شہزادہ فلپ: ایک غیر معمولی انسان جنھوں نے ایک غیر معمولی زندگی بسر کی
- جونی ڈیمنڈ
- نامہ نگار برائے شاہی محل
یہ ایک ایسے شخص کی کہانی ہے جس نے تقریباً ہر اس شخص سے زیادہ عمر پائی جو انھیں قریب سے جانتا تھا یا جو انھیں بیان کر سکتا تھا۔
اس طرح ہمارے پاس ڈیوک کی شخصیت کے دو جہتی نقوش ہیں: ایک سخت زبان اور گرم مزاج شخص جو بعض اوقات ذرا غیر مناسب لطیفے سناتے یا ایسے بیانات دیتے جن سے کچھ لوگوں کے جذبات مجروح ہوتے، ایک ایسے انوکھے بزرگ انکل جو ہمیشہ آس پاس رہے اور لوگوں کو ان سے شفقت کا احساس ہوتا رہا لیکن جو اکثر لوگوں کی صحبت میں خود کے لیے یا دوسروں کے لیے خفت کا باعث بنتے۔
ان کی موت کے بعد اب ان کی شخصیت کا دوبارہ جائزہ لیا جائے گا کیونکہ شہزادہ فلپ ایک غیر معمولی انسان تھے جنھوں نے ایک غیر معمولی زندگی بسر کی۔ ایک ایسی زندگی جو ہنگامہ خیز بیسویں صدی کی تیز رفتار تبدیلیوں سے جڑی ہوئی تھی، ایک ایسی زندگی جس میں خدمت اور کچھ حد تک خلوص کا حیران کن تضاد تھا۔
وہ ایک پیچیدہ، ہوشیار اور دائمی طور پر بے چین شخص تھے۔ ان کے والد اور والدہ کی ملاقات ملکہ وکٹوریا کے جنازے پر سنہ 1901 میں ہوئی تھی۔ اس وقت جب یورپ کی چار اقوام کے سوا باقی ہر جگہ بادشاہت تھی، ان کا خاندان یورپی بادشاہتوں میں پھیلا ہوا تھا۔
پہلی عالمی جنگ نے بہت سی بادشاہتوں کا خاتمہ کر دیا تھا لیکن جہاں شہزادہ فلپ کی پیدائش ہوئی وہاں اس وقت بھی بادشاہت رائج تھی۔ ان کے دادا یونان کے بادشاہ تھے اور ان کی والدہ برطانیہ کی ملکہ وکٹوریہ کی پڑنواسی تھیں۔
ان کی چاروں بڑی بہنوں نے جرمن شہریوں سے شادی کی۔ جب فلپ برطانیہ کے لیے رائل نیوی میں لڑ رہے تھے تو ان کی تین بہنیں نازی تحریک کے لیے متحرک تھیں، ان میں سے کسی کو بھی ان کی شادی پر مدعو نہیں کیا گیا تھا۔
یہ بھی پڑھیے
جب امن قائم ہوا اور اس کے نتیجے میں معاشی بحالی ہوئی تو شہزادہ فلپ نے خود کو ایک بہتر برطانیہ کی تعمیر کے لیے وقف کر دیا اور انھوں نے ملک میں سائنسی طریقوں پر صنعتی ڈیزائن، منصوبہ بندی اور تعلیم و تربیت کے نظریات کو اپنانے پر زور دیا۔
برطانیہ کے وزیراعظم ہیرلڈ ولسن کے ’ٹیکنالوجی انقلاب کے اثرات‘ سے متعلق بات کرنے سے ایک دہائی قبل بھی شہزادہ فلپ عوامی خطابات اور انٹرویوز میں جدت پسندی پر زور دیتے تھے۔
اور جیسے جیسے دنیا اور برطانیہ امیر ہوتے گئے اور پہلے سے بھی زیادہ ٹیکنالوجی کا استعمال بڑھا تو شہزادہ فلپ نے ماحول پر اس کے اثرات کے بارے میں متنبہ کیا تھا، اس خیال کے عام ہونے سے بھی پہلے۔
ان کی زندگی کو بنانے میں پہلی دہائی کی ہنگامہ خیزی اور بعد میں تعلیم کا بہت ہاتھ رہا۔ ان کی زندگی کے ابتدائی برس بھٹکتے گزر گئے، ان کی جائے پیدائش سے انھیں نکال دیا گیا، ان کا خاندان بکھر گیا اور وہ ایک ملک سے دوسرے ملک بھٹکتے رہے۔
جب وہ صرف ایک برس کے تھے، ان کے والد کو موت کی سزا سنائے جانے کے بعد انھیں اور ان کے اہلخانہ کو یونانی جزیرے کورفو پر واقع اپنے گھر سے ایک برطانوی بحری بیڑے نے اٹلی منتقل کر دیا تھا۔
