جمعرات 8؍ شوال المکرم 1442ھ20؍مئی 2021ء

شہزادی لطیفہ کی پولیس کو اپیل: ’میری بہن بھی اغوا کی گئی، معاملے کی تفتیش کریں‘

دبئی کا شاہی خاندان: شہزادی لطیفہ کی برطانوی پولیس کو ’بہن کےاغوا‘ کے معاملے کی تفتیش کرنے کی اپیل

Princess Shamsa

شہزادی شمسا اس وقت 18 سال کی عمر کی تھی اور اب ان کی عمر 39 سال ہے۔ اس مبینہ اغوا کے واقعے کے بعد انھیں منظرِ عام پر دیکھا نہیں گیا ہے۔

دبئی کے بادشاہ کی بیٹی شہزادی لطیفہ نے برطانوی پولیس سے اپیل کی ہے کہ وہ ان کی بہن کے 20 سال قبل کیمبرج کی گلی سے مبینہ اغوا کی تفتیش کریں۔

انھوں نے بی بی سی کے ساتھ وہ خط شیئر کیا ہے جو کہ انھوں نے برطانوی پولیس کو لکھا ہے۔ اس خط میں انھوں نے دعویٰ کیا ہے کہ شہزادی شمسہ کو ان کے والد کے حکم پر اغوا کیا گیا۔ شہزادی شمسہ کی عمر اس وقت 18 سال کی تھی اور اب ان کی عمر 39 سال ہے۔ اس مبینہ اغوا کے واقعے کے بعد انھیں منظرِ عام پر دیکھا نہیں گیا ہے۔

دبئی اور متحدہ عرب امارات نے بی بی سی کی جانب سے موقف کی درخواست کا جواب نہیں دیا ہے۔

2019 می ایک ہائی کورٹ کے جج نے کہا تھا کہ شیخ محمد بن راشد المکتوم نے اپنی دونوں بیٹیوں کو اغوا کر کے انھیں ان کی مرضی کے بغیر حراست میں رکھا ہوا ہے۔

گذشتہ ہفتے بی بی سی پینوراما نے حیران کن ویڈیوز نشر کی تھیں جو کہ شہزادی لطیفہ نے خفیہ طور پر ریکارڈ کی تھیں۔ ان ویڈیوز میں وہ خود کو یرغمال کے طور پر بیان کرتی ہیں۔ انھوں نے 2018 میں فرار کی ایک ناکام کوشش بھی کی تھی۔ اس کے بعد اقوام متحدہ نے متحدہ عرب امارات سے کہا ہے کہ وہ اس بات کا ثبوت پیش کریں کہ شہزادی لطیفہ زندہ ہیں۔

یہ بھی پڑھیے

Princess Latifa

متحدہ عرب امارات کی جانب سے ماضی میں یہ کہا جا چکا ہے کہ شہزادی لطیفہ ذہنی طور پر بیمار ہیں اور انھیں علاج کے لیے گھر میں رکھا گیا ہے۔

تقریباً دو دہائیوں قبل ان کی بڑی بہن کی جانب سے بھی فیملی سے فرار کی کوشش کا نتیجہ قید ہی رہا تھا۔

جون 2000 میں شہزادی شمسہ برطانیہ میں سرے میں اپنے والد کی لانگ کراس اسٹیٹ سے بھاگ گئی تھیں۔ تقریباً دو ماہ بعد انھیں کیمبرج سے زبردستی پکڑا گیا، ہیلی کاپٹر کے ذریعے فرانس لے جایا گیا اور پھر نجی جیٹ طیارے کے ذریعے دبئی لے جایا گیا۔

شہزادی لطیفہ نے جو خط اب برطانوی پولیس کے حوالے کیا ہے وہ ہاتھ سے لکھا گیا ہے اور اسے 2019 میں کھا گیا جب انھیں ’جیل ویلا‘ میں تنہا رکھا گیا تھا۔

وہ لکھتی ہیں ’میری آپ سب سے درخواست ہے کہ آپ اس کے کیس پر توجہ دیں کیونکہ اس کی آزادی ہو سکتی ہے، آپ کی مدد آپ کی توجہ اسے آزاد کر سکتی ہے۔‘

ان کا مزید کہنا تھا کہ ’اس کے انگلینڈ کے ساتھ مضبوط روابط ہیں، ان کو انگلینڈ بہت پسند ہے، اور اس کی سب سے اچھی یادیں انگلینڈ میں گزارے وقت کی ہی ہیں۔‘

