17 year old hookup best totally free hookup app mature hookup app 80 hookup burley bike hookup gay hookup apps nz

بدھ14؍شوال المکرم 1442ھ26؍مئی 2021ء

شکاگو کے ’آئروکوئس تھیٹر‘ میں آتشزدگی: جب 602 افراد جل کر خاکستر ہو گئے

شکاگو کے آئروکوئس تھیٹر میں آگ لگنے کا واقعہ جس نے آتشزدگی کے حفاظتی انتظامات کو نئی جہت دی

  • عقیل عباس جعفری
  • محقق و مؤرخ، کراچی

شکاگو کے آئروکوئس تھیٹر میں آگ لگنے کا واقعہ

،تصویر کا ذریعہGetty Images

یہ 30 دسمبر 1903 کی بات ہے جب امریکی شہر شکاگو کے آئروکوئس تھیٹر میں اچانک آگ بھڑک اٹھی اور تھیٹر میں موجود 602 افراد جان کی بازی ہار گئے۔ یہ امریکی تاریخ کی چند بڑی آتشزدگیوں میں شمار ہوتی ہے۔

نیویارک ٹائمز نے اپنی اگلے روز کی اشاعت میں لکھا ’سینما سے متصل ٹامسن ریسٹورنٹ مردہ خانے کا منظر پیش کر رہا تھا۔ ہر طرف لاشوں کے ڈھیر نظر آ رہے تھے، کہیں مرتے ہوئے لوگ کرب و اذیت سے چلا رہے تھے اور کہیں ڈاکٹر اور نرسیں اُن پر جھکے اُن کی زندگی بچانے کی جان توڑ کوشش کر رہے تھے۔‘

’لاشیں دیواروں کے ساتھ ڈھیر تھیں، میزوں کے اوپر تھیں اور اِدھر اُدھر بکھری ہوئی تھیں۔ کچھ لاشیں جل جانے کی وجہ سے ناقابل شناخت ہو گئی تھیں، کچھ کی صرف جلد جھلسی تھی اور کچھ دھویں میں دم گھٹنے کی وجہ سے سیاہ ہو گئی تھیں، بعض لاشیں کچل کر مارے جانے والے افراد کی بھی تھیں۔ پولیس مرنے والوں کے عزیز و اقارب کو بلا کر لائی تاکہ وہ اپنے پیاروں کی لاشیں پہچان سکیں۔۔۔ یہ منظر نہایت دہشت انگیز تھا۔‘

شکاگو کے وسط میں سٹیٹ سٹریٹ اور ڈیئر بورن سٹریٹ کے درمیان واقع آئروکوئس تھیٹر امریکہ کے معروف ماہر تعمیرات بنجمن مارشل نے ڈیزائن کیا تھا۔ یہ ایک پُرشکوہ عمارت تھی اور ڈرامے کے ایک ناقد والٹر کے ہل نے اسے ڈرامے کے فروغ کے لیے ایک خوش آئند اقدام قرار دیا تھا۔

اس تھیٹر کا افتتاح 23 نومبر 1903 کو ہوا تھا اور شکاگو کے بلڈنگ کمشنر اور فائر انسپکٹر ایڈلا فلین نے اسے ہر شک و شبہ سے بالاتر اور فائر پروف عمارت قرار دیا تھا۔

اُنھوں نے اپنی رپورٹ میں لکھا تھا کہ تھیٹر میں 30 دروازے ہیں جن میں دہرے دروازوں کی تعداد 27 ہے۔ اسی زمانے میں امریکہ کے فائر پروف میگزین کے ولیم کلن ڈینن نے بھی تھیٹر کا معائنہ کیا اور عمارت میں آگ لگنے کی صورت میں ہونے والے چند خطرات کی نشاندہی کی تھی۔

اُنھوں نے لکھا کہ تھیٹر میں لکڑی کا بہت زیادہ استعمال کیا گیا ہے، وہاں کوئی فائر پروف سسٹم یا الارم موجود نہیں ہے اور سٹیج کے اوپر دھواں نکلنے کی کوئی جگہ بھی نہیں ہے، مگر تھیٹر کی انتظامیہ نے اس انتباہ پر کوئی دھیان نہیں دیا۔

انتظامیہ نے آگ لگنے کی صورت میں باہر نکلنے کے لیے ہنگامی راستوں، آگ بجھانے کے مناسب آلات، فائر الارم اور پانی وغیرہ کی عدم موجودگی کے باوجود تھیٹر کھولنے کی اجازت حاصل کر لی تھی اور تھیٹر کے اشتہارات میں اسے مکمل فائر پروف تھیٹر قرار دیا گیا۔

شکاگو کے آئروکوئس تھیٹر میں آگ لگنے کا واقعہ

،تصویر کا ذریعہGetty Images

یہ جھوٹ 1871 میں شکاگو میں لگنے والی ہولناک آگ سے خوفزدہ افراد کو تسلی دینے کے لیے بولا گیا تھا۔

