بدھ14؍شوال المکرم 1442ھ26؍مئی 2021ء

شمالی کوریا میں کم جونگ اُن کے اقتدار کے دس سال

کم جونگ ان: جلا وطنی اختیار کرنے والے دس شہری شمالی کوریا میں گذشتہ ایک دہائی کے اقتدار کو کیسے دیکھتے ہیں؟

  • لورا بِکر
  • بی بی سی نیوز، سیئول

Kim Jong-un

کم جونگ ان کے شمالی کوریا پر اقتدار کے دس سال مکمل ہو چکے ہیں۔ دس سال قبل 27 برس کے گمنام کم جونگ نے ملک کی باگ ڈور سنبھالی تھی۔ ان دس سالوں میں دنیا کے کم ہی رہنما کم جونگ ان کی طرح دنیا بھر کے ذرائع ابلاغ میں خبروں کی زینت بنے ہوں گے۔ مگر یہ دس سال ان کے زیرِ اقتدار عوام کے لیے کیسے رہے؟

یہ دن 19 دسمبر 2011 کا تھا۔ شمالی کوریا کے سرکاری میڈیا پر اعلان ہوا کہ ’ڈیئر لیڈر‘ کم جونگ ال 69 برس کی عمر میں وفات پا گئے ہیں۔

ایک جانب پیانگ یانگ کی سڑکوں پر لوگ زار و قطار رو رہے تھے۔ انتہائی صدمے میں طلبا اپنے سکول کے یونیفارم میں ملبوس زمین پر گر پڑے۔ خواتین کی ایسی تصاویر سامنے آئیں جن میں وہ مایوسی میں اپنے دل کو پکڑ رہی ہیں۔ دوسری جانب دنیا بھر میں کوریا پر ماہر تجزیہ نگاروں نے اپنے دفاتر میں ایک شخص سے متعلق اپنی فائلیں کھنگالنا شروع کر دیں۔

کم جونگ ان

محض 27 برس کی عمر میں کم جونگ ان، کم جونگ ال، کے عظیم وارث کے طور پر سامنے آئے۔ لیکن اس وقت شاید سب کے ذہن میں یہی تھا کہ وہ کامیاب رہنما ثابت نہیں ہو سکیں گے۔ ۔ ایک ایسا معاشرہ جس کا حکمرانی کے لیے عمر اور تجربے پر بھروسا ہو ایک ایسے شخص کو کیسے تسلیم کر سکتا تھاجس کے پاس یہ دونوں ہی نہ ہوں۔

متعدد تجزیہ کاروں نے تو جونگ ال کی وفات کے بعد فوجی بغاوت یا شمالی کوریا کی اشرافیہ کی طرف سے نظام اقتدار پر قبضے کی پیش گوئی کر دی تھی۔ مگر دنیا نے ایک نوجوان آمر کی صلاحیتوں سے صرف نظر کیا۔ کم جونگ نے اپنی پوزیشن کو مضبوط کر کے نہ صرف اپنی صلاحیتوں کا لوہا منوایا بلکہ اس نے ملک کو ’کم جونگ ان ازم‘ دور میں داخل کر دیا۔

انھوں نے اقتدار میں آتے ہی مخالفین کو ہدف بنایا اور سینکڑوں کو پھانسی کی سزا دی اور اس کے بعد خارجی امور کی جانب اپنی توجہ مبذول کی۔ اپنے دور اقتدار میں انھوں نے 100 بیلسٹک میزائلوں سمیت جوہری ہتھیاروں کے چار تجربات بھی کیے اور امریکی صدر سے مذاکرات سے دنیا بھر کی نظروں میں آئے۔

تاہم ان کی جوہری ہتھیاروں میں انتہائی دلچپسی کی ملک کو قیمت بھی چکانی پڑی۔ اس وقت شمالی کوریا ایک بحرانی کیفیت سے گزر رہا ہے اور جب کم جونگ نے اقتدار سنبھالا تھا تو اس وقت کے مقابلے میں یہ ملک زیادہ غریب اور تنہا ہو چکا ہے۔

