شيخ جراح: یہودی آباد کاروں اور فلسطینیوں کے درمیان ایک ’میدان جنگ‘ کیوں بنا ہوا ہے؟
یروشلم کے شیخ جرح محلے میں ایک یہودی آباد کار (دائیں) اور فلسطینی مظاہرین (بائیں) کے مابین تصادم
مشرقی یروشلم میں شیخ جرح علاقے کی گلیوں میں دس روز سے فلسطینیوں اور یہودی آباد کاروں کے درمیان لگاتار کشیدگی جاری ہے جس کا پس منظر ہے یہودی آبادکاروں کی جانب سے فلسطینی خاندانوں کے خلاف دائر کیا گیا مقدمہ ہے جو ایک طویل عرصے سے جاری ہے اور اس کی وجہ سے فلسطینیوں کو اپنے ہی گھروں سے بے دخل ہونے کا خطرہ ہے۔
یروشلم شہر کے مشرقی حصے، جس پر اسرائیل نے سنہ 1967 میں ہونے والی ’چھ روزہ جنگ‘ میں قبضہ کیا تھا، کے پڑوس میں یہودی آباد کاروں نے فلسطینیوں پر ایسے نعرے لگائے ’اردن واپس جاؤ‘ جس کا فلسطینیوں نے ان نعروں کے ساتھ جواب دیا: ’نسل پرست‘ اور ’مافیا‘۔
پچھلے ہفتے کے دوران اس علاقے میں تعینات پولیس نے فلسطینی نوجوانوں کو گرفتار کیا اور بھیڑ کو منتشر کرنے کے لیے آبی توپوں اور مائع گیس کا استعمال کیا۔
یہ بھی پڑھیے
اسرائیلی سکیورٹی فورسز نے بدامنی پھیلاننے کے الزام میں فلسطینیوں کو گرفتار کیا
فلسطین کی ایمرجنسی سروس کے مطابق اس علاقے میں فلسطینی خاندانوں کے ممکنہ انخلا کے خلاف مظاہرے کی ایک اور رات کے دوران 22 فلسطینی زخمی ہوئے۔
اسرائیلی پولیس نے ایک بیان میں کہا ہے کہ اس نے ’پولیس افسران کے ساتھ بدتمیزی اور حملہ کرنے‘ کے الزام میں پانچ افراد کو گرفتار کیا ہے۔
دس دن سے زیادہ عرصے سے اس محلے کے رہائشیوں اور کارکنوں کی زیرقیادت، اسرائیلی آباد کاری تنظیموں کی جانب سے فلسطینی باشندوں کے گھر خالی کرنے کے احکامات کے خلاف مظاہرے ہو رہے ہیں۔
یروشلم میں اسرائیلی سپریم کورٹ فلسطینی خاندانوں کے وکلا اور یہودی آباد کاروں کی ایسوسی ایشن کے درمیان ایک مقدمے کی سماعت کی جائے گی جس میں فلسطینیوں سے انخلا کا مطالبہ کیا گیا ہے۔
اس علاقے کے رہائشیوں کا کہنا ہے کہ وہ ان گھروں میں 1950 کی دہائی سے رہ رہے ہیں، جبکہ یہودی آباد کار یہ دعوی کرتے ہیں کہ انھوں نے یہودیوں کی دو انجمنوں سے یہ زمینیں قانونی طور پر خریدی ہیں۔
اسرائیلی پولیس نے فلسطینی مظاہرین کو گرفتار کرلیا
کہانی کیا ہے؟
شیخ جرہ محلہ دمشق دروازے کے قریب پرانے یروشلم کی دیواروں کے بالکل باہر واقع ہے ۔اس علاقے میں ہوٹلوں، ریستوراں اور قونصل خانے کے علاوہ فلسطینیوں کے بہت سے مکانات اور رہائشی عمارتیں بھی شامل ہیں۔
مشرقی یروشلم 1967 میں اسرائیل کے قبضہ کرنے سے قبل اردن کے ساتھ ملحق تھا اور اس کو عالمی برادری کے ذریعہ تسلیم نہیں کیا گیا تھا۔
فرانسیسی خبر رساں ایجنسی کے مطابق، یہودی آباد کاروں نے عدالتی فیصلوں کی بنیاد پر محلے کے گھروں پر قبضہ کر لیا اور یہ دعویٰ کیا کہ وہاں رہنے والے یہودی خاندان 1948 کی جنگ کے دوران فرار ہو گئے تھے۔
