شمالی کوریا میں بھیک مانگنے والا نوجوان جو ’کے-پاپ‘ سٹار بن گیا،تصویر کا ذریعہJungmin Choi / BBC Korean
،تصویر کا کیپشنہایوک

  • مصنف, یونا کو
  • عہدہ, بی بی سی کورین
  • ایک گھنٹہ قبل

نو سال کی عمر میں یو ہایوک کو زندگی کی سختیوں کا اس وقت احساس ہوا جب انھیں شمالی کوریا میں سڑک پر بھیک مانگنی پڑی۔ایک بار انھوں نے ایک انڈر گراؤنڈ سٹیشن پر پڑا ایک لنچ باکس اٹھا لیا تھا۔ اس لنچ باکس کے آس پاس کوئی نہیں تھا۔ لنچ باکس میں کچھ چاول تھے جو خراب ہو چکے تھے۔ انھوں نے اس میں سرکہ اور بیکنگ سوڈا ملا دیا۔ لیکن جب اس لنچ باکس کا مالک واپس آیا تو اس نے ہایوک کو پکڑ لیا اور انھیں مارا پیٹا۔ہایوک کا کہنا ہے کہ انھیں پتہ ہے کہ چوری کرنا غلط ہے، لیکن اس وقت وہ بھوک سے تقریباً مر رہے تھے۔ شمالی کوریا کی زیادہ تر آبادی کے لیے ایسی غیر قانونی حرکتیں ’روزمرہ کی زندگی کا حصہ‘ ہوا کرتی ہیں۔

ان کی زندگی بقا کی جدوجہد میں اس قدر الجھی ہوئی تھی کہ ان میں خوابوں کی کوئی گنجائش باقی نہیں رہی تھی۔ یہ 24 سالہ نوجوان ہایوک کے لیے آج بھی کسی خواب کی طرح ہے کہ اب وہ شمالی کوریا کے منحرف ارکان کے ساتھ پہلے کے-پاپ گروپ کا حصہ بننے والا ہے۔ہایوک کے علاوہ کم سیوک کا تعلق بھی شمالی کوریا سے ہے۔ کے-پاپ گروپ ون ورس (جس کا تلفظ یونیورس ہے اور اسے پہلے ایس بی بوائز کہا جاتا تھا) کے دیگر اراکین میں جاپان کے ایئیتو اور چینی نسل کے امریکی کینی شامل ہیں۔ان چاروں میں سب سے چھوٹے ایئیتو کہتے ہیں: ’شروع شروع میں تو میں گھبرایا ہوا تھا کیونکہ شمالی کوریا کے جاپان کے ساتھ دشمنوں والے تعلقات ہیں۔ میں نے سوچا تھا کہ شمالی کوریا کے لوگ ڈراؤنے ہوں گے، لیکن یہ سچ نہیں۔‘گروپ رواں سال کے آخر میں امریکہ میں ڈیبیو کرنا چاہتا ہے۔ یہ ’سنگنگ بیٹل‘ کا ایک سٹریٹجک فیصلہ ہے۔خیال رہے کہ ’ون ورس‘ کو ’سنگنگ بیٹل‘ کا نام دیا گیا ہے۔ اس کے ذریعے شمالی کوریا کے منحرف ہونے والوں کی کہانیاں امریکی عوام کی زیادہ توجہ کا باعث بن سکتی ہیں، کیونکہ ایگزیکٹوز نے امریکہ کے دوروں کے دوران ممکنہ سرمایہ کاروں کی طرف سے اس جانب کافی دلچسپی محسوس کی ہے۔،تصویر کا ذریعہSinging Beetle

،تصویر کا کیپشنگروپ سنگنگ بیٹل
یہ ’سنگنگ بیٹل‘ کا ایک سٹریٹجک فیصلہ ہے۔ خیال رہے کہ ’ون ورس‘ کو ’سنگنگ بیٹل‘ کا نام دیا گیا ہے۔ اس کے ذریعے شمالی کوریا کے منحرف ہونے والوں کی کہانیاں امریکی عوام کی زیادہ توجہ کا باعث بن سکتی ہیں، کیونکہ ایگزیکٹوز نے امریکہ کے دوروں کے دوران ممکنہ سرمایہ کاروں کی طرف سے اس جانب کافی دلچسپی محسوس کی ہے۔