کم جونگ ان کے اقتدار میں جینا کیسا ہے؟

شمالی کوریا سے جلا وطنی اختیار کرنے والے دس افراد نے کم جونگ کے دس برس کے اقتدار کے بارے میں بی بی سی سے بات کی ہے۔

یہ ایک نیا آغاز ہے

طالب علم کم جیوم ہیوک نے کچھ ایسا کیا جو کم جونگ کے والد کی موت کے دن ان کی موت کا سبب بن سکتا تھا۔ اس نے اس دن پر ایک پارٹی کا اہتمام کر ڈالا۔

وہ کہتے ہیں کہ ‘یہ ایک خطرناک حرکت تھی لیکن اس دن ہم سب بہت خوش تھے۔’

ان کے لیے ایک نیا نوجوان رہنما جو سکینگ اور باسٹک بال سے خاص لگاؤ رکھتا تھا ایک نئی سوچ اور تبدیلی کی غمازی کرسکتا تھا۔

ان کے مطابق ‘اس وقت ہمیں کم جونگ ان سے بہت سی توقعات تھیں۔ اس نے یورپ سے تعلیم حاصل کر رکھی تھی اور یہ امکان تھا کہ وہ ہماری طرح کی ہی سوچ رکھتا۔’

Kim Jong-il and son Kim Jong-un

جیوم ہاک کا تعلق ایک امیر خاندان سے تھا اور اس وقت وہ بیجنگ میں زیر تعلیم تھے۔ شمالی کوریا میں چند افراد کو ہی ایسے مواقع میسر آتے ہیں۔

چین میں گزارے گئے وقت نے ان کو معاشی آسودگی کی ایک نئی دنیا سے روشناس کروایا۔ اس کے بعد انہوں نے انٹرنیٹ پر اپنے ملک کے بارے میں خبریں تلاش کرنا شروع کر دیں۔

‘پہلے پہل تو مجھے یقین نہیں آ رہا تھا۔ مجھے لگا کہ مغربی دنیا (شمالی کوریا سے متعلق) جھوٹ بول رہی ہے مگر دل اور دماغ تقسیم ہو چکے تھے۔ دماغ کہہ رہا تھا کہ کچھ اور دیکھنے کی ضرورت نہیں مگر دل نے کہا کہ اور تحقیق کرنی چاہیئے۔’

شمالی کوریا کی دو کروڑ پچاس لاکھ آبادی پر حکومت کا مکمل تسلط ہے یہی وجہ ہے کہ یہاں کی اکثریت دنیا میں ہونے والے واقعات کے بارے میں بہت کم یا بالکل بھی نہیں جانتی۔ انھیں یہ بھی خبر نہیں کہ باہر کی دنیا میں ان کے ملک کو کیسے دیکھا جا رہا ہے۔ انھیں سکھایا جاتا ہے کہ رہنما خدا کی طرف سے ایک منفرد عنایت ہوتی ہے جو وفاداری کا مستحق ہوتا ہے۔

جیوم ہاک کے لیے نوجوان رہنما کو انتقال اقتدار مختصر دورانیے کی امید کا ہی سبب بنا۔

شک میں مبتلا افراد

تاہم دیگر کئی لوگ شک میں مبتلا تھے۔ پیانگ یانگ میں اقتدار کے ایوانوں میں لوگ یہ باتیں کر رہے تھے کہ کم جونگ ان نازوں میں پلا بچہ ہے جو حکمرانی جیسے منصب کا اہل نہیں ہے۔

کویت میں شمالی کوریا کے سابق سفیر ریو ہیون وو نے بی بی سی کو بتایا کہ ان کے ساتھی باپ سے بیٹے کو اقتدار کی منتقلی پر پریشان تھے۔

ان کے مطابق ‘میرا پہلا ردعمل تھا کہ ہائے ایک اور مورثی انتقال اقتدار؟ شمالی کوریا کی عوام مورثی سیاست سے تھک چکی تھی۔ ملک کی اشرافیہ کو بھی کچھ نئے کی خواہش تھی۔ کیا کچھ مختلف ہو سکتا ہے؟ ہم نے اس وقت یہی سوچا۔’