آئروکوئس تھیٹر میں 1602 افراد کے بیٹھنے کی گنجائش تھی۔ یہ تین منزلہ تھیٹر تھا، نچلے ہال میں 700 افراد ڈرامے سے لطف اندوز ہو سکتے تھے۔ پہلی بالکنی (ڈریس سرکل) پر 400 جبکہ تیسرے لیول پر جسے گیلری کا نام دیا گیا تھا، 500 نشستیں تھیں۔ مگر اس وقت تھیٹر میں مجموعی طور پر 1830 افراد موجود تھے۔

کوئی 225 سے زیادہ افراد یہ ڈرامہ کھڑے ہو کر دیکھ رہے تھے۔ تھیٹر میں موجود عملے کے 275 افراد اُن کے علاوہ تھے، یوں اس وقت عمارت میں 2200 سے زیادہ افراد موجود تھے۔

30 دسمبر 1903 کو تھیٹر کا میٹنی شو جاری تھا اور وہاں ایڈی فوئے کا ڈرامہ ’مسٹر بلیو بیئرڈ‘ دکھایا جا رہا تھا۔ تھیٹر کے ہال میں داخل ہونے والے تمام دروازے مقفل تھے۔ تھیٹر میں دو ہزار سے زائد افراد موجود تھے جن میں سٹیج منیجر بل کارلٹن بھی شامل تھے۔

ڈرامے کا پہلا ایکٹ خیریت سے گزر گیا۔ دوسرے ایکٹ کا آغاز ایک گانے سے ہوا جس کے لیے سٹیج پر نیلے رنگ کی روشنی ڈالنی ضروری تھی۔ اتنے میں ایک سپاٹ لائٹ آپریٹر نے دیکھا کہ سٹیج کے عقب میں لگی ہوئی ایک کیلشیم لائٹ سے چنگاریاں پھوٹ رہی ہیں۔ تماشائیوں کو آگ نظر آ رہی تھی مگر یہ اتنی معمولی تھی کہ کسی نے اس پر دھیان نہیں دیا۔

یہ پوری جگہ لکڑی کی بنی ہوئی تھی اور اس مقام پر کچھ تیل بھی پھیلا ہوا تھا۔ چند ہی لمحات میں ڈرامے میں کام کرنے والے اداکاروں کو بھی اس صورتحال کا اندازہ ہو گیا اور وہ بھی سٹیج کے عقب کی طرف بھاگے۔ سٹیج کے عملے نے ہاتھوں سے آگ بجھانے کی کوشش کی تھی مگر شعلے بجھنے کے بجائے مزید بھڑک اٹھے۔

انتظامیہ نے شائقین کو مطمئن کرنے کی کوشش کی اور ڈرامے کے ہدایت کار ایڈی فوائے نے اعلان کیا کہ وہ اپنی نشستوں پر بیٹھے رہیں، وہ فکر نہ کریں اور افراتفری نہ پھیلائیں، سب خیریت ہے۔

ایڈی فوائے نے پکار کر سٹیج کے عملے سے کہا کہ وہ پردہ گرا دیں مگر پردہ مکمل طور پر نہیں گر سکا۔ ایسے میں عملے نے ایک سینری لٹکا کر سٹیج کا منظر اوجھل کرنے کی کوشش کی مگر وہ بھی نصف راستے میں ہی اٹک گئی۔ سٹیج پر ہونے والی افراتفری اور آگ کے شعلے شائقین کو نظر آ رہے تھے۔

انھوں نے تھیٹر سے باہر نکلنے کی کوشش کی مگر دروازے مقفل تھے۔ ہال کے چند ہنگامی دروازے اور سٹیج کا پچھلا دروازہ کسی طرح کھول دیا گیا۔ ڈرامے کے تمام اداکار اس پچھلے راستے سے باہر بھاگے مگر اس دروازے کے کھلنے سے ہوا کے جھونکے تیزی سے شعلوں کی طرف لپکے اور آگ مزید تیز ہو گئی۔ ہال میں افراتفری مچ گئی۔ ہر شخص آگ سے بچاؤ کے ہنگامی راستوں کی طرف دوڑنے لگا۔

شکاگو کے آئروکوئس تھیٹر میں آگ لگنے کا واقعہ

،تصویر کا ذریعہGetty Images

،تصویر کا کیپشن

شکاگو کے آئروکوئس تھیٹر میں آگ لگنے کے دوران کا ایک منظر

شائقین کی بڑی تعداد ان ہنگامی دروازوں سے باہر نکلنے میں کامیاب ہو گئی مگر بالکنی میں بیٹھے ہوئے 575 افراد بالکنی کے دروازے نہ کھلنے کی وجہ سے جائے وقوعہ پر ہی جان کی بازی ہار گئے۔ چند افراد نے بالکنی سے نیچے چھلانگ لگائی مگر وہ بھی ہجوم کے پیروں تلے کچلے گئے اور شدید زخمی ہو گئے۔ ان میں سے 27 کے لگ بھگ افراد اگلے چند روز میں ہلاک ہو گئے۔ مرنے والوں میں بڑی تعداد بچوں کی بھی تھی۔