شہزادہ فلپ کے پہلے بین الاقوامی سفروں میں سے ایک اٹلی کی بندرگاہ سے چلنے والی ٹرین کے فرش پر رینگتے ہوئے گزرا تھا، جس کے بارے میں بعد میں ان کی بہن صوفیا نے بیان کیا تھا کہ ’جیسے (اٹلی کے شہر) برینڈیسی کی ایک اندھیری رات میں ایک گندا بچہ سنسان ٹرین سے برآمد ہوا ہو۔‘
پیرس میں وہ اپنے ایک رشتے دار سے مانگے ہوئے مکان میں رہے لیکن اس مکان کو گھر بنانا ان کی قسمت میں نہیں تھا۔ صرف ایک سال میں جب وہ برطانیہ میں ایک بورڈنگ سکول میں زیر تعلیم تھے تو ان کی والدہ شہزادی ایلس کی ذہنی صحت خراب ہونا شروع ہو گئی اور وہ ذہنی امراض کے علاج کے مرکز چلی گئیں۔ ان کے والد شہزادہ اینڈریو اپنی محبوبہ کے ساتھ رہنے جنوبی فرانس چلے گئے جبکہ ان کی چاروں بڑی بہنوں کی شادی ہو گئی اور وہ جرمنی چلی گئیں۔
صرف 10 سال کے وقفے میں وہ یونان کے شہزادے سے ایک آوارہ گرد، بے گھر اور غریب لڑکے بن گئے جس کا خیال رکھنے والا کوئی بھی اپنا نہیں تھا۔
انھوں نے ایک مرتبہ کہا تھا ’میں نہیں سمجھتا کہ کوئی یہ سوچتا ہے کہ میرا باپ بھی تھا۔‘
شہزادہ اینڈریو جنگ کے دوران ہلاک ہو گئے اور جرمنوں کے فرانس سے نکالے جانے کے بعد فلپ اپنے والد کی چیزیں لینے مونٹے کارلو گئے لیکن وہاں تب تک کچھ نہیں بچا تھا، صرف چند جوڑے، برش اور کچھ کف لنکس۔
جب تک وہ سکاٹ لینڈ کے شمالی ساحلی علاقے کے ایک نجی سکول گورڈنس ٹاؤن میں پہنچے وہ ایک سخت جان، خود مختار اور خود کو مشکل سے نکالنے والے انسان بن چکے تھے۔ شاید انھیں ایسا ہی بننا تھا۔
گورڈنس ٹاؤن سکول کی تربیت نے ان کی شخصیت میں عوامی خدمت، ٹیم ورک، ذمہ داری اور دوسروں کی عزت جیسے اوصاف پیدا کیے اور یہی وہ جگہ تھی جہاں سے فلپ کے دل میں سمندر سے محبت پیدا ہوئی۔
فلپ کو سکول اتنا ہی پسند تھا جتنا ان کے بیٹے چارلس اس سے نفرت کرتے تھے۔ وہ ایک زبردست سپورٹس مین تھے۔ وہ سکول کو صرف ذہنی و جسمانی مہارت پر زور دینے کے لیے ہی پسند نہیں کرتے تھے بلکہ ان اصولوں اور نظریات کے باعث پسند کرتے تھے جس کی بنیاد اس سکول کے بانی کرٹ ہان نے رکھی تھی۔ اس سکول کے بانی کو نازی جرمنی سے ملک بدر کیا گیا تھا۔
یہ اصول و نظریات ہی شاید فلپ کی زندگی کے اہم جزو بن گئے تھے جن کے بارے میں ان کا خیال تھا کہ زندگی ایسے گزاری جانی چاہیے۔
ان خیالات کا عکس ان کی زندگی میں بعد میں کی جانے والی تقریروں میں نمایاں ہوتا ہے۔ سنہ 1958 میں گھانا میں انھوں نے کہا تھا کہ ’آزادی کی روح نظم و ضبط اور خود پر قابو رکھنے میں ہے۔‘
انھوں نے ایک سال قبل برطانوی سکولوں کی ایکسپلورنگ سوسائٹی کو بتایا تھا کہ ’جنگ کے بعد کے دور میں آسائشیں اہم ہیں لیکن اس سے بھی زیادہ اہم بات یہ ہے کہ انسانوں کو آسانی سے زندگی گزارنے سے روکنا نہیں چاہیے۔‘
اس سے دو برس قبل انھوں نے اپسویچ سکول کے طلبا سے بات کرتے ہوئے زندگی کی مادی اور اخلاقی ضروریات پر بات کی تھی جس میں ’فرد کی اہمیت‘ کو اُنھوں نے ’معاشرے کا رہنما اصول‘ قرار دیا تھا۔
اور گورڈنسٹون میں فلپ کی دلکش زندگی کا ایک بڑا تضاد پیدا ہوا تھا۔