کم خاندان ملک بننے سے ہی یعنی سنہ 1948 سے شمالی کوریا پر حکمرانی کر رہا ہے۔ عوام کو یہ سکھایا گیا ہے کہ اس خاندان کا خون مقدس ہے جو اس خاندان کے اقتدار کو جواز دینے کا ایک طریقہ ہے۔

ریو کہتے ہیں کہ ‘میں نے لوگوں کو یہی کہتے ہوئے سنا کہ کیا اب ہم ہمیشہ ان کی غلامی کرتے رہیں گے؟ ایک 27 سالہ نوجوان کو ملک چلانے کا کیا پتہ ہو گا۔’

ایک وعدہ

سنہ 2012 میں اپنی ایک تقریر میں ملک کے نئے سربراہ کم جونگ ان نے یہ وعدہ کیا کہ عوام کو اب زیادہ دیر فاقے برداشت نہیں کرنے پڑیں گے۔

ایک ایسے ملک کے لیے جو سنہ 1990 کی دہائی میں مہلک قحط کا شکار ہوا تھا جس میں لاکھوں جانیں ضائع ہوئیں، ایسا لگتا تھا کہ ان کا نیا لیڈر خوراک کی قلت اور ان کے مصائب کو ختم کرنا چاہتا ہے۔ یہ ایک بہت بڑا لمحہ تھا۔

Women queuing for food in N Korea

شمالی کوریا کے دفتر خارجہ کے حکام کو بین الاقوامی سرمایہ کاری کی سہولت کاری کرنے کا حکم دیا گیا۔ اور ملک کے اندر لوگوں نے بھی تبدیلیاں محسوس کیں۔

ملک کے مشرقی ساحل کے ایک صوبے سے تعلق رکھنے والے ڈرائیور یو سیونگ جو کا کہنا ہے کہ اس نے سپر مارکیٹوں میں شمالی کوریا میں بننے والی مزید چیزوں کو دیکھنا شروع کر دیا۔

‘تعجب اور فخر کی بات یہ تھی کہ شمالی کوریا کی کھانے پینے کی مصنوعات ذائقہ، پیکجنگ اور رسد کے لحاظ سے چینی مصنوعات سے بہتر تھیں۔’

مخالفین کے خلاف کارروائیاں

کم جونگ ان کی نیک خواہشات ان لوگوں کے لیے نہیں تھیں جنھیں وہ اپنے لیے خطرہ سمجھتے تھے۔ خاص طور پر ان کے چچا جانگ سونگ تھیک جنہوں نے اتحادیوں کا ایک طاقتور نیٹ ورک جمع کر لیا تھا۔پیانگ یانگ سے سیکڑوں میل دور چین کی سرحد کے قریب ملک کے شمال میں، تاجر چوئی نا راے سوچ رہا تھا کہ کیا مسٹر جنگ ملک کے نئے رہنما ہو سکتے ہیں۔ان کے مطابق ’ہم میں سے بہت سے لوگوں کو امید تھی کہ ملک کے چین کے ساتھ تعلقات استوار ہو جائیں گے اور ہم آزادانہ طور پر بیرون ملک سفر کر سکیں گے۔‘’ہم نے سوچا کہ اگر جانگ سونگ تھیک اقتدار حاصل کرنے میں کامیاب ہو جاتے تو وہ شمالی کوریا میں بہت زیادہ اقتصادی تبدیلی لاتے۔ یقیناً ہم آسانی سے یہ بات سرعام تو نہیں کہہ سکتے تھے لیکن ہمیں یہ توقعات تھیں۔‘