تھیٹر کا ایک ملازم بھاگتا ہوا تھوڑے فاصلے پر واقع فائر ڈپارٹمنٹ تک پہنچا۔ وہاں موجود فائر انجن فوری طور پر تھیٹر تک پہنچا اور اس نے آگ بجھانے کی کوشش کی۔ فائر ڈپارٹمنٹ نے شہر کے دوسرے فائر سٹیشنز کو بھی مطلع کیا اور وہاں سے بھی آگ بجھانے والی گاڑیاں جائے حادثہ پر پہنچ گئیں، لیکن تھیٹر کے دروازوں اور لابی میں لاشوں کے ڈھیر پڑے ہونے کی وجہ سے وہ کچھ بھی نہ کر سکے۔

یہ بھی پڑھیے

سٹیفن جے اسپگنیسی نے اپنی کتاب ’The 100 Greatest Disasters of All Time‘ میں لکھا ہے کہ ’کسی نہ کسی طرح آگ بجھا دی گئی، اس کے بعد لاشوں کو نکالنے کا دردناک کام شروع ہوا۔ امدادی کارکن اور آگ بجھانے کا عملہ تین گھنٹے تک بغیر رکے دو یا تین لاش فی منٹ کے حساب سے باہر نکالتا رہا۔ لاشوں سے جو زیورات، گھڑیاں اور رقوم اکٹھی کی گئیں ان سے 10 بالٹیاں بھر گئیں۔ ہمیشہ کی طرح اس حادثے کے موقع پر بھی بے ضمیر افراد مدد کرنے کے بہانے تھیٹر میں گھس گئے اور لاشوں کی جیبوں اور جسموں سے قیمتی اشیا چرانے لگے، ان میں بہت سے چور دم گھٹنے، جل جانے یا بھگدڑ میں مارے گئے۔‘

شکاگو کے آئروکوئس تھیٹر میں آگ لگنے کا واقعہ

،تصویر کا ذریعہGetty Images

آئروکوئس تھیٹر کے اس حادثے نے امریکہ بھر کو ہلا کر رکھ دیا۔ حادثے کے بعد اس کے ذمے دار تمام افراد سے تفتیش کی گئی۔ فائر پروف میگزین کے ولیم کلن ڈینن نے تھیٹر کی انتظامیہ کو حادثے کا ذمے دار قرار دیا۔ تھیٹر کے منیجر ڈیوس کو گرفتار کر لیا گیا اور اسے شدید غفلت کا مجرم قرار دیا گیا۔ بتایا گیا کہ تھیٹر میں نہ کوئی فائر الارم تھا اور نہ ہی ٹیلی فون جس کے ذریعے شکاگو کے فائر ڈپارٹمنٹ کو بروقت اطلاع دی جا سکتی۔

ڈیوس نے ناظرین کو الزام دیا کہ اگر وہ صبر سے بیٹھے رہتے اور بھگدڑ نہ مچاتے تو اتنی اموات نہ ہوتیں تاہم پولیس اور میڈیا کی تفتیش سے یہ بات واضح ہو گئی کہ قصور تھیٹر کی انتظامیہ کا تھا۔ میڈیا نے شکاگو کے پولیس اور فائر ڈپارٹمنٹ کو بھی مورد الزام ٹھہرایا کہ خامیوں سے بھرپور اس تھیٹر کو شاید رشوت لے کر ڈرامہ دکھانے کی اجازت دی گئی تھی۔

اس حادثے کے بعد اس نوعیت کی تمام عمارتوں میں آگ بجھانے کے انتظامات کا ازسرنو جائزہ لیا گیا اور نہ صرف امریکہ بلکہ یورپ میں بھی تمام تھیٹرز اور سینما گھروں میں آگ بجھانے کے آلات کی تنصیب لازمی قرار دے دی گئی۔

سٹیفن جے اسپگنیسی کے مطابق ’نیویارک ٹائمز نے اپنے ایک اداریے میں دعویٰ کیا کہ آئروکوئس جیسی آتشزدگی نیویارک میں کبھی نہیں ہو سکتی مگر جب جانچ پڑتال ہوئی تو نیویارک کے آدھے تھیٹروں کے حفاظتی انتظامات ناقص پائے گئے۔‘

آئروکوئس تھیٹر چھ ہفتے کی بندش کے بعد 1904 میں دوبارہ کھولا گیا مگراس کا نام بدل کر کولونیل تھیٹر رکھ دیا گیا۔ 1925 میں اسے مسمار کر دیا گیا، 1926 میں اسی مقام پر اورینٹ تھیٹر تعمیر ہوا اور 2019 میں اورینٹ تھیٹر کو ازسرنو تعمیر کر کے اسے نیدر لینڈز تھیٹر کا نام دے دیا گیا۔

BBCUrdu.com بشکریہ
You might also like

Comments are closed.