فرد کی اہمیت وہ تھی جو کرٹ ہان کی نظر میں برطانیہ اور لبرل جمہوریتوں کو اس طرح کی مطلق العنان آمریت سے ممتاز کرتی تھی جس سے وہ بھاگ کر آئے تھے۔
فلپ نے فرد اور اس کی انفرادی حیثیت کی مرکزیت کو اپنے فلسفہ زندگی میں سب سے اوپر رکھا۔ ان کے نظریہ کا حاصل یہ تھا کہ ہم انسانوں کے پاس یہ صلاحیت ہے کہ وہ خود اپنے اخلاقی اور درست فیصلے کرسکیں۔
لیکن پھر بھی وہ اپنی پوری زندگی کے دوران پہلے بحریہ میں اور پھر محل میں زندگی کی کئی دہائیوں میں، روایات، کمان اور درجہ بندی کے اصولوں کے پابند رہے۔
اس نظریہ کی راہ میں اگر ان کے پاس کچھ تھا تو بہت کم، کیا انھوں نے کچھ اور کہا اور عمل کچھ اور کیا، جیسا کہ شاہی خاندان کے اکثر اراکین پر الزام لگتا ہے، یا یہ ان کی پہلی پسند تھی یا ضرورت کے تحت آخری؟
،تصویر کا ذریعہPA Media
سنہ 1939 میں ڈارٹمتھ نیول کالج میں ان کی زندگی کے دو اہم جذبے آپس میں متصادم تھے۔ انھوں نے گورڈنسٹاؤن میں جہاز رانی سیکھی تھی لیکن کمان کرنا ڈارٹمتھ نے سکھایا تھا۔
اور ان کی کچھ حاصل کرنے اور جیتنے کی خواہش عمر بھر ان کی زندگی میں نمایاں رہی۔ نیول کالج میں دیگر کیڈٹس کے مقابلے میں تاخیر سے داخل ہونے کے باوجود انھوں نے سنہ 1940 میں اپنی جماعت میں پہلی پوزیشن حاصل کی تھی۔
اس کے بعد پورٹسمتھ میں مزید تربیت کے دوران انھوں نے اپنے امتحان کے پانچ میں چار حصوں میں اعلیٰ گریڈ حاصل کیے تھے۔ انھوں نے رائل نیوی کے پہلے سب سے کم عمر فرسٹ لیفٹیننٹ بننے کا اعزاز حاصل کیا۔
بحریہ ان کے خون میں رچی بسی تھی، ان کے نانا رائل نیوی کے کمانڈر اور پہلے سمندری لارڈ تھے، ان کے چچا ‘ڈکی’ ماؤنٹبیٹن (لارڈ ماؤنٹبیٹن) نے رائل نیوی کے جنگی بیڑے کے کمانڈر کی حیثیت سے اس وقت خدمات انجام دی تھیں جب فلپ ابھی زیر تربیت تھے۔
جنگ میں انھوں نے نہ صرف بہادری بلکہ ہوشیاری کا بھی مظاہرہ کیا تھا۔
یہ ان کا فطری کمال تھا۔ گورڈنسٹاؤن کے ہیڈ ماسٹر کرٹ ہان نے ‘پرنس فلپ’ کی تعریف کرتے ہوئے لکھا تھا ‘ فلپ کسی بھی ایسے پیشے میں اپنی پہچان بنائے گا جہاں اسے طاقت کے امتحان میں خود کو ثابت کرنا پڑے گا۔’
دوسروں کو اس ذہین اور پرجوش نوجوان افسر سے تحفظات تھے۔ امن کے دنوں میں انھوں نے اپنی کمان میں جوانوں سے بہت کام کروایا تھا، جو بہت سے لوگوں کے نزدیک بہت زیادہ سخت تھا۔
ایک سوانح نگار نے لکھا کہ ‘اگر ان میں کوئی بری عادت تھی تو وہ عدم برداشت کا رجحان تھا۔’ اس طرح کے تبصرے ان کے بارے میں سننے کو ملتے رہے جو پہلے سے بھی زیادہ سخت تھے۔ ایک اور سوانح نگار نے ‘ان کے زیر کمان ایک جوان’ کا حوالے دیتے ہوئے لکھا کہ ‘وہ ان کے زیر قیادت دوبارہ کام کرنے کے بجائے مرنا پسند کرے گا۔’
سنہ 1939 میں ڈارٹمتھ میں جب جنگ یقینی ہو گئی بحریہ ہی ان کی آخری منزل تھی۔ انھیں خود سمندر سے محبت ہو گئی تھی۔ وہ کہتے تھے کہ ‘سمندر ایک غیر معمولی مالک ہے، اس کے غیر معمولی مزاج ہیں۔’
لیکن سمندر کے ایک حریف نے آنا تھا۔
جب کنگ جارج ششم نے فلپ کے چچا کے ساتھ نیول کالج کا دورہ کیا تو وہ اپنے ساتھ اپنی بیٹی شہزادی الزبتھ کو بھی لائے تھے۔ فلپ سے الزبتھ کا خیال رکھنے کو کہا گیا تھا۔