اس قسم کی افواہ کو رد کرنا ضروری تھا۔جانگ سونگ کو ’انسانوں کے لیے گندگی‘ اور ’کتے سے بھی بدتر‘ جیسے القابات سے نوازا گیا۔ اور پھر مبینہ طور پر ’پارٹی قیادت کی یکجہتی‘ کو کمزور کرنے کے الزام میں پھانسی دے دی گئی۔نوجوان لیڈر نے اپنی سفاکانہ خصلت کا بھی مظاہرہ کرنا شروع کر دیا تھا۔

یہ بھی پڑھیے

اقتدار حاصل کرنا

ایسی کارروائیوں سے بچ کر بیرون ملک پناہ لینے کی غرض سے درجنوں افراد سرحد پار سے چین اور پھر جنوبی کوریا کی طرف فرار ہو گئے۔

مزید ایسے افراد کے فرار کا راستہ روکنے کے لیے سرحد پر حفاظتی امور پہلے سے زیادہ سخت کردیے گئے اور خاردار تاروں کی باڑ نصب کر دی گئی۔

ہا جِن وو اپنے دور میں ایک بروکر کے طور پر تقریباً 100 لوگوں کو شمالی کوریا سے نکالنے میں کامیاب ہوئے۔

Korean border

وہ کہتے ہیں کہ ‘ملک میں سرحد کی محافظ الگ فورس ہے۔ ان سے کہا جاتا ہے کہ جو بھی سرحد پار کرنے کی کوشش کرے اسے گولی مار دیں اور ان پر کسی قسم کا مقدمہ نہیں چلایا جائے گا۔’

ہا جِن وو کے مطابق ’جب میں نے شروعات کی تو میں بہت خوفزدہ تھا لیکن مجھے فرض کا احساس تھا۔ جب سے میں چھوٹا تھا مجھے شمالی کوریا کے بارے میں بہت زیادہ شکوک و شبہات تھے۔ میں یہاں کیوں پیدا ہوا ہوں کہ ایک جانور سے بھی کمتر زندگی گزاروں، جسے کوئی حقوق اور آزادی حاصل نہیں؟ مجھے یہ کام کرنے کے لیے اپنی جان کو خطرے میں ڈالنا پڑا‘۔

لیکن آخرکار ہا جن وو کو بھاگنا پڑا کیونکہ وہ نظروں میں آچکا تھا۔ اس کی ماں کو جیل میں بند کر دیا گیا جہاں ہونے والے ظالمانہ سلوک سے وہ مفلوج ہو کر رہ گئیں۔

یہ بات ہا جن وو کو بہت پریشان کرتی ہے، جسے اب بمشکل ہی اپنی ماں کی آواز یاد ہے۔

مسٹر پاپولر

اختلاف کرنے والوں اور بیرون ملک فرار ہونے والوں کے خلاف سخت کارروائی کے باوجود کم جونگ ان اپنے والد سے زیادہ عوامی، زیادہ جدید اور زیادہ دوستانہ دکھائی دینے کی کوشش کر رہے تھے۔

انھوں نے ایک فیشن ایبل نوجوان عورت ری سول جو سے شادی کی۔

مختلف شہروں اور دیہاتوں کے دوروں کے دوران انھیں گلے ملتے، ہاتھ ہلاتے اور مسکراتے ہوئے دکھایا گیا۔ رولر کوسٹر کی سواری، سکینگ، گھوڑے کی پیٹھ پر سرپٹ دوڑنے کی تصاویر شائع کی گئیں۔

کم جونگ نے اپنی اہلیہ کے ساتھ کاسمیٹک فیکٹریوں کے دورے کیے اور پرتعیش اشیا کی نمائش بھی کی۔ لیکن اس جدت کی عام شمالی کوریائی باشندوں کو اجازت نہیں۔

یون می سو بھی ان رجحانات کی پیروی کرنا چاہتی تھی جو اس نے سمگل شدہ جنوبی کوریائی ڈی وی ڈیز پر دیکھی تھیں۔ وہ بالیاں، ہار یا یہاں تک کہ جینز پہننے کے لیے بے چین تھی۔