شمال میں کے-پاپ

اگرچہ ہایوک اور سیوک دونوں کا تعلق شمالی کوریا سے ہے لیکن ان کا پس منظر بالکل مختلف ہے۔ سیوک کا خاندان خوشحال تھا اور وہ چین کی سرحد کے قریب آباد تھے۔ اس لیے انھیں سمگل شدہ سی ڈیز اور یو ایس بی کے ذریعے کے-پاپ اور کے-ڈراموں تک رسائی حاصل تھی۔جبکہ ہایوک کے لیے موسیقی کسی آسائش سے کم نہیں تھی۔ شمالی کوریا میں رہتے ہوئے انھوں نے شاید ہی کبھی کے-پاپ کے بارے میں سنا ہو لیکن وہ اتنا جانتے تھے کہ جنوبی کوریا کے تفریحی مواد کو دیکھنے پر سخت سزائیں ضرور دی جاتی ہیں۔انھوں نے کہا: ’میں ذاتی طور پر کسی ایسے شخص کو نہیں جانتا تھا جسے کے-پاپ سننے پر سزا دی گئی ہو، لیکن میں نے ایک ایسے خاندان کے بارے میں ضرور سنا تھا کہ جنوبی کوریا کی فلم دیکھنے پر انھیں گاؤں سے نکال دیا گیا تھا۔‘شمالی کوریا کے رہنما کِم جونگ اُن جنوبی کوریائی ثقافت کی آمد کے خلاف کریک ڈاؤن کو تیز کر رہے ہیں اور سنہ 2020 سے اس طرح کے مواد کا استعمال اور تقسیم ایک جرم بن گیا ہے اور اس کی سزا موت ہے۔رواں سال کے اوائل میں بی بی سی کورین کو ایک نایاب ویڈیو ملی جس کے بارے میں خیال کیا جاتا ہے کہ اسے سنہ 2022 میں فلمایا گیا ہے۔ اس میں دیکھا جا سکتا ہے کہ دو نوعمر لڑکوں کو کے-ڈرامے دیکھنے اور تقسیم کرنے پر 12 سال کی قید بامشقت کی سزا سنائی گئی ہے۔،تصویر کا ذریعہGetty Images

ہایوک کا کے-پاپ سے حقیقی معنوں میں پہلا سابقہ جنوبی کوریا پہنچنے کے بعد پڑا۔ وہ کہتے ہیں کہ کے-پاپ ستاروں کی زندگیاں ان جیسے لوگوں کی پہنچ سے بالکل باہر ہیں۔ہایوک کے لیے جنوبی کوریا کے مطابق اپنی زندگی کو ڈھالنا بھی مشکل رہا ہے۔شروع میں وہ وہاں سے فرار ہونا نہیں چاہتے تھے کیونکہ منحرف ہونے کا مطلب اپنے والد اور دادی کو چھوڑنا تھا جیسا کہ ان کی والدہ نے کیا تھا جب وہ صرف چار سال کے تھے اور وہ انھیں چھوڑ کر چلی گئی تھیں اور اس کے بعد ان کی دادی اور والد نے ہی ان کی پرورش کی تھی۔جب والدہ نے دوسری بار ان کے لیے کسی کو بھیجا تو ہایوک کے والد نے انھیں جانے کے لیے راضی کر لیا۔ جنوبی کوریا پہنچنے سے پہلے انھیں کئی ممالک سے گزرنا پڑا جس میں انھیں کئی مہینے لگے۔ہایوک اپنی والدہ کے ساتھ صرف ایک سال ہی رہے۔ ان کا تعلق آج بھی بہت اچھا نہیں ہے۔ وہ اپنے ایک گیت میں خود کو ’تنہائی پسندوں میں سب سے تنہا‘ کا نام دیتے ہیں۔،تصویر کا ذریعہSinging Beetleجنوبی کوریا کا تعلیمی نظام بھی ان کے لیے آسان نہ تھا کیوں کہ ہیوک نے ملک چھوڑنے سے قبل پرائمری سکول کی تعلیم مکمل نہیں کی تھی۔ان تمام مسائل کے باوجود ہایوک کو لکھنا پسند تھا۔ انھوں نے شمالی کوریا میں اپنی زندگی پر مختصر نظمیں لکھنا شروع کر دیں۔وہ بتاتے ہیں کہ ’میرے ساتھ جو ہوا، وہ میں کھل کر نہیں بتا سکتا تھا لیکن میری خواہش تھی کہ میں اس کا ایک خفیہ ریکارڈ رکھوں۔‘پہلے ہیوک کو یقین نہیں تھا کہ ان کی کہانی کسی اور کو سمجھ آئے گی اور اسی لیے انھوں نے یہ کہانی خود تک ہی محدود رکھی۔ ہائی سکول کے پہلے سال میں جب انھوں نے موسیقی کے کلب میں شمولیت اختیار کی تو ان کے استاد اور دوستوں نے ان کی حوصلہ افزائی کی اور ان سے کہا کہ وہ اپنی کہانی زیادہ سے زیادہ لوگوں تک پہنچائیں۔وہ کہتے ہیں کہ ’انھوں نے مجھ سے کہا کہ لوگ واقعی میری کہانیوں اور میرے دکھ کو سمجھ سکتے ہیں۔‘17 سال کی عمر میں ہیوک نے گزر بسر کے لیے ریسٹورنٹ اور فیکٹریوں میں کام کیا۔ اپنی مصروفیات کے باجود سمارٹ فون پر گیت لکھنے کا وقت ہمیشہ مل جاتا تھا۔ انھوں نے اپنے والد کی محبت، سخت اور تنہا زندگی کے بارے میں لکھا۔،تصویر کا ذریعہSinging Beetle2018 میں ایک ٹی وی پروگرام میں ہیوک شامل تھے جب ان کے ریپ کرنے کے انداز کی وجہ سے چو مشیل، سنگنگ بیٹل کی سی ای او، کی ان پر نظر پڑی۔ ہیوک کا کہنا ہے کہ ’ایک سال تک مجھے مشیل پر بھروسہ نہیں ہوا کیوں کہ مجھے لگا کہ وہ دھوکہ دے رہی ہے۔‘ان کے خیالات کی ایک وجہ یہ بھی تھی کہ شمالی کوریا سے منتقل ہونے والے لوگوں کو جنوبی کوریا کے معاشرے کے بارے میں کم علمی کی وجہ سے اکثر فراڈ کا شکار بنایا جاتا ہے۔ تاہم رفتہ رفتہ ان کو یہ احساس ہوا کہ مشیل بہت زیادہ وقت اور پیسہ لگا رہی تھیں۔