،تصویر کا ذریعہPA Media
انھوں نے شہزادی الزبتھ کو کالج کے گراؤنڈز اور ٹینس کورٹ تک کا دورہ کروایا۔
وہ (شہزادہ فلپ) ایک پراعتماد، انتہائی جاذب نظر اور آزاد نوجوان تھے جس کی رگوں میں شاہی خون دوڑتا تھا لیکن ان کے پاس تخت نہیں تھا۔
جبکہ وہ (شہزادی الزبتھ) ایک انتہائی حسین، قدرے سنجیدہ لڑکی تھیں جو فلپ سے بہت متاثر ہو چکی تھیں۔
،تصویر کا ذریعہPA Media
کیا وہ اس وقت جانتے تھے کہ یہ دو عظیم جذبات کا تصادم ہے؟ یعنی کہ وہ سمندر اور نوجوان خوبصورت شہزادی کو ایک ساتھ نہیں حاصل کر سکتے۔
سنہ 1948 میں ان کی شادی کے بعد کچھ عرصے کے لیے ان کے پاس دونوں تھے۔
،تصویر کا ذریعہPA Media
مالٹا میں ایک نوبیاہتے جوڑے کی حیثیت سے ان کے پاس وہی قیمتی سامان تھا یعنی جہاز کی کمان اور انھوں نے دو حسین برس اکٹھے گزارے تھے۔ لیکن کنگ جارج ششم کی بیماری اور قبل از وقت موت نے یہ سب ختم کر دیا۔
جب بادشاہ کی جگہ شہزادی الزبتھ کے ہمراہ افریقہ کے دورے پر انھیں کینیا کے ایک لاج میں بادشاہ کی موت کے بارے میں بتایا گیا تو وہ جانتے تھے کہ اس کا مطلب کیا ہے۔
انھوں نے اپنے سیکریٹری مائیک پارکر کی جانب دیکھا اور کہا ‘جیسے ان پر منوں اینٹیں گر گئی ہوں۔’
کچھ دیر کے لیے وہ ایک کرسی میں بیٹھ گئے اور اخبار سے اپنا سر اور سینا ڈھانپ لیا۔
ان کی شہزادی، ملکہ بن چکی تھیں۔ ان کی دنیا ہمیشہ کے لیے بدل چکی تھی۔
ایک ایسا شخص جس نے کبھی خود پر ترس کھانے کا اظہار نہیں کیا اور اپنے جذبات کے متعلق شاذ و نادر ہی بات کی ہو وہ اپنی بحری زندگی کے کھو جانے پر کھرے انداز میں بات کرتے تھے۔
ایک مرتبہ انھوں نے کہا تھا کہ ’سوائے اس کے کبھی کسی چیز کے بارے میں افسوس نہیں ہوا مگر مجھے بحریہ میں اپنا کیریئر جاری نہ رکھنے پر افسوس ہے۔’
وہ لوگ جو ان کو جانتے تھے انھیں معلوم تھا کہ اس کی خواہشات بہت واضح تھیں۔
بحریہ کے سابق لارڈ، ایڈمرل لارڈ ویسٹ کا کہنا ہے کہ فلپ نے اپنا فرض ادا کیا۔ لیکن بحریہ میں ان کے اختتام کے بارے میں وہ کہتے ہیں، ‘مجھے معلوم ہے کہ یہ اس کے لیے ایک بہت بڑا نقصان تھا۔ میں اسے جانتا ہوں۔’
جیسے ہی شہزادی الزبتھ ملکہ بنیں، شہزادہ فلپ کی زندگی کا ایک اور بڑا تضاد سامنے آیا۔ اُن کی اُس دنیا میں پرورش ہوئی تھی جس میں مردوں کی حاکمیت تسلیم کی جاتی ہے۔ وہ جسمانی طور پر سخت کام کرنے والے شخص تھے جن کی پرورش بھی مردانہ ماحول میں ہوئی اور اُسی ماحول میں اُنھوں نے ہمیشہ کام کیا تھا۔
اپنے ایک دوست مائیک سے بات کرتے ہوئے اُنھوں نے اپنے پہلے بیٹے چارلس کی پیدائش کے موقع پر یہ کہتے ہوئے جشن منایا تھا کہ ‘ایک مرد کے ہاں ہی لڑکے کی پیدائش ہوتی ہے۔‘ لیکن پھر ایک ہی لمحے میں وہ راتوں رات تبدیل ہو گئے اور اس کے بعد کے 65 سال تک ان کی زندگی صرف اپنی بیوی کی معاونت کرنے میں گزری۔
،تصویر کا ذریعہPA Media
