- مصنف, روحان احمد
- عہدہ, بی بی سی اردو، اسلام آباد
- 2 گھنٹے قبل
پاکستان کی حالیہ سیاسی تاریخ میں جو بھی سیاستدان انتخابات جیت کر وزیرِاعظم کے عہدے پر فائز ہوا ہے، اس نے پہلے غیر ملکی دورے کے لیے سعودی عرب کا ہی انتخاب کیا ہے۔سنہ 2013 میں نواز شریف تیسری مرتبہ پاکستان کے وزیرِاعظم منتخب ہوئے اور انھوں نے اپنا عہدہ سنبھالنے کے تقریباً دو سال بعد پہلے غیرملکی دورے کے لیے سعودی عرب کو ہی چُنا۔ایسا ہی کچھ ان کے بعد 2018 کے عام انتخابات جیت کر وزیرِاعظم بننے والے عمران خان نے بھی کیا اور وہ بھی اسی برس ستمبر کے مہینے میں سعودی عرب چلے گئے۔پاکستان میں 2024 کے عام انتخاب کے نتیجے میں ملک میں ایک اتحادی حکومت قائم ہوئی اور اس کے سربراہ وزیرِاعظم شہباز شریف ہیں۔
وزیرِاعظم شہباز شریف نے بھی فیصلہ کیا ہے کہ وہ ماضی کے وزرائے اعظم کے نقشِ قدم پر چلتے ہوئے وزارتِ اعظمیٰ کا منصب سنبھالنے کے بعد پہلا غیرملکی دورہ سعودی عرب کا ہی کریں گے۔پاکستان کے دفترِ خارجہ کے مطابق وزیرِاعظم شہباز شریف وفاقی وزرا کے ساتھ سنیچر کو دو روزہ دورے پر سعودی عرب روانہ ہو رہے ہیں جہاں ان کی سعودی ولی عہد اور وزیرِاعظم شہزادہ محمد بن سلمان سے ملاقات بھی متوقع ہے۔اس دورے پر وزیراعظم شہباز شریف کے ہمراہ وزیرِ خارجہ اسحاق ڈار، وزیرِ دفاع خواجہ آصف، وزیرِ خزانہ محمد اورنگزیب، وزیر برائے اقتصادی امور احد چیمہ اور وزیرِ اطلاعات عطا اللہ تارڑ بھی ہوں گے۔پاکستانی وزیرِاعظم اپنے وفد کے ساتھ سعودی عرب کا یہ دورہ ایک ایسے وقت میں کر رہے ہیں جب ان کے ملک کو معاشی بحران کا سامنا ہے۔ عالمی مالیاتی فنڈ (آئی ایم ایف) نے پاکستان کی درخواست پر آئندہ مہینوں کے دوران نئے پروگرام پر بات چیت کے لیے آمادگی ظاہر کی ہے۔ شہباز شریف نے گذشتہ مہینے بطور وزیراعظم حلف اُٹھانے کے بعد بدحال معیشت کو اپنی حکومت کے لیے ایک چیلنج قرار دیا تھا۔ان کا کہنا تھا کہ ’ملکی مالیاتی معاملات سے نمٹنے کے لیے گہری سرجری کرنے کی ضرورت ہوگی۔ ہماری قوم کا سب سے بڑا چیلنج مہنگائی ہے۔‘پاکستان اور عالمی مالیاتی ادارے (آئی ایم ایف) کے درمیان گذشتہ برس جون میں تین ارب ڈالر کے سٹینڈ بائی ایگریمنٹ پر دستخط ہوئے تھے جس کی 1 ارب 10 کروڑ ڈالر کی آخری قسط رواں مہینے پاکستان کو موصول ہوجائے گی۔پاکستانی حکومت اس بات کا اشارہ دے چکی ہے کہ انھیں ملک کو معاشی بدحالی سے نکالنے کے لیے آئی ایم ایف کا ایک اور قرض پروگرام درکار ہوگا۔سعودی عرب کی جانب سے بھی ماضی میں پاکستان کی وقتاً فوقتاً مدد کی جاتی رہی ہے۔ خیال رہے نومبر 2021 میں پاکستان کے گرتے ہوئے زرِمبادلہ کے ذخائر کو سہارا دینے کے لیے سعودی عرب نے پاکستان کے مرکزی بینک کے اکاؤنٹ میں تین ارب ڈالر کی رقم ایک سال کے لیے جمع کروائی تھی، تاہم بعد میں سعودی حکومت نے اس کی مدت میں مسلسل کئی بار توسیع کی اور اب یہ رقم پاکستانی بینک کے اکاؤنٹ میں دسمبر 2024 تک جمع رہے گی۔وزیرِاعظم شہباز شریف کے سعودی عرب کے دورے کا ایجنڈا تو اب تک حکام کی جانب سے شیئر نہیں کیا گیا ہے، لیکن خیال یہی ظاہر کیا جا رہا ہے کہ پاکستانی وفد اور ولی عہد شہزاد محمد بن سلمان کی ملاقات میں سرمایہ کاری اور معاشی معاملات زیرِ گفتگو آئیں گے۔
پاکستانی وزرائے اعظم پہلے غیر ملکی دورے کے لیے سعودی عرب کا ہی کیوں انتخاب کرتے ہیں؟
بی بی سی کے اس سوال کے جواب میں پاکستانی تھنک ٹینک ’تبادلیب‘ کے بانی مشرف زید کہتے ہیں کہ ’سعودی عرب پاکستان کا سٹریٹجک اور معاشی شراکت دار ہے۔ وہاں مسلمانوں کی دو مقدس مساجد بھی واقع ہیں۔‘وہ مزید کہتے ہیں کہ ’پاکستانی رہنماؤں کی یہ روایت ہے کہ (اقتدار میں آنے کے بعد) وہ پوری مسلم امہ سے یکجہتی کا اظہار کرتے ہیں اور خصوصاً سعودی عرب کے استحکام اور سکیورٹی کی حفاظت کا عزم کرتے ہیں۔‘،تصویر کا ذریعہGetty Images
معیشت کی بحالی کے لیے پاکستان پھر سعودی عرب کی طرف دیکھ رہا ہے؟
سعودی عرب کا شمار ان ممالک میں ہوتا ہے جن کے پاکستان کے ساتھ دہائیوں سے اچھے تعلقات ہیں اور یہی وجہ ہے کہ معاشی بحرانوں کے دوران لوگوں کو یہ امید ہوتی ہے کہ سعودی شاہی خاندان مصیبت کے وقت پاکستان کی مدد کرے گا۔عمر کریم کہتے ہیں کہ ’سعودی عرب کا تعلق پاکستان کے قریبی اتحادیوں میں ہوتا ہے اور پچھلی ایک دہائی میں پاکستان کے نہ ختم ہونے والے معاشی بحرانوں کے سبب اب یہ ایک روایت بن چکی ہے کہ پاکستانی رہنماؤں کے ایسے دورے سعودی فیصلہ سازوں سے مالی مدد مانگنے کے لیے استعمال ہوتے ہیں۔‘وہ کہتے ہیں شہباز شریف نے اپنی پچھلی حکومت کے دور میں بھی سعودی عرب کے دورے کیے تھے لیکن وہ کچھ حاصل کرنے میں ناکام رہے تھے۔’سعودی عرب نے اس وقت کچھ اضافی وسائل دینے کا کہا ضرور تھا لیکن صرف اس صورت میں جب پاکستان آئی ایم ایف کی شرائط پر عمل پیرا ہو۔‘تو کیا اس کا مطلب یہ لیا جائے کہ سعودی عرب کی طرف سے پاکستان کی مالی مدد کے لیے اب کچھ شرائط رکھ دی گئی ہیں؟تجزیہ کار مشرف زیدی کہتے ہیں کہ ولی عہد شہزادہ محمد بن سلمان کے وزیراعظم بن جانے اور ان کے ’وژن 2030‘ کے منظرِ عام پر آنے کے بعد سعودی عرب نے پاکستان کی مالی مدد فراہم کرنے کے لیے ایک نیا طریقہ کار طے کر دیا ہے۔،تصویر کا ذریعہGetty Images
BBCUrdu.com بشکریہ
body a {display:none;}
Comments are closed.