شہزادی لطیفہ نے اس خط پر تاریخ فروری 2018 کی ڈالی تھی یعنی اپنی فرار کی ناکام کوشش سے پہلے کی۔ اس کا مقصد یہ تھا کہ وہ یہ ظاہر نہیں کرنا چاہتی تھیں کہ ان کے پاس قید میں باہر کی دنیا سے بات کرنے کا کوئی طریقہ تھا۔ اس خط میں دبئی لوٹنے کے بعد ان کی بہن کی ایک دردناک کہانی بیان کی گئی ہے۔

وہ کہتی ہیں کہ ’انھیں بغیر کسی سے رابطے کے قید میں رکھا گیا، کوئی مقدمہ نہیں کوئی فرد جرم نہیں۔ انھیں تشدد کرنے کے لیے ان کے پیروں پر چھڑی ماری جاتی تھی۔‘

کیمرج کی پولیس نے شہزادی شمسہ کے مبینہ اغوا کی تفتیش 2001 میں شروع کی تھی جب شہزادی شمسہ نے ایک امیگریشن وکیل کے ذریعے رابطہ کیا تھا۔ تاہم یہ تفتیش آگے اس وقت نہیں بڑھ سکی جب حکام کو دبئی جانے سے روک دیا گیا۔

بعد میں معلوم ہوا تھا کہ شیخ کے معاونین نے برطانوی وزارتِ خارجہ سے اس سلسلے میں بات کی تھی۔

پولیس نے 2018 میں اس تفتیش کا اسرِنو جائزہ لیا اور بی بی سی نیوز اب یہ کہہ سکتی ہے کہ ایک تفتیش کار نے اس بات کا اعتراف کیا کہ اس میں اہم پیچیدگیاں تھیں۔

ہائی کورٹ کے حکم نامے کے بعد ایک مرتبہ پھر 2020 ازسرِ نو جائزہ شروع کیا گیا۔

بی بی سی کو دیے گئے ایک بیان میں کیمبرج پولیس کا کہنا ہے کہ انھوں نے شہزادی لطیفہ کا خط موصول کر لیا ہے اور یہ نئے جائزے کا حصہ ہو گا۔ بیان میں مزید کہا گیا ہے کہ ’یہ ایک انتہائی پیچیدہ اور سنجیدہ معاملہ ہے اور اس کیس میں کچھ عناصر ہیں جن کو عوامی سطح پر اجاگر کرنا نامناسب ہو گا۔‘

برطانوی وزارتِ خارجہ اس حوالے سے بی بی سی کو کہہ چکی ہے کہ یہ دو لوگوں کے درمیان ایک نجی معاملہ ہے اور میں برطانوی پولیس یا تفتیش سے ان کا کوئی تعلق نہیں ہے۔

انھوں نے اس بات کا جواب دینے سے انکار کر دیا کہ کیا شیخ کے دفتر سے انھیں کوئی پیغام بھیجا گیا ہے۔ جو شہزادی لطیفہ کی ویڈیو منظرِ عام پر آئی تو وزیرِ خارجہ ڈومنک راب نے اسے انتہائی پریشان کن قرار دیا اور کہا کہ برطانیہ کی حکومت اس سلسلے میں پیش رفت پر کڑی نظر رکھے ہوئی ہے۔

2018 میں دبئی کی شاہی عدالت نے بی بی سی کو بتایا تھا کہ شہزادی شمسہ کو انتہائی زیادہ پیار دیا جاتا ہے۔ دبئی کے بادشاہ کی جانب سے اب تک اس سلسلے میں صرف ایک ہی بیان آیا ہے جس میں انھوں نے شہزادی شمسہ کے لاپتہ ہو جانے کے بعد مل جانے پر خوش کا اظہار کیا گیا تھا۔

شہزادی شمسہ کی کہانی 18 سال بعد شہزادی لطیفہ کے ساتھ دہرائی جا رہی ہے۔ اور شہزادی شمسہ ہی شہزادی لطیفہ کے ملک چھوڑنے کے فیصلے کی وجہ ہیں۔

بی بی سی کی ایک ایسے شخص سے بھی بات ہوئی جو شہزادی شمسہ سے متواتر رابطے میں ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ ’آپ کو یہ سمجھنے کے لیے ڈاکٹر ہونے کی ضرورت نہیں ہے کہ انھیں سارا وقت ادویات کے زیرِ اثر رکھا گیا ہے۔‘