وہ کہیں بھی جاتے اپنی بیوی کے پیچھے پیچھے چلتے۔ انھوں نے اپنی بیوی کے لیے اپنا سب کچھ چھوڑ دیا۔ اگر وہ ان سے پیچھے چلتے ہوئے ان کے کمرے میں داخل ہوتے تو معذرت کہہ کہ داخل ہوتے۔ اپنی بیوی کی تاجپوشی کے موقع پر انھوں نے ان کے سامنے گھٹنے ٹیکے، انھوں نے ان کا ہاتھ ہمیشہ مضبوطی سے تھامے رکھنے اور ‘زندگی بھر کے لیے ان کا وفادار رہنے’ کی قسم بھی کھائی تھی۔
انھوں نے یہ بھی تسلیم کیا کہ اُن کے بچے ان کا خاندانی نام ’ماؤنٹ بیٹن‘ اپنے ناموں کے ساتھ نہیں لکھیں گے۔ انھوں نے اپنی حیثیت کی وضاحت کچھ یوں دی تھی: ‘میں ایک کیڑے کے سوا کچھ نہیں ہوں۔’ اس بارے میں کچھ نہیں ہو سکتا تھا۔ وہ ملکہ تھیں۔ اور فلپ ان کے شوہر۔
پرنس فلپ نے حالات کو قدرے بہتر کرنے کی کوشش کی بھی بات کی۔ اُنھوں نے ملکہ کے تخت پر بیٹھنے سے پہلے گھر کے اندرونی معاملات کے بارے میں کہا ‘میرا خیال ہے کہ میں فطری طور پر اپنی بنیادی حیثیت سے مطمئن تھا۔ لوگ آتے تھے اور مجھ سے پوچھتے تھے کہ آپ کیا کرنا چاہتے ہیں۔ تاہم سنہ 1952 میں حالات یکسر بدل گئے۔‘
محل میں زندگی میں تبدیلی بہت سفاکانہ تھی۔ گھوڑوں کی دیکھ بھال کرنے والے ان کے ساتھی کا کہنا تھا: ‘فلپ، جو مسلسل جبریت کا شکار تھا، جسے ہر وقت تنبیہ کی جاتی تھی، جس سے اس کی زندگی چھین لی گئی تھی، ہر وقت اسے ایک اذیت کا سامنا تھا۔۔۔ مجھے لگا تھا کہ فلپ کا کوئی دوست یا ساتھی نہیں ہے۔’
شاید فلپ نے خود اپنی مدد کرنے کی کوئی کوشش ہی نہ کی ہو۔
اُن کی سوانح عمری لکھنے والے ایک مصنف لکھتے ہیں کہ ابتدائی برسوں میں محل کے عملے کو لگا کہ ‘ان کے ساتھ نمٹنا کافی مشکل کام ہے۔ وہ ہر بات پر غصہ کرنے والے، مغرور اور محتاط’ شخص ہیں۔ شاہی دربار میں کچھ لوگ انھیں ایک ایسا شخص سمجھتے تھے جو مال بنانے آئے ہوں۔ فلپ کی رگوں میں جرمن خون تھا اور یہ نازی جرمنی کو بہت بڑی شکست دیے جانے کے بعد کا زمانہ تھا۔
اس کے جواب میں پرنس فلپ نے اُس کام کا آغاز کیا جو پھر ساری عمر ان کا بنیادی فریضہ بن گیا۔ بیرون ملک وہ طویل سفر پر ملکہ کے شانہ بشانہ سفر کرتے، کبھی کبھی اُن سے خاص طور پر کھیلوں، انڈسٹریل یا تحقیقی معاملات پر ہلکی پھلکی بات چیت کرتے۔
وہ ہمیشہ اُن کے ساتھ ان کے ساتھی کی حیثیت سے سفر کرتے رہے۔ تاہم انھوں نے کبھی کبھار تنہا سفر بھی کیا خاص کر اُس دور میں جب برطانیہ کی نوآبادیاں سنہ 1950 اور سنہ 1960 کی دہائیوں میں ختم ہو رہی تھیں۔
گھر میں کئی پروجیکٹس تھے، ان میں سینکڑوں افراد، نوجوانوں، سائنس کے امور، گھر سے باہر کی سرگرمیاں اور سپورٹ کے معاملات تھے جن پر وہ خصوصی توجہ دیتے تھے۔ اُنھوں نے کرکٹ، سکواش اور پولو کھیلا۔ وہ تیراکی، کشتی رانی، ہوائی جہاز اڑانے، گھڑ سواری اور نئے نئے ماڈلز کی گاڑیاں چلاتے تھے۔
انھوں نے اُڑنا سیکھا اور فوٹوگرافی سیکھی۔ محل کے اندر وہ ایک جدت پسند شخص تھے، وہ محل کے برآمدوں کو زیادہ بہتر بنانے کی کوشش کرتے تھے، تنہائی میں گھومتے تھے، یہ جاننے کی کوشش کرتے تھے کہ محل کے عملے نے کیا کام کیا۔ انھوں نے سینڈرنگھم سٹیٹ کا انتظام سنبھال لیا اور چند برسوں میں اس کی تعمیرِ نو کی۔