فرانسیسی خبر رساں ایجنسی کے مطابق، اردن نے 1948 میں بے گھر ہونے والے فلسطینیوں کی رہائش کے لیے شیخ جرح کے پڑوس میں رہائش گاہ بنائی تھی اور لیز کے معاہدے اس بات کو ثابت کرتے ہیں۔
اردن کی وزارت برائے امور خارجہ کے ذریعے شائع شدہ دستاویزات کے مطابق یہ دستاویزات ان 28 خاندانوں سے تعلق رکھتی ہیں جو شیخ جرح کے پڑوس میں 1948 کی جنگ کی وجہ سے بے گھر ہو گئے تھے۔
ترک اناطولیہ نیوز ایجنسی نے محلے کے رہائشی محمد الصباغ کے حوالے سے بتایا ہے کہ رہائشیوں کی مشکلات سنہ 1972 میں اس وقت شروع ہوئیں جب سیفارڈک یہودیوں کی کمیٹی اور اسرائیل کی کنیسیٹ کمیٹی (اشکنازی یہودیوں کے لیے بنائی گئی کمیٹی) نے دعوی کیا تھا کہ وہ اس علاقے کے مالک ہیں جس پر 1885 میں مکانات بنائے گئے تھے۔
ایک فلسطینی طالب علم شیخ جراح پڑوس میں اپنے مکان کے قریب رہائش پذیر یہودی گھر کو دیکھ رہی ہے
یروشلم میں فلسطینی حقوق کے قومی اتحاد کے مطابق، جولائی 1972 میں، یہودیوں کی ان دونوں کمیٹویوں نے عدالت سے ’دوسروں کی املاک پر غیر قانونی حملے‘ کی بنیاد پر محلے کے چار خاندانوں سے گھر خالی کرانے کو کہا۔
سنہ 1970 میں اسرائیل میں قانونی اور انتظامی امور کا قانون نافذ کیا گیا تھا جس میں کہا گیا تھا کہ 1948 میں مشرقی یروشلم میں اپنی جائیداد کھو جانے والے یہودی اس کی بازیابی کروا سکتے ہیں۔
اسرائیلی امن تحریک کا کہنا ہے کہ ’یہ نوٹ کرنا ضروری ہے کہ اسرائیلی قانون (1950 میں غیر حاضری کا پراپرٹی لا) 1948 میں اسرائیل میں اپنی جائیداد کھو جانے والے فلسطینیوں کو اس کی بازیابی کی اجازت نہیں دیتا ہے اور ان کے اثاثوں کی ملکیت ریاست کو منتقلی کرنے کی اجازت ہے۔‘
یہ امر قابل ذکر ہے کہ مشرقی یروشلم میں 200،000 سے زیادہ یہودی آباد کار آباد ہیں جہاں فلسطینیوں کی آبادی 300،000 سے تجاوز کر گئی ہے۔
موت سے بھی بدتر
خبر رساں ادارے روئٹرز کے مطابق فلسطینی نبیل ال کرد کا خیال ہے کہ انھیں مشرقی یروشلم چھوڑنے پر مجبور کرنا، جہاں وہ 1950 کی دہائی سے رہائش پذیر ہیں، موت سے بھی بدتر انجام کی نمائندگی کرتا ہے۔
یہ 76 سالہ بوڑھا شخص، ا کی اہلیہ اور بچے بھی ان درجنوں فلسطینیوں میں شامل تھے جن کے متعلق ایک اسرائیلی عدالت نے یہ فیصلہ سنایا کہ ان کے گھر یہودی آباد کاروں کی ملکیت والی اراضی پر تعمیر کیے گئے ہیں۔
گذشتہ دسمبر میں انھوں نے روئٹرز کو بتایا: ’میں یہاں پیدا ہوا ہوں، میں یہاں بڑا ہوا، یہاں میں سکول گیا، یہاں میں نے یونیورسٹی کی تعلیم حاصل کی، یہاں میری شادی ہوئی اور میری ساری یادیں اسی گھر میں ہیں۔۔۔ کیا آپ تصور نہیں کرسکتے ہیں کہ میں کبھی یروشلم سے باہر نہیں گیا، کبھی بھی اس گھر سے باہر نہیں رہا۔۔۔ خدا کی قسم اس گھر سے میں صرف قبرستان ہی جاؤں گا۔‘