نوجوان شہزادی شمسہ کی فرار کی ناکام کوشش

Princess Shamsa

شہزادی شمسہ جزوی طور پر برطانیہ میں پلی بڑھیں اور انھیں مغربی تعلیم دی گئی تھی۔

ان کے کزن مارکس ایسابری دو سال تک دبئی میں فیملی کے ساتھ رہے اور شمسہ کے قریب تھے۔ وہ کہتے ہیں کہ ’شمسہ ایک روایتی شہزادی نہیں تھی۔ وہ شرارتی تھیں اور زندگی کا مزہ لینا چاہتی تھیں۔‘

وہ کہتے ہیں کہ ’وہ خواتین کے لیے بہتری چاہتی تھیں، خاص طور پر عرب دنیا کی خواتین کے لیے۔ وہ حدود کو ٹیسٹ کرتی تھیں اور یہاں سے ہی مسئلہ شروع ہوا تھا۔‘

ستمبر 1999 میں شہزادی شمسہ نے مارکس ایسابری کو خط لکھا تھا جس میں ان کا کہنا تھا کہ ان کے والد (جو اس وقت دبئی کے ولی عہد تھے) انھیں اعلیٰ تعلیم حاصل نہیں کرنے دے رہے۔

ان کا کہنا تھا کہ ’مجھے اگے پڑھنے کی اجازت نہیں ہے۔ انھوں نے مجھ سے یہ بھی نہیں پوچھا کہ آپ کس چیز میں دلچسپی رکھتی ہیں۔ انھوں نے بس منع کر دیا ہے۔‘

انھوں نے اپنے کزن کو یہ راز بتایا تھا کہ وہ فرار ہونے کے بارے میں سوچ رہی ہیں۔

انھوں نے لکھا تھا کہ ’مجھے جس چیز سے خوف آتا ہے کہ جب میں سوچتی ہوں کہ میں بوڑھی ہو جاؤں گی تو مجھے اس بات پر ملال ہو گا کہ 18 سال کی عمر میں، میں نے کوشش نہیں کی۔ کس چیز کی کوشش یہ نہیں پتا بس کسی چیز پر چانس لینا ہے۔‘

سنہ 2000 کی گرمیوں میں انھوں نے چانس لے لیا۔ انھوں نے کالے رنگ کی رینج روور لے کر شیخ کی 75 ملین پاؤنڈ کی سٹیٹ کے کونے تک گئیں اور فرار ہو گئیں۔ شیخ نے ان کی تلاش کے لیے ایجنٹوں کی ٹیم لگا دی۔

19 اگست 2000 کو ایک شخص کے ساتھ شہزادی شمسہ کیمبرج میں یونیورسٹی آرمز ہوٹل پہنچیں۔ انھیں پتا بھی نہیں چلا کہ ان کے والد کے ایجنٹوں نے انھیں سڑک سے پکڑ لیا۔

شہزادی شمسہ کو شیخ کی قریبی سٹیٹ نیومارکیٹ لے جایا گیا۔ اگلے روز صبح پانچ بچے تک انھیں نیو مارکیٹ سے فرانس ہیلی کاپٹر پر لے جایا گیا جہاں انھیں ایک پرائیویٹ جیٹ پر منتقل کر دیا گیا۔

چند گھنٹے بعد وہ واپس دبئی میں تھیں۔ ان کے آزادی اور تعلیم کے خواب ٹوٹ چکے تھے۔

برطانوی تحقیقات کیسے روکی گئیں

کیمبرج پولیس کے ڈیٹیکٹیو انسپکٹر ڈیوڈ بیک تک اغوا کے الزامات پہنچنے میں تقریباً 7 ماہ لگ گئے۔

انھوں نے 2018 میں بی بی سی کی دستاویزی فلم می بات کرتے ہوئے کہا تھا کہ یہ روز کی بات نہیں کہ آپ کے پاس ایسا کیس ہو کہ الزام کسی ملک کے سربراہ پر لگایا گیا ہو۔

شمسہ نے ایک امیگریشن وکیل کے پاس ایک خط پہنچوا دیا تھا جب وہ پہلے لندن میں تھیں۔ اس میں لکھا تھا کہ ’میرے پاس لکھنے کے لیے زیادہ وقت نہیں ہے۔ سارا وقت مجھے زیرِ نگرانی رکھا گیا ہے۔ اسی لیے میں بنیادی نقطے پر آتی ہوں۔ مجھے میرے والد نے پکڑ لیا تھا، اور میں آج تک قید میں ہوں۔ اب میں آپ سے نہ صرف اسے رپورٹ کرنے کے لیے کہہ رہی ہوں، بلکہ میں کہہ رہی ہوں کہ آپ حکام کو اس میں شامل کریں۔‘

