شہزادی لطیفہ کی کزن کے ساتھ تصویر منظر عام پر آنے کے بعد ان کو آزاد کروانے کی مہم ختم کر دی گئی
دبئی کے حکمران کی بیٹی شہزادی لطیفہ کو آزاد کروانے کی تحریک کو شہزادی کی اپنی فیملی کے ایک رکن کے ساتھ آئس لینڈ میں تصویر منظرِ عام پر آنے کے بعد ختم کر دیا گیا ہے۔
یہ تصویر انسٹاگرام پر ایک برطانوی خاتون نے لگائی ہے جو اس سے قبل شہزادی کے ساتھ کچھ تصاویر میں دکھائی دے چکی ہیں۔ اب تک یہ واضح نہیں ہے کہ شہزادی کس قدر آزاد ہیں کیونکہ ان تصاویر کے منظرِ عام پر آنے کے بعد سے انھوں نے کوئی عوامی بیان نہیں دیا ہے۔
اس سال کے آغاز میں بی بی سی کی جانب سے نشر کی گئی فوٹیج میں شہزادی نے کہا تھا کہ انھیں ان کے والد نے یرغمال بنا رکھا ہے۔
اس ویڈیو کے سامنے آنے کے بعد عالمی سطح پر شدید تنقید کی گئی تھی اور اقوام متحدہ نے شاہی خاندان سے ان کے زندہ ہونے کا ثبوت مانگا تھا۔
تاہم اس کے بعد سے شہزادی لطیفہ کی کئی تصاویر سامنے آ چکی ہیں۔ یہ تصاویر سیوند ٹیلر نامی خاتون نے لگائی ہیں اور جون میں وہ خود ایک تصویر میں شہزادی کے ساتھ مڈریڈ ہوائی اڈے پر موجود تھیں۔ اس کے علاوہ دیگر تصاویر میں شہزادی لطیفہ دبئی میں شاپنگ مال اور ریستوران میں دیکھی گئی تھیں۔
’فری لطیفہ‘ مہم نے پیر کے روز ایک بیان جاری کیا جس میں انھوں نے اس بات کی تصدیق کی کہ شہزادی اپنے کزن مارکس ایسابری سے آئس لینڈ میں ملی ہیں۔
بیان میں کہا گیا ہے کہ ’اس ملاقات کے بعد یہ فیصلہ کیا گیا ہے کہ اس وقت سب سے موزوں اقدام یہ ہے کہ فری لطیفہ مہم کو ختم کر دیا جائے۔‘
بیان میں مزید کہا گیا ہے کہ ’مہم کا بنیادی مقصد لطیفہ کو اپنی مرضی کے مطابق جینے کا موقع فراہم کرنا تھا۔ اب یہ ظاہر ہے کہ ہم نے اس مقصد کے حصول کے لیے بڑی کامیابی حاصل کر لی ہے۔‘
یہ بھی پڑھیے
ایسابری جن کی آنٹی شہزادی لطیفہ کی والدہ ہیں کہتے ہیں کہ ’ہماری ایک عرصے کے بعد ملاقات جذبات سے لبریز تھی۔ انھیں اتنا خوش، صحت مند اور اپنے مقاصد پر توجہ مرکوز کرتا دیکھ کر ہمارا حوصلہ بھی بڑھا۔‘
فری لطیفہ مہم کے شریک بانی ڈیوڈ ہیگ نے بی بی سی سے بات کرتے ہوئے کہا کہ شہزادی کی موجود صورتحال ’گذشتہ دو دہائیوں میں آزادی کے اعتبار سے ان کی زندگی کی بہترین صورتحال ہے۔‘
تاہم ان کا کہنا تھا کہ ’ہم سمجھ سکتے ہیں اور یہ بات بھی درست ہے کہ ہمیں موجودہ صورتحال کو انتہائی محتاط انداز سے دیکھنا ہو گا اور اس کی نگرانی جاری رکھنی ہو گی۔‘