خالی کینوس

ہیوک اور سیوک موسیقی کی دنیا میں نووارد تھے۔ ان کے لیے کے پوپ تربیتی نظام بہت مشکل تھا۔ ہیوک کے مطابق سب سے زیادہ مشکل بات تربیت کے اوقات کی پاسداری تھی۔مشیل اور تربیت دینے والے دیگر افراد کہتے ہیں کہ انھوں نے ان دونوں جیسا کوئی نہیں دیکھا۔ مشیل کا کہنا ہے کہ وہ ’خالی کینوس‘ کی طرح تھے جن کو پاپ کلچر کی کوئی سمجھ نہ تھی۔لیکن ان کی جسمانی تکالیف برداشت کرنے کی صلاحیت نے مشیل کو حیران کر دیا جو ایک دہائی سے کے پاپ انڈسٹری میں کام کر رہی ہیں۔ ہر دن گھنٹوں تک ڈانس کی پریکٹس اتنے عزم سے ہیوک اور سیوک نے ممکل کی کہ ایک موقع پر مشیل کو پریشانی شروع ہو گئی۔موسیقی اور ڈانس کے ساتھ ساتھ انھیں آداب پر بھی تربیت دی گئی اور ان کے ساتھ اس طرح بات چیت کی جاتی کہ وہ میڈیا کا سامنا کرنے کے لیے مکمل طور پر تیار ہو جائیں۔مشیل کا کہنا ہے کہ ’میرے خیال میں ان کو سوال کرنے یا اپنی رائے کا اظہار کرنے کی عادت نہیں تھی اور جب ایک تربیت دینے والے نے ان کی سوچ کی وجہ جاننے کی کوشش کی تو ان کا جواب صرف اتنا تھا کہ کیوں کہ آپ نے آخری بار ایسا کہا تھا۔‘تین سال گزرنے کے بعد ہیوک کی شخصیت میں واضح تبدیلی آئی ہے۔ مشیل کہتی ہیں کہ ’اب ہیوک بہت سی چیزوں پر سوال اٹھاتا ہے۔ مثال کے طور پر اگر آپ اس سے کچھ کرنے کو کہیں گے تو وہ پوچھے گا کہ کیوں؟ یہ کیوں ضروری ہے۔ کبھی کبھی مجھے افسوس ہوتا ہے کہ میں نے کیا کیا۔‘،تصویر کا ذریعہJungmin Choi / BBC Korean

خدشات

تاہم حفاظت سے جڑے خدشات اب بھی موجود ہیں۔ ہیوک شمالی کوریا کے ناقد کے طور پر نہیں مشہور ہونا چاہتے اور اسی لیے وہ کم جونگ ان کا نام لینے سے کتراتے ہیں۔وہ کہتے ہیں کہ ’سچ یہ ہے کہ میں کے پاپ سے جڑا ہوں لیکن میں شمالی کوریا کا لیبل نہیں چاہتا۔‘اس کے باوجود انھیں شمالی کوریا سے فرار ہونے والوں کی جانب ایک ذمہ داری کا احساس ہے خصوصا اب جب بہت سے نوجوان اپنی شناخت چھپا کر نہیں رکھنا چاہتے۔وہ کہتے ہیں کہ ’اگر میں کامیاب ہو گیا تو دوسرے لوگوں کی حوصلہ افزائی ہو گی اور وہ اور بڑے خواب دیکھ سکیں گے۔ اسی لیے میں اتنی محنت کر رہا ہوں۔‘
BBCUrdu.com بشکریہ

body a {display:none;}