نبیل ال کرد نے کہا کہ وہ اپنا گھر چھوڑ کر صرف قبرستان جائیں گے
ان کے اور دیگر افراد کے خلاف شیخ جرح محلوں اور باتن ال ہووا کے علاقوں میں پراپرٹی کے مقدمے درج کیے گئے۔ یہ مقدمات مشرقی یروشلم میں آباد کاروں کی تعداد بڑھانے کے منصوبوں کا ایک مرکزی نقطہ ہیں، جس پر اسرائیل نے سنہ 1967 کی مشرق وسطیٰ کی جنگ میں قبضہ کیا تھا۔
اکتوبر 2020 میں کردوں کو اپنا گھر خالی کرنے کا حکم دیا گیا۔
نبیل ال کرد نے یروشلم فوجداری عدالت میں اس فیصلے کے خلاف اپیل کی ہے حالانکہ پیس ناؤ میں اس تصفیہ کی سرگرمیوں کے خلاف ایک منصوبے کے کوآرڈینیٹر ہیگت افرین کا کہنا ہے کہ ان کے پاس اس فیصلے میں تبدیلی کا بہت کم امکان ہے۔
پچھلے سال اسی عدالت نے انیسویں اور بیسویں صدی کے اوائل کی دستاویزات کی بنیاد پر آباد کاروں کے متعدد دعوؤں کو برقرار رکھا، جس پر یورپی یونین کی طرف سے تنقید کی گئی۔ یروشلم میں یورپی یونین کے نمائندہ نے کہا کہ درجنوں فلسطینیوں کی جبری منتقلی کا خطرہ ہے۔
ایک انسانی تباہی
پیس ناؤ کا کہنا ہے کہ یہودی آباد کاروں کو فائدہ پہنچانے کے لیے 2020 کے آغاز سے اسرائیلی عدالتوں نے 36 فلسطینی خاندانوں کو ان کے گھروں سے انخلا کا حکم دیا ہے، اور ان خاندانوں میں باتن الحوا، سلیوان اور شیخ جارح میں تقریباً 165 افراد شامل ہیں، جن میں سے بیسیوں بچے بھی ہیں۔
پیس ناؤ نے مزید کہا کہ بہت سارے لوگوں کو بغیر معاوضہ یا متبادل رہائش دینے کے بدلے بے گھر ہونے کا خطرہ ہے۔ اور وہ بھاری قانونی فیسوں کے بوجھ تلے بھی دبے ہیں۔
اس تحریک کا کہنا ہے کہ بڑے پیمانے پر ملک بدری کا غیرمعمولی خطرہ ان کنبوں کے لیے انسانیت سوز تباہی کا سبب بنے گا اور ساتھ ہی یروشلم میں امن و استحکام کے امکانات پر دور رس سیاسی دباؤ کا سبب بنے گا۔
یروشلم دنیا کے قدیم ترین شہروں میں سے ایک ہے
تنازعہ کا مرکز
خبر رساں ادارے روئٹرز کے مطابق یہودیوں، مسلمانوں اور عیسائیوں کے لیے مقدس یروشلم کی حیثیت، اسرائیل اور فلسطین تنازعہ کا مرکز ہے۔
فلسطینی چاہتے ہیں کہ مشرقی یروشلم ان کی آئندہ ریاست کا دارالحکومت بن جائے اور بیشتر ممالک اور اور اقوام متحدہ کی قراردادیں اسرائیلی بستیوں کو غیر قانونی گردانتی ہیں۔
خبر رساں ادارے روئٹرز کے مطابق اسرائیل بائبل، اس سرزمین سے اپنے تاریخی تعلقات، سکیورٹی میں رکاوٹوں اور قانونی دلائل کا حوالہ دیتے ہوئے اس سے اختلاف کرتا ہے۔
پیس ناؤ کا کہنا ہے کہ انخلا کے خطرے سے دوچار فلسطینیوں میں سے بہت سے کرد جیسے مہاجر ہیں، یا ان کے آباؤ اجداد نصف صدی سے بھی زیادہ عرصے پہلے اس علاقے میں آئے تھے۔
ان کا مزید کہنا ہے کہ کردوں کے معاملے میں، یہودی آباد کاروں کا دعویٰ ہے کہ انھوں نے یہ زمین دو یہودی انجمنوں سے خریدی ہے۔
Comments are closed.