دبئی کے شاہی خاندان میں سے کسی کی جانب سے تاحال اس بارے میں کوئی بیان سامنے نہیں آیا ہے۔
شہزادی لطیفہ کے والد، شیخ محمد بن راشد المکتوم، دنیا کے امیر ترین حکمرانوں میں سے ایک ہیں۔ وہ دبئی کے حکمران اور متحدہ عرب امارات کے نائب صدر بھی ہیں۔
شہزادی لطیفہ اپنے والد کے 25 بچوں میں سے ایک ہیں اور انھوں نے فروری 2018 میں دبئی سے فرار ہونے کی کوشش کی تھی۔
فرار ہونے سے کچھ عرصہ قبل ریکارڈ کی گئی ویڈیو میں انھوں نے کہا تھا کہ وہ قید زدہ ماحول میں زندگی گزار رہی ہیں۔ ’میں سنہ 2000 سے ملک سے باہر نہیں گئی۔ میں کئی مرتبہ سیر کے لیے، پڑھائی کے غرض سے، اور معمول کے کام کرنے کے لیے باہر جانا چاہتی ہوں۔ لیکن یہ مجھے ایسا نہیں کرنے دیتے۔‘
لیکن چند دن بعد ہی شہزادی کو بحر ہند میں ایک کشتی سے کمانڈوز نے پکڑ لیا اور انھیں واپس دبئی لایا گیا اور تب سے وہ وہاں ہی ہیں۔
2018 میں شہزادی نے اپنی دوست کے ساتھ مل کر فرار ہونے کی کوشش کی تھی
ان کی والد نے کہا تھا کہ وہ ان کی بہتری کے لیے یہ سب کچھ کر رہے ہیں اور انھوں نے اسے ریسکیو آپریشن کا نام دیا۔ گذشتہ ماہ دبئی کے شاہی خاندان کی جانب سے جاری کیے گئے بیان میں دوبارہ کہا گیا تھا کہ گھر پر ان کی دیکھ بھال کی جا رہی ہے۔
اس بیان میں کہا گیا تھا کہ ’شیخہ لطیفہ کی حالت بہتر ہو رہی ہے اور ہم امید کرتے ہیں کہ جلد ہی وہ مناسب وقت پر اپنی عوامی زندگی میں واپس آ جائیں گی۔‘
شہزادی لطیفہ نے ان ویڈیوز کو کئی ماہ کے دوران ایک ایسے فون پر ریکارڈ کیا تھا جو لطیفہ کو ان کی حراست اور دبئی واپس لانے کے ایک سال بعد خفیہ طور پر دیا گیا تھا۔
یہ پیغامات انھوں نے اپنے باتھ روم میں ریکارڈ کیے کیونکہ ان کے مطابق صرف وہ ہی ایسی جگہ تھی جس کا دروازہ وہ لاک کر سکتی تھیں۔
پیغامات میں انھوں نے تفصیل بتائی کہ کس طرح انھوں نے ان فوجیوں سے اس وقت لڑائی کی جب وہ انھیں کشتی سے اتار رہے تھے، انھیں لاتیں ماریں، اور ایک اماراتی کمانڈو کے بازو پر اتنی زور سے کاٹا کہ وہ چیخ اٹھا۔
بیہوشی کی دوا دیے جانے کے بعد انھیں پرائیویٹ جیٹ میں لے جایا گیا اور وہ اس وقت تک ہوش میں نہیں آئیں جب تک جہاز دبئی لینڈ نہیں ہو گیا۔
ان کا کہنا تھا کہ انھیں تنہا بغیر کسی طبی اور قانونی مدد تک رسائی کے ایک ایسے وِلا میں رکھا جا رہا تھا جس کے دروازے اور کھڑکیاں بند تھیں اور اس کے باہر پولیس کا پہرا تھا۔
Comments are closed.