وہ کہتی ہیں کہ ’مجھے ایک بار ان اصولوں کی پابندی نہ کرنے پر پکڑا گیا تھا اور مجھے عوامی شرمندگی کے سٹینڈ پر کھڑا کیا گیا، جہاں لوگوں کا ایک گروپ صرف زبانی طور پر مجھ پر تنقید کرتا رہا جب تک کہ میں چلائی نہیں۔ وہ کہہ رہے تھے ‘تم کرپٹ ہو، تمہیں شرم کیسے نہیں آتی؟’

کم جونگ کی بیوی کی طرح ہیون ینگ ایک گلوکارہ تھی۔

لیکن اس کے تمام گانوں میں شمالی کوریا کے رہنما کی تعریف کرنا ضروری قرار دیا گیا، جب اس نے بغاوت کرنے کی کوشش کی تو پھر اسے سزا دی گئی۔

ان کے مطابق ’مجھے کبھی بھی آزادانہ طور پر وہ کام کرنے کی اجازت نہیں دی گئی جو میں کرنا چاہتی تھی۔ شمالی کوریا کی موسیقی میں اس قدر ضابطے اور قید تھی کہ میں نے بہت نقصان اٹھایا۔ حکومت اس کو کنٹرول کرتی ہے کیونکہ وہ غیر ملکی اثر و رسوخ سے ڈرتی ہے۔ یہ سخت ضابطے ظاہر کرتے ہیں کہ وہ اپنی حکومت پر اعتماد نہیں رکھتے‘۔

انسانی حقوق کی ایک حالیہ رپورٹ کے مطابق جنوبی کوریا سے ’کے پاپ‘ ویڈیوز دیکھنے یا تقسیم کرنے پر گذشتہ دہائی میں کم از کم سات افراد کو سزائے موت دی گئی ہے۔

کم جونگ اُن نے ان غیر ملکی اثرات کو ’شیطانی کینسر‘ قرار دیا۔

ٹک ٹک بوم

شمالی کوریا کی طرف سے ہر بیلسٹک میزائل کا تجربہ عالمی سطح پر میڈیا کی شہ سرخیوں میں ہوتا تھا لیکن ان کا اثر عوام پر وہ نہ ہوا جس طرح سوچا گیا تھا۔

بیرون ملک فرار ہونے والے ایک شہری کے مطابق ’لوگ (تو سمجھتے ہیں) کہیں گے کہ وہ اب بھی لوگوں کا خون اور پسینہ نچوڑ کر ہتھیار بنا رہے ہیں‘۔

ایسے ہی ایک اور شخص نے کہا کہ ’ہم نے اسے فتح نہیں سمجھا۔ ہم نے سوچا ‘واہ، انھوں نے ان تمام تجربات پر اتنا پیسہ خرچ کیا۔ ہم جتنا پیسہ کماتے ہیں وہ اسی میں جاتا ہے‘۔

Missiles

سنہ 2016 کے قریب دفتر خارجہ میں سفیر ریو کو نئے احکامات جاری کیے گئے۔ توجہ اب صرف کاروبار پر نہیں تھی۔ ان کے مطابق ’ہمیں یہ بتانا تھا کہ آخر شمالی کوریا کو جوہری ہتھیاروں کی ضرورت کیوں ہے‘۔

یہ امید باندھ لی گئی تھی کہ سفارت کاروں کے اس بارے میں بات کرنے سے یہ خیال عالمی برادری میں معمول پر آ جائے گا۔

ان کے مطابق ’میں نے اس طرح کام نہیں کیا‘۔

راکٹ مین کا بڑا جوا

امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ اور کم جونگ اُن کے درمیان بڑھتی ہوئی دھمکیوں کا اختتام سفارتی انداز میں ہوا۔

مغربی میڈیا میں ایک فربہ بگڑے ہوئے آمر کے طور پر پیش کیے جانے والے کم جونگ اب اعتماد کے ساتھ امریکی صدر کے شانہ بشانہ چل رہے تھے۔

شمالی کوریا کے اخبارات نے سنگا پور میں ہونے والے کم جونگ اور امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے مصافحے کو صفحہ اول پر شائع کیا۔