شہزادہ فلپ کی ابتدائی زندگی پر ایک سوانح نگار نے لکھا کہ ‘اُن کا خیال تھا کہ اُن کی زندگی کا مشن تخلیقی ہے تاکہ برطانوی بادشاہت کو ایک متحرک اور معاملات میں دلچسپی لینے والے ذمہ دار ادارے کے طور پر پیش کرے۔ تاکہ یہ شاہی ادارہ برطانوی معاشرے کے مسائل کے حل میں رہنمائی کرسکے۔’
وہ جوان اور بہت خوشنما شخصیت کے حامل تھے۔ وہ مسکراتے اور مزاح بھی کرتے تھے اور کیمروں کا آسانی کے ساتھ سامنا کرنا جانتے تھے۔
جب اُنھوں نے سنہ 1950 کے آخر میں لندن میں لڑکوں کے ایک کلب کا دورہ کیا تو ایک تصویر میں ان کے چہرے پر بہت اچھی مسکراہٹ دکھائی دیتی ہے، جس میں ڈبل بریسٹ پنسٹریپ سوٹ میں وہ بہت جاذبِ نظر لگ رہے ہیں، اُس میں اُن کے بال چمکدار انداز میں بنے ہوئے تھے، اور ان کے ارد گرد لڑکے نظر آرہے ہیں جن کی مائیں اُن کے قریب جانے کی کوشش میں دھکم پیل کرتی ہوئی نظر آتی ہیں۔
یہ منظر اُس زمانے کے موسیقی کے معروف گروپ بیٹلز سے والہانہ جنونی محبت سے بھی زیادہ جنونیت کے اظہار کا منظر پیش کرتا ہے۔
بکنگھم پیلس کی پہلی منزل پر ان کے مطالعے کے کمرے سے باغوں اور ’گرین پارک کا نظارہ دکھائی دیتا۔ یہاں چاروں طرف ہزاروں کتابیں تھیں، جہاں ان کی پہلی کمانڈ والے بحری جہاز ایچ ایم ایس میگ پائی کا ماڈل رکھا ہوا تھا۔ اس میں وہ اپنی تحقیق کرتے اور اپنی تقریریں لکھتے تھے۔ (سنہ 1986 میں وہ ہمیشہ جدت پسند اشیا خریدتے جِنھیں اُنھوں نے ‘شاندار گیجٹ’ کا نام دیا تھا اور ایک کو تو اُنھوں نے ‘ایک منیئیچر ورڈ پروسیسر’ کہا تھا۔)
سنہ 1960 سے سنہ 1980 کے درمیان وہ ہر برس نئے سے نئے موضوعات پر تقریریں کرتے تھے جو ان کی وسیع دلچسپی اور گہرے مطالعے کا ثبوت ہیں۔
یہ تقریریں ان کی شخصیت کا عکس ہیں۔ ان کی تقریریں سننے والے سامعین بیتابی سے ان کی باتیں سنتے کیونکہ وہ بھی اپنی تقریروں میں بہت کچھ اتنی بےتابی سے کہنا چاہتے تھے۔
انھوں نے چیسٹر فیلڈ کالج آف ٹکنالوجی کے طلبہ اور عملے کو بتایا کہ ‘ایک ایسی عمارت کا افتتاح کرنے کے لیے آپ کو میری تقریر سننے پر توانائی اور وقت خرچ کرنا پڑ رہا ہے، جس کے بارے میں ہر کوئی جانتا ہے کہ یہ عمارت پہلے ہی کھلی ہوئی ہے۔‘
اپنے دلچسپ اور مسحور کن کاموں کی عکاسی کرتے ہوئے، کبھی کبھی ان میں ایک شریف زمیندار انسان کی شخصیت کے خیالات غالب نظر آتے تھے۔ اچھے اور مربوط دلائل جو حقیقت میں کہیں گم نہیں ہوتے، جن میں وہ بہت سارے قصے یہ کہہ کر بیان کرتے کہ ‘یہ مجھے لگتا ہے۔۔۔‘ جو دراصل ان کے دنیا بھر میں کئی جگہوں پر گھومنے پھرنے کے تجربات کا نچوڑ ہوتے تھے۔
جدید خیالات کے باوجود، وہ ایک قدامت پسند شخصیت تھے۔ وہ بڑے شہروں میں ہونے والی سرگرمیوں کو شک کی نگاہ سے دیکھتے تھے۔ انھوں نے عام شہریوں اور شہری لوگوں کی جانب سے اپنی گاڑیوں سے کچرا پھینکنے کی بھی بات کی تھی۔
وہ باتیں اور دعوے کرنے کے بجائے عملی انداز میں کام کرنے کو ترجیح دیتے۔ انھوں نے صنعتی تعلقات سے متعلق دولت مشترکہ ممالک کی ایک کانفرنس سے تقریر کرتے ہوئے کہا کہ ‘اگر بہترین اور اعلیٰ و ارفع معیار کے مطابق جانچا جائے تو ادارہ تباہی کا شکار ہے۔’
