شمالی کوریا جہاں پھٹی جینز پہننے والوں کی تلاش میں پولیس قینچی لیے سڑکوں پر کھڑی ہوتی ہے

  • مصنف, کم ہیو جیون
  • عہدہ, بی بی سی کورین
  • ایک گھنٹہ قبل

شمالی کوریا کے سب سے اونچے پہاڑی سلسلے پائیکڈو کے چیونجی میں سورج طلوع ہو رہا تھا اور آسمان سورج سے نکلنے والی سرخ شعاؤں میں ڈوبا ہوا تھا۔ اس منظر کو دیکھنے کے لیے وہاں کچھ سیاح بھی تھے۔ایسے میں ایک 15 سالہ لڑکی کی آنکھیں اس وقت حیرت سے پھیل گئیں جب انھوں نے ایک مغربی سیاح کو ‘پھٹی ہوئی جینز’ میں ملبوس دیکھا۔اس سے قبل اس لڑکی نے کبھی ایسی جینز نہیں دیکھی تھی۔ شمالی کوریا میں جینز امریکی سامراج کی علامت ہے اور گھٹنوں کو دکھانے والی پھٹی ہوئی جینز وہاں ممنوع ہیں۔ اس لڑکی کو یہ نظارہ عجیب اور حیران کن لگا۔شمالی کوریا میں پھٹے ہوئے کپڑے پہننے کا مطلب یہ ہے کہ آپ غریب ہیں۔

اس نے بڑبڑاتے ہوئے کہا کہ ‘کوئی غیر ملکی بھکاری یہاں اکیلا کیوں آئے گا؟’ ان کے والد نے کہا کہ ‘ایسا ہو ہی نہیں سکتا کہ کوئی غیر ملکی جو یہاں کا سفر کر رہا ہو وہ بھکاری ہو، ہو سکتا ہے کہ یہ ان کا فیشن ہو۔’ وہ بتاتی ہیں کہ میں حیران رہ گئی اور اس چیز نے میری زندگی بدل کر رکھ دی۔’اگرچہ ‘فیشن’ ایک ایسا لفظ ہے جس کا شمالی کوریا میں وجود نہ ہونے کے برابر ہے، لیکن ‘فیشن’ نے اس 15 سالہ لڑکی کی آنکھیں کھول دیں اور سنہ 2009 میں جب وہ سن بلوغ کو پہنچیں اور 20 سال کی ہوئیں تو وہ شمالی کوریا سے فرار ہونے میں کامیاب ہو گئیں۔ان کے مطابق اس فرار کی صرف ایک وجہ تھی اور وہ یہ کہ وہ ‘لباس میں آزادی اور خوشی تلاش کرنا چاہتی تھی۔’ یہ جیہیون کانگ کی کہانی ہے جو بعد میں فیشن ڈیزائنر بنیں۔اگرچہ شمالی کوریا میں زرق برق لباس کی اجازت نہیں لیکن کانگ اپنی ماں کے زیر اثر مختلف قسم کے کپڑے دیکھ کر بڑی ہوئیں۔ ان کی والدہ ایک استاد تھیں اور تجارت کرتی تھیں۔ وہ شمالی کوریا کی سرحد پر چین اور جاپان سے لائے جانے والے کپڑے خرید کر بازار میں فروخت کرتی تھیں۔ ان میں بہت سے ایسے کپڑے تھے جو انھوں نے پہلے کبھی نہیں دیکھے تھے۔

،تصویر کا کیپشنشمالی کوریا کی ایک منحرف خاتون کا نظریہ اس وقت بدل گیا جب انھوں نے ایک سیاح کو پھٹی جینز میں دیکھا

سڑک پر پولیس افسران قینچی کے ساتھ کھڑے ہوتے

کانگ اپنی والدہ کی مشکور ہیں کہ ‘ان کی وجہ سے میں فینسی لیس والے بلاؤز اور پھولوں والی ہوڈیز پہن کر باہر نکلتی۔ اصل میں ابتدا میں وہ کپڑوں پر بہت کنٹرول نہیں رکھتے تھے لیکن جب میں نے 2000 کی دہائی کے اواخر میں سکول سے گریجویشن کیا تو ‘زرد ہوا’ کا لفظ بہت زیادہ مستعمل تھا اور دور میں کریک ڈاؤن مزید شدید ہو گیا۔”زرد ہوا’ شمالی کوریا کی ایک اصطلاح ہے جو ایک ‘بے ہودہ اور زوال پذیر ٹرینڈ’ کے لیے استعمال ہو رہی ہے۔ اسے کثرت سے اور بطور خاص سرمایہ دارانہ ثقافت میں استعمال کیا جاتا تھا۔ کورین ڈکشنری کے مطابق ‘زرد’ یا پیلا شمالی کوریا میں ایک ایسا لفظ ہے جو فحاشی اور موقع پرستی کی علامت ہے۔’سڑک پر لوگ (پولیس افسران) قینچی کے ساتھ کھڑے کریک ڈاؤن کر رہے ہوتے تھے۔ اگر آپ جینز پہنتے ہیں تو وہ قینچی سے نیچے کا حصہ کاٹ دیتے تاکہ آپ کو کپڑے بدلنا پڑیں اور آپ اپنی جینز لاکر ان کے حوالے کریں۔’سکول سے فارغ التحصیل ہونے کے بعد کانگ نے کچھ عرصہ اکاؤنٹس کے شعبے میں کام کیا اور پھر لائبریرین بن گئیں۔ وہ کپڑے ڈیزائن کرنا چاہتی تھیں لیکن شمالی کوریا میں ڈیزائنر کی نوکری نہیں تھی۔

انھوں نے ایک سال تک کوشش کی لیکن بات نہ بنی اور پھر انھوں نے چین جانے کا فیصلہ کیا۔ اس وقت بھی ان کا جنوبی کوریا جانے کا کوئی ارادہ نہیں تھا۔ وہ صرف کچھ مختلف کرنا چاہتی تھیں۔’میرا دل اس وقت اور بھی بے چین ہوا جب میں نے چین میں لوگوں کو پھٹی ہوئی پتلون اور بغیر آستینوں کے کپڑے پہنے ہوئے دیکھا۔ لیکن جب میں کوریائی طالب علموں سے ملی اور ان سے بات کی تو مجھے سب سمجھ آنے لگا۔’کانگ نے سوچا کہ اگر وہ جنوبی کوریا جاتی ہیں تو اپنے خواب کو پورا کر سکتی ہیں۔ ’میں ڈیڑھ سال تک فرار کی تاک میں رہی اور پھر یہاں آئی۔’کوریا میں ڈیزائننگ کی تعلیم حاصل کرنے کے بعد کانگ نے اپنے ملبوسات کے برانڈ ‘آئی سٹوری’ کی بنیاد رکھی۔ وہ ٹی شرٹس اور دیگر اشیا بناتیں اور اس پر جو تصاویر پرنٹ کرتیں ان میں شمالی کوریا کے منحرف ہونے والوں کی کہانیاں ہوتیں۔اگر آپ اپنے فون سے ٹی شرٹس پر شائع کیو آر کوڈز کو سکین کرتے ہیں تو آپ ان لوگوں کی کہانی دیکھ سکتے ہیں۔ ان کے منفرد ڈیزائن کی وجہ سے انھیں دنیا بھر سے آرڈر آتے ہیں۔انھوں نے کہا: ‘میں سیاست جیسی بڑی چیز میں شامل نہیں ہونا چاہتی تھی لیکن میں نے کام کرتے ہوئے خود کو انسانی حقوق جیسے تصورات میں شامل پایا۔’،تصویر کا ذریعہKang Ji-hyun

،تصویر کا کیپشنکانگ جی-ہیون اب ایک فیشن ڈیزائنر ہیں

’میرا دل شمالی کوریا سے بیزار ہو گیا‘

جنریشن زی اور ملینیئل نسل کی فیشن ڈیزائنر کوون بوم بھی شمالی کوریا سے آئی ہیں۔ وہ اپنی منفرد شخصیت کے لیے جانی جاتی ہیں۔(جنریشن زی میں وہ نوجوان آتے ہیں جو نوّے کی دہائی کے وسط یعنی 1995 سے لے کر 2000 کی دہائی کے آخر یعنی سنہ 2010 تک پیدا ہوئے۔ جبکہ ملینیئلز سے مراد جنریشن زی سے پچھلی نسل ہے جو اسّی کی دہائی کے اوائل یعنی سنہ 1980 سے لے کر نوّے کی دہائی کے وسط یعنی سنہ 1995 تک پیدا ہوئی)۔ان کے دادا جنوبی کوریا کے جنگی قیدی تھے جس کی وجہ ان کا خاندانی نچلی سطح پر تھا۔ کوون کے والد کو شمالی کوریا میں کبھی بھی مناسب ملازمت نہیں ملی لیکن ان کی والدہ کاروبار میں اچھی تھیں اور چین میں اپنے رشتہ داروں کی بدولت وہ خاطر خواہ پیسہ کمانے میں کامیاب ہوئیں۔کوریائی ڈراموں نے کوون کو فیشن ڈیزائنر بننے کی راہ پر ڈالا اور انھیں اپنے خواب کو پورا کرنے میں مدد کی۔ شمالی کوریا میں ان کا گھر گاؤں میں واحد گھر تھا جہاں ڈی وی ڈی پلیئر تھا۔ پڑوسی چوری چھپے جنوبی کورین ڈراموں کی سی ڈیز لاتے اور چپکے سے کوون کے گھر میں جا کر دیکھتے۔نوعمر لڑکی نے کالے دبیز پردے لگا کر ‘سٹیئر وے ٹو ہیون’، ‘ونٹر سوناٹا’ اور ‘سویٹ 18’ جیسے مشہور ڈرامے دیکھے تاکہ باہر والوں کو پتا نہ چلے۔ ان ڈراموں کو دیکھتے ہوئے انھوں نے خواب بھی دیکھے۔ان کا کہنا تھا کہ ’میں یہ تصور کرتے ہوئے سوتی کہ اگر میں مرکزی کردار کی طرح اس کا ٹاپ، اس طرح کی پتلون پہنتی اور اس جیسا ہیئر سٹائل ہوتا تو میں بہت خوبصورت ہوتی۔ جنوبی کوریا آہستہ آہستہ دنیا کا معیار بنتا جا رہا تھا۔’میرا جسم شمالی کوریا میں تھا، لیکن میرا دل و دماغ شمالی کوریا سے باہر تھا۔’مز کوون ہمیشہ فیشن کے ذریعے اپنی انفرادیت کا اظہار کرنا چاہتی تھیں۔ وہ ہمیشہ یکسانیت سے متنفر رہیں اور انھیں توجہ کا مرکز بننا پسند تھا۔ جب مڈل سکول میں ملنے والی یونیفارم ان پر فٹ نہیں آئی تو انھوں نے اسے اپنے حساب سے فٹ بنا لیا۔ انھوں نے میجک ہیئر کلپر بھی خریدے اور اپنے بال لمبے رکھے۔

،تصویر کا کیپشنکوون بوم چھپ کر جنوبی کوریا کے ڈرامے دیکھتی تھیں

تین دن کی تکلیف اور 100 کلو نمک کی پیشکش کے بعد رہائی

ان سے ان کے لباس کی وجہ سے مزدوری کرائی گئی۔ ایک دن جب وہ بیل باٹم پہن کر لمبے ناخن لگا کر نکلیں تو پولیس اہلکاروں کے ایک گروپ نے کوون کو گھیر لیا اور پوچھا، ‘کامریڈ، آپ نے یہ کپڑے کیوں پہن رکھے ہیں؟’کوون کو فوری طور پر ایک ‘شاک ٹیم’ کے پاس لے جایا گیا جو ایک تعمیراتی جگہ پر کام کرتی تھی۔ انھوں نے کوون کے والدین کو بھی نہیں بتایا کہ انھیں کہاں لے جایا گيا ہے۔ ان کے خاندان والوں نے تین دن تک تکلیف برداشت کی اور بالآخر 100 کلو نمک کی پیشکش کے بعد انھیں رہا کر دیا گیا۔کوون کے اندر بغاوت کا جذبہ مضبوط ہوتا گیا۔ سکول سے فارغ التحصیل ہونے کے بعد وہ اس آزاد دنیا میں جانا چاہتی تھیں جسے انھوں نے فلموں اور ڈراموں میں دیکھا اور جن کی طرز پر اپنے کپڑے خود بنائے اور پہنے۔ انھوں نے کہا کہ ‘میں اس طرح کے امتیازی سلوک کے ساتھ نہیں رہ سکتی۔ شمالی کوریا میں میرے فیشن پر ہمیشہ تنقید کی جاتی تھی اور وہ ایک ایسی جگہ تھی جہاں میں اپنے جذبے کا اظہار نہیں کر سکتی تھی۔”میں سنہ 2011 میں دریائے تومین عبور کر کے شمالی کوریا سے فرار ہوئی۔ اس وقت میری عمر 17 سال تھی۔ ایک طویل انتظار اور مشقت کے بعد میں 2012 میں جنوب مشرقی ایشیا کے راستے جنوبی کوریا پہنچی۔کوریا پہنچتے ہی وہ اکثر سڑکوں پر سیر کے لیے نکل آتیں۔ وہ لوگوں کے کپڑوں کو دیکھنا چاہتی تھی تاہم ان کا پہلا تاثر قدرے مایوس کن تھا۔ زیادہ تر لوگوں نے ملٹری گرین (زیتون جیسے سبز) چوغے پہنے ہوئے تھے۔’میں نے سنا کہ اس وقت ملٹری گرین فیلڈ جیکٹ بہت مشہور تھی۔ یہ شمالی کوریا کے لوگوں کے لباس جیسا ہی رنگ تھا۔ یہ وہ رنگ تھا جس سے میں سب سے زیادہ نفرت کرتی تھی، لیکن یہاں ہر کوئی اسے پہنے ہوئے تھا۔ میں حیران تھی کہ کیا وہ شمالی کوریا کے رجحان کی پیروی کر رہے ہیں۔ میں نے سوچا کہ ایسے میں مجھے کیا کرنا چاہیے؟’ (وہ ہنستی ہیں)۔مز کوون فی الحال کپڑے کے ایک برانڈ کے مرکزی ڈیزائنر کے طور پر کام کرتی ہیں۔ اس کے علاوہ انھوں نے جی بی (جیوکبی ایوپ) کے نام سے اپنا ذاتی برانڈ لانچ کیا ہے جس کے تحت وہ روزمرہ کے کپڑے پیش کرتی ہیں۔،تصویر کا ذریعہKwon Bom

،تصویر کا کیپشنکوون بوم روزمرہ کے کپڑے بناتی ہیں جو ہونبوک کو جدید انداز میں پیش کرتی ہیں

شمالی کوریا میں کنٹرول کی موجودہ صورتحال کیا ہے؟

شمالی کوریا میں رنگ برنگے کپڑے پہننا بہت پریشان کن ہے

دو نوجوان ڈیزائنرز جیہیون کانگ اور بوم کوون نے شمالی کوریا سے نکل کر اپنے خوابوں کو حاصل کر لیا۔ تاہم، ان کا ماننا ہے کہ اگر وہ تھوڑی چھوٹی ہوتیں یا بعد میں منحرف ہوتیں تو یہ سب کچھ ناممکن ہوتا۔کوون نے کہا: ‘جب میری والدہ (شمال سے ) فون پر بات کرتی ہیں تو لگتا ہے کہ وہ گفتگو کرتے ہوئے محتاط رہتی ہیں۔’سنہ 2020 میں شمالی کوریا نے ‘آئیڈیالوجی اور کلچر کو مسترد کرنے کا قانون’ متعارف کرایا ہے جس کے تحت ‘کورین ویو’ سمیت غیر ملکی ثقافتی اشیا کی تقسیم کرنے والے کے لیے موت کی سزا مقرر ہے۔ اس کے بعد سے اس ملک نے اپنے شہریوں کی تقریر اور لباس پر سنہ 1990 کی دہائی سے بھی زیادہ کنٹرول کرنا شروع کر دیا ہے۔رواں سال کے شروع میں یہ اطلاع ملی تھی کہ شمالی کوریا میں جنوبی کوریا کا ڈرامہ دیکھنے والے ایک نوجوان کو 12 سال قید با مشقت کی سزا سنائی گئی تھی۔ جیسے جیسے ‘کورین ویو’ نوجوانوں میں پھیل رہی ہے بہت سے لوگ جنوبی کوریا کے مواد سے لطف اندوز ہو رہے ہیں اور اس کی ثقافت کی نقل کر رہے ہیں۔مارچ میں کورین سینٹرل ٹی وی پر نشر ہونے والے باغبانی کے بارے میں بی بی سی کے ایک پروگرام میں مہمان کی جینز کا حصہ دھندلا کیا ہوا تھا۔اس کے بارے میں کونکوک یونیورسٹی کے انسٹی ٹیوٹ فار یونیفیکیشن ہیومینٹیز کے پروفیسر جیون یونگ سیون نے وضاحت کی کہ یہ لباس اور فیشن کے ذریعے لوگوں کو کنٹرول کرنے کا ایک طریقہ ہے اور ‘جنوب اور شمال کے درمیان لباس میں سب سے بڑا فرق یہ ہے کہ جنوبی کوریا میں ایک جیسے کپڑے پہننا غیر آرام دہ ہے لیکن شمالی کوریا میں رنگ برنگے کپڑے پہننا بہت پریشان کن ہے۔’گذشتہ تین چار سالوں میں ‘ڈریس کوڈز کے حکم کی پابندی’ والے حکم کا تعلق کم جونگ ان کے ‘لیڈر کی حکمرانی’ والے خواب سے بھی ملتا ہے۔،تصویر کا ذریعہKCTV

،تصویر کا کیپشنکے سی ٹی وی پر پیش کیا جانے والا بی بی سی پروگرام جس میں پینٹ کو دھندلا کر دیا گيا ہے
انھوں نے کہا کہ ‘نئے رہنما کے لیے انقلاب کا کاروبار کامیاب ہوتا جا رہا ہے اور اگرچہ شمالی کوریا کی حکومت بیرونی طور پر خراب حالات میں ہے مگر ان کا تعلیمی کاروبار مضبوط ہو رہا ہے۔”تاہم موجودہ معاشی صورتحال کو دیکھتے ہوئے لگتا ہے کہ شمالی کوریا کی حکومت انتہائی نازک حالت میں ہے۔ لہذا میار نہیں خیال کہ اس وقت حالات بہتر ہوں گے۔’البتہ بعض لوگوں کا خیال ہے یہ پابندیاں بھی قدرتی بہاؤ کو نہیں روک سکتیں۔کانگ می جن ایک منحرف شخص ہیں اور اب وہ شمالی کوریا کے مارکیٹ پر نظر رکھتے ہیں اور این کے سرمایہ کاری اور فروغ کے سربراہ ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ ‘اندرونی ذرائع سے لی گئی تصاویر کو دیکھ کر پتا چلتا ہے کہ خواتین کے سکرٹس پہلے کے مقابلے میں چھوٹے ہو گئے ہیں اور کچھ نے انگریزی ٹی شرٹس کے ساتھ چھوٹے کپڑے پہنے ہوئے ہیں لیکن جینز پہننے کی اب بھی اجازت نہیں ہے، مگر یہ ایک ایسا فیشن ہے جس کا ماضی میں تصور بