژن نیٹ ورکس کے لیے بھی کام کیا ہے۔
گذشتہ ہفتے انھوں نے صحت سے متعلقہ مسائل کا حوالہ دیتے ہوئے بی بی سی کو خیرباد کہہ دیا۔
وہ سنہ 2016 سے کارپوریشن کے مذہبی امور کے رپورٹر اور ایڈیٹر تھے۔
Comments are closed.