کسی بھی دوسرے ماہر کے جاننے سے پہلے وہ خود ایک ’ماہر ماحولیات‘ تھے۔ انھوں نے ‘فطرت کے خود غرضانہ اور اندھے استحصال’ کے متعلق خبردار کیا۔ اور سنہ 1982 میں انھوں نے ایک ایسا مضمون لکھا تھا جسے ہم آج کے دور میں بہتر طور پر سمجھ سکتے ہیں۔
لیکن اس کے بارے میں اُس وقت اتنی بات نہیں ہوتی تھی۔ ‘صنعتی ترقی کو براہ راست اس مسئلے سے جوڑنا زیرِ بحث ہے۔۔۔ ماحول میں کاربن ڈائی آکسائیڈ کا اخراج۔‘ جسے انھوں نے ‘گرین ہاؤس ایفیکٹ’ کہا تھا۔
انھوں نے ایک مرتبہ اپنے سامعین سے کہا کہ کوئی مجھے کیوں سننا چاہے گا کیونکہ ‘مجھے خود حکومت کا بہت کم تجربہ ہے۔‘
ایک بار انھوں نے کہا تھا کہ ’مجھ سے زیادہ محکوم شاید ہی کوئی ہوگا۔‘
یہ ان کی تقریروں کا ایک انداز تھا، بظاہر غیر معقول انداز میں بات کہنا، شاید یہ ان کے اس انداز کی ایک کی مثال تھی؟ ‘اہم مواقع پر تقریر کرنا اور سننا۔‘
سنہ 1958 میں برسلز ایکسپو کانفرنس سے پہلے بات کرتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ ‘مجھے لگتا ہے کہ میں کئی نمائشوں میں جانے کا ماہر ہونے کا دعویٰ کرسکتا ہوں۔’ وہ جانتے تھے کہ بیشتر تقاریر رسمی حیثیت رکھتی ہیں جن کو برداشت کرنا پڑتا ہے۔ اور وہ اپنا مذاق اُڑا کر سامعین کو خوش کر کے خوشی محسوس کرتے تھے۔
اس جوڑے کی زندگی میں ایک اور تضاد ہے، وہ یہ کہ ایسا شخص جو لوگوں کی زندگی کے بارے میں سوچتا ہو کہ وہ اپنی زندگی کیسے بسر کریں، اپنی زندگی میں کس قسم کی اخلاقیات اپنائیں، ریاستیں کس طرح ان کی جبلتوں کو کنٹرول کریں۔ مگر ایسے فرد کی اپنی زندگی بورنگ ہوسکتی ہے۔ ایسی باتیں سنہ 2017 میں اپنی عملی زندگی سے ریٹائرمنٹ کے بعد ان کے مزاح کی فہرست، رنگین تبصرے اور لطیفوں کا حصہ ہیں۔
اس میں کوئی شک نہیں کہ چونکہ وہ کبھی کبھار سخت رویہ اپنا لیتے تھے اور کبھی حیران کن رویہ بھی اپنا سکتے تھے۔ ان کا ایک سبب ان کی طبیعت میں بے صبری کا تھا، کیونکہ وہ کچھ نہ کچھ کرنا چاہتے تھے، یہ ان کے اندر وہ برقی توانائی تھی جو ان سے چیزوں کو جلد از جلد کروانا چاہتی تھی۔
شاید اس کی ایک وجہ ان کا کچھ بہرا پن ہونا ہوسکتا ہے، جو انھیں اپنی پوری طرح بہری ماں سے وراثت میں ملا تھا۔ لیکن اس کا ایک حصہ ان کی کچھ حد تک بد مزاجی بھی تھی جس کے باعث وہ دوسروں کے خیالات کو نظر انداز کر دیتے تھے اور ایسا ان کے مقام اور جذبات کی وجہ سے تھا۔
جو لوگ انھیں خوش نہ کر پاتے وہ ان پر چیخنا چلانا بھی شروع کر دیتے تھے، اور ان لوگوں کا شکریہ بھی ادا نہیں کرتے تھے جو ان کے لیے کام کرتے تھے یا جنھوں نے ان کا کوئی کام کیا ہوتا تھا۔
اگر پیچھے مڑ کر ماضی کی دہائیوں پر نظر ڈالیں تو دو بڑے تضادات نظر آتے ہیں۔ پہلا وہ زندگی جو لوگوں کی نظروں میں رہتے ہوئے گزری، اور دوسری واقعتاً ان کی خاموش نجی زندگی۔
اپنے بدلتے سرپرستوں اور سکولوں کے علاوہ ایک ملک سے دوسرے ملک منتقلی کی تگ و دو نے ان کی نجی زندگی کو عوام کے سامنے آشکار کردیا۔ شاہی محل کے اندر یہ ان کا نظریہ بن گیا۔