Kim and Trump

لیکن ملک پر عائد پابندیایوں سے مشکلات بڑھنا شروع ہو گئی تھیں۔ اگرچہ اس تصویر سے حیرت ضرور ہوئی، لیکن پیانگ یانگ کے مرکزی شہر سے باہر دیہی علاقوں میں آواز کو دبا دیا گیا۔

تاجر چوئی نا راے کے مطابق ’ہمارے پاس اس خبر کا تجزیہ کرنے کی صلاحیت نہیں تھی۔ ہم نہیں سمجھ سکے کہ یہ ملاقات کس طرح بہتری کا باعث بن سکتی ہے‘۔

کم جونگ اور ٹرمپ میں کوئی ڈیل نہیں ہوئی تھی۔ سابق سفیر کے خیال میں یہ سب پابندیوں سے کچھ ریلیف حاصل کرنے کے لیے ایک تماشا تھا۔

شمالی کوریا نے کبھی بھی اپنے جوہری پروگرام کو ترک نہیں کیا کیونکہ اسے حکومت کی بقا کے لیے اہم سمجھتا ہے۔

کورونا وائرس کا بحران

کم جونگ اُن کے لیے ابھی بدتر حالات آنے تھے۔

جنوری 2020 میں جب ہمسایہ ملک چین میں کووِڈ کی وبا پھیلی تو شمالی کوریا نے اپنی سرحدیں بند کر دیں۔ نہ صرف لوگوں کے لیے بلکہ تجارت کے لیے بھی۔

ڈانڈونگ کے مرکزی داخلی مقام پر خوراک اور ضروری ادویات کا ڈھیر لگ گیا مگر یہ سب ملک میں نہیں جا سکتا تھا۔ خیال رہے کہ شمالی کوریا کی 80 فیصد سے زیادہ تجارت چین سے ہوتی ہے۔

شمالی کوریا میں ڈرائیور رہنے والے جو سیونگ کے مطابق کووڈ کے بعد سے بہت کچھ بدل گیا ہے۔ وہ چین کی سرحد کے قریب اپنی ماں سے مختصر بات کرنے میں کامیاب ہو گئے ہیں۔

’معیشیت سکڑ رہی ہے، قیمتیں بڑھ گئی ہیں۔ زندگی گزارنا بہت مشکل ہو گیا ہے۔ لگتا ہے میرے والدین کو کھانا مل رہا ہے لیکن قیمت بہت زیادہ ہے۔ یہ بہت بری صورتحال ہے اور سنگین ہو رہی ہے‘۔

ایسی بھی اطلاعات ہیں کہ لوگ بھوکے مر رہے ہیں۔

خود کم جونگ اُن نے اسے ایک ’عظیم بحران‘ قرار دیا ہے اور ایک تقریر میں آنسو بھی بہائے ہیں، جس کی شمالی کوریا میں کوئی نظیر نہیں ملتی۔

وہاں کے ایک سابق ڈاکٹر کم سنگ ہوئی کا کہنا ہے کہ زیادہ تر ادویات بلیک مارکیٹ سے خریدنی پڑتی ہیں۔ آپریٹنگ تھیٹر باقاعدگی سے بجلی کے بغیر چلتے ہیں اور سرجن بعض اوقات اپنے برہنہ ہاتھوں سے کام کرتے ہیں کیونکہ دستانے تک دستیاب نہیں ہوتے۔

ان کے مطابق ’میں دیکھتا ہوں کہ اس جزیرہ نما پر دو ملک کتنے مختلف ہیں، مجھے امید ہے کہ شمالی کوریا کا بھی ایسا مستقبل ہو گا جہاں مریضوں اور ڈاکٹروں دونوں کے انسانی حقوق کی ضمانت دی جاتی ہے‘۔

شمالی کوریا وبائی مرض کے مقابلے کے لیے تیار نہیں تھا اور کووڈ سے مرنے والوں کی تعداد بھی معلوم نہیں۔ شمالی کوریا اپنے لوگوں کو کوئی خاص نقصان پہنچائے بغیر اپنی موجودہ خود ساختہ تنہائی کو بھی برقرار نہیں رکھ سکتا۔