ڈیٹیکٹیو انسپکٹر ڈیوڈ بیک کہتے ہیں کہ اس وقت تفتیش میں شواہد ایسے لگ رہے کہ جو الزام لگایا جا رہا ہے شاید اس میں کوئی صداقت ہو۔

بعد میں پولیس نے عدالتی حکم کی وجہ سے بتایا کہ حکام شہزادی شمسہ کے ساتھ بات کرنے میں کامیاب ہو گئے تھے مگر انھیں شمسہ کے انٹرویو کے لیے دبئی جانا تھا۔ انھوں نے کراؤن پروسیکیوشن سروس کے ذریعے اس کی درخواست دی مگر وہ مسترد ہو گئی۔

’مجھے کبھی کوئی وجہ نہیں دی گئی‘

یہ کیس پھر ٹھنڈا پڑ گیا مگر 2018 میں شہزادی شمسہ کا ایک اور پیغام آیا اور پھر کوشش کی گئی۔ مگر آخر میں پھر وہی کہ مزید کارروائی کے لیے شواہد ناکافی تھے۔

شیخ نے ہائی کورٹ میں ایک بیان ضرور جمع کروایا تھا جس میں کہا گیا تھا کہ شمسہ اپنی عمر کی دیگر خواتین کے مقابلے میں زیادہ نازک ہیں کیونکہ اس کے مقام کی وجہ سے وہ اغوا کے خطرے میں ہوتی ہیں۔

شہزادی لطیفہ کا یہ خط تیسرا موقع ہے جب برطانوی حکام سے کہا جا رہا ہے کہ وہ اس کی تفتیش کریں۔

مگر دبئی کے شیخ کے برطانیہ میں تعلقات بہت زیادہ ہیں۔ وہ برطانوی ملکہ کے دوست ہیں، اور ملک میں بہت ساری زمین کے مالک ہیں۔ متعدد برطانوی حکومتیں متحدہ عرب امارات کو ایک اہم دوست ملک اور تجارتی پارٹنر مانتی ہیں۔

2000 یا 2001 میں شیخ کے دفتر نے شہزادی شمسہ کے کیس کے بارے میں برطانوی وزارتِ خارجہ سے رابط کیا۔ بعد میں ایک پارلیمنٹری سوال کے جواب میں وزارتِ خارجہ نے بتایا کہ اس موقعے پر انھوں نے شیخ کو کہا تھا کہ یہ پولیس کا معاملہ ہے ان کا نہیں۔ مگر بی بی سی نیوز کے اندازے کے مطابق وزارتِ خارجہ میں اس مبینہ اغوا کے بارے میں خاموشی تھی۔

شہزادی شمسہ کی اب زومبی والی زندگی

شہزادی لطیفہ کا دعویٰ ہے کہ شمسہ کے پکڑے جانے کے بعد انھوں نے آٹھ سال جیل میں گزارے۔

Sheikh Mohammed bin Rashid Al Maktoum at a conference in 2018

انھیں 2008 میں ہرایا گیا جب لطیفہ کی ان سے ملاقات ہوئی۔ ’انھیں ہاتھ پکڑ کر چلانا پڑ رہا تھا۔ وہ اھنی آنکھیں نہیں کھول سکتی تھی۔ انھیں کنٹرول کرنے کے لیے دوائیاں دی گئی تھیں۔ ان دوائیوں نے اسے زومبی بنا دیا تھا۔‘

جس شخص کا شمسہ کے ساتھ رابطہ تھا اس کا کہنا تھا کہ شمسہ بس خاموش رہتی تھی۔ اس میں کوئی شرارت نہیں تھی۔ وہ جو کرتی تھیں اسے کنٹرول کیا جاتا تھا۔ وہ اب بس ایک شیل تھیں۔‘

’میرے خیال میں انھوں نے خود کو اس پر راضی کر لیا ہے کہ بس اب ان کی یہی زندگی ہے۔ یہ بہت افسوسناک بات ہے۔‘

2019 میں لطیفہ کی شمسہ سے پھر ملاقات ہوئی۔ اب تک لطیفہ نے خود کو ہی فرار کی کوشش کرنے کے بعد قید کروا لیا تھا۔ انھوں نے اپنے کزن کو خفیہ فون کے ذریعے اس ملاقات کا بتایا۔

وہ بتاتے ہیں کہ ’لطیفہ نے مجھے کہا کہ اب تم اسے پہچان نہیں سکو گے۔ وہ اس قدر دوائیوں کے زیرِ اثر ہے۔ وہ زندہ تو ہے مگر شمسہ اب شمسہ نہیں ہے۔‘

BBCUrdu.com بشکریہ
You might also like

Comments are closed.