بیشتر سوانح نگاروں کے سوالات کے جوابات انھوں نے صرف کندھے اچکا کر دیے، گویا ’مجھے نہیں معلوم کہ آپ اس پر پریشان کیوں ہو رہے ہیں۔‘ انھوں نے ایک بار اپنے بیٹے چارلس کے بارے میں کہا کہ ‘وہ ایک رومانوی شخص ہے، میں ایک عملیت پسند شخص ہوں۔ اور چونکہ میں چیزوں کو رومانوی طور پر نہیں دیکھتا، اس لیے میں بے حس سمجھا جاتا ہوں۔’
اس میں کوئی ابہام نہیں کہ انھیں یہ الزام بُرا لگا ہوگا۔ لیکن ان کے ذہن کے اندرونی خیالات لوگوں کے لیے نہیں تھے۔
اور دوسرا تضاد، جو پہلے تضاد کے برعکس تھا، وہ ان کی عوامی زندگی اور ان کی تنہائی کے درمیان ہے۔ یقیناً ان کا خاندان تھا، حالانکہ ان کی ساری بہنیں پہلے ہی وفات پا گئی تھیں۔ لیکن اگر ان کے کچھ اپنے رشتہ دار یا دوست تھے تو، اور اگر وہ کسی نے ریکارڈ کیے ہیں، تو ان سے فلپ کی کئی دہائوں پر محیط نجی زندگی کا ایک نمونہ نظر آتا ہے۔
ایک سوانح نگار نے لکھا کہ ’زندگی نے انھیں دوستیاں بنانے کے قابل نہیں رہنے دیا۔ وہ اسی طرح رہتے ہوئے اپنی زندگی بسر کر رہے ہیں۔’ اور شاہی زندگی خود ایک قسم کا قید خانہ ہے جو آپ کو باہر کے لوگوں سے دور رکھتا ہے۔ سنہ 1970 کی دہائی کے وزیر اعظم، جیمز کیلاہن نے کہا تھا کہ ’شاہی خاندان میں آپ کو دوستانہ رویہ ملتا ہے، دوستی نہیں۔‘
شہزادہ فلپ 64 برس تک رائل میرینز کے کیپٹن جنرل رہے۔ یہاں کے میجر جنرل چارلس سٹیلینڈ نے ڈیوک (فلپ) کی ناروے میں ایک مشق میں شمولیت کے بارے میں بتایا تھا۔ پرنس فلپ نے وہاں جوانوں کو جلدی سے ہیلو کہنا تھا اور پھر کمانڈنگ آفیسر کے ساتھ لنچ کرنا تھا۔ اس کے بجائے ‘وہ میس میں بیٹھ گئے، دو اہلکاروں سے کہا کہ وہ چمچوں سے ان کے ٹن کے ڈبے میں کھانا ڈالیں۔ اُنھوں نے وہاں جوانوں سے خوش گپیاں کیں حالانکہ ان کے لیے پُرتکلف کھانا اُن کا انتظار کر رہا تھا۔ اور پھر وہ ہیلی کاپٹر پر واپس آگئے، جوانوں کے ایک گروہ کو ان کے اس رویے نے بہت متاثر کیا اور اسی لیے وہ ایک زبردست رائل میرین کے طور پر مشہور ہوئے۔’
یہ پرانا فلپ تھا، درجہ بندی نظر انداز کرکے، لوگوں سے کھلے انداز میں گھل مل جانے والا۔
ان کی نجی زندگی کی خواہشات، ان کی حیثیت اور چونکہ انھیں جاننے والے تقریباً سب ہی چلے گئے ہیں، ان سب وجوہات کے باعث ہمارے لیے اُنھیں سمجھنا ہمیشہ مشکل رہے گا۔ لیکن اس کی وجہ یہ بھی ہے کہ وہ کئی دہائیوں کے دوران پیدا ہونے والے تضادات اور مخلتف ماحول کی وجہ سے ایک مختلف انسان تھے۔
آرٹسٹ اور آرکیٹیکٹ سر ہیو کیسن نے کہا کہ ‘شہزادہ فلپ جیسی لابالی شخصیت کے لیے ایک کھلے ڈُلے پورٹریٹ کی ضرورت ہے۔’
انھوں نے جواب دیا ‘بالکل، بالکل۔’ انھوں نے خود کو قائد کی حیثیت سے کبھی نہیں دیکھا، اگرچہ وہ قیادت کرسکتے تھے۔ اور اپنی کامیابیوں کو وہ انکساری کے ساتھ مستقل طور پر نیچا دکھاتے رہے۔
سنہ 1948 میں لندن کی ‘شہری آزادی’ کا نشان قبول کرتے ہوئے انھوں نے اپنے لیے اور اپنے فالوورز کے لیے، خصوصی نرم لہجے میں بات کی تھی۔
انھوں نے کہا کہ ‘ہمارا واحد امتیاز یہ تھا کہ ہم نے اپنی صلاحیت کے مطابق، جو کچھ ہمیں کرنے کے لیے کہا گیا تھا وہ کیا، اور کرتے رہے۔’
Comments are closed.