کم جونگ ان کے شمالی کوریا کے بارے میں مزید پڑھیے

کم جونگ ڈاکٹرائن

کچھ منحرف شدہ لوگ شمالی کوریا کی موجودہ صورتحال کے بارے میں اتنے جذباتی تھے کہ انھوں نے بغاوت کی پیشین گوئی تک کر دی۔ لیکن اس کے دور دراز تک کوئی امکانات موجود نہیں ہیں۔

کم خاندان کا غلبہ وسیع اور قابل ذکر طور پر مستحکم ثابت ہوا ہے۔ حکومت کے خاتمے کی تمام پیشین گوئیاں غلط ثابت ہوئیں۔

From left: Trader Choi Na-rae, broker Ha Jin-woo, singer Hyun Hyang and Ambassador Ryu
،تصویر کا کیپشن

شمالی کوریا سے فرار ہو کر جانے والوں کا بی بی سی کو انٹرویو

دنیا کے لیے 70 سال سے زیادہ بند رہنے کے بعد مجھے زیادہ تر انٹرویو دینے والوں نے کہا کہ ان کی خواہش ہے کہ شمالی کوریا اپنی سرحدیں کھول دے تاکہ لوگوں کو آزادانہ نقل و حرکت کی اجازت دی جائے۔ بہت سے لوگ صرف اپنے خاندانوں کو دوبارہ دیکھنا چاہتے ہیں۔

وہ اب اپنی آواز بلند کرنے اور کم جونگ اُن کی زندگی کے بارے میں اپنی کہانیاں سنانے کے لیے آزاد ہیں۔ پیچھے رہ جانے والے ایسا نہیں کر سکتے۔

گلوکارہ ہیون ہانگ کا کہنا ہے کہ ’گانا ایک ایسا کام ہے جس کے لیے میں نے اپنی جان خطرے میں ڈالی ہے، جو لوگ شمالی کوریا میں رہ گئے ہیں انھیں اس خواہش کو اپنے دل میں مرتے دم تک دفن کرنا ہوگا‘۔

اپنے اقتدار کی دسویں سالگرہ پر کم جونگ اُن بحران میں گھرے ملک کے انچارج ہیں۔ ان کے پاس درجنوں نئے ایٹمی ہتھیار ہیں لیکن ملک میں لوگ پھر بھی بھوک کا شکار ہیں۔

سنہ 2018 میں جنوبی کوریا کے صدر کے پیانگ یانگ کے دورے کے فوراً بعد سیئول کے مرکز میں ایک بہت بڑا پوسٹر لگایا گیا تھا۔ یہ کم جونگ اُن کی ایک تصویر تھی، جس میں دکھایا گیا تھا کہ اپنی انگلیوں اور انگوٹھے کو کس طرح ایک ساتھ رکھنا ہے جو کہ ’کے پاپ‘ محبت کی علامت بن گیا ہے۔

میں نے اس وقت لکھا تھا کہ انہی انگلیوں کے ایک کلک سے مسٹر کم اپنے لوگوں کی قسمت بدل سکتے ہیں۔ وہ انھیں آزادی کی پیشکش کر سکتے ہیں۔ ان کے پاس وہ طاقت ہے۔

اس کی بجائے شمالی کوریا کے 25 ملین لوگ پہلے سے کہیں زیادہ دنیا سے الگ تھلگ ہیں۔

ان تمام انٹرویو دینے والوں نے اپنی جان خطرے میں ڈال کر شمالی کوریا چھوڑ دیا اور اب وہ جنوبی کوریا اور امریکہ میں مقیم ہیں۔ ان کے خاندانوں کی حفاظت کے لیے ان میں سے کچھ کے نام تبدیل کیے گئے ہیں۔

عکاسی: گیری فلیچر

BBCUrdu.com بشکریہ
You might also like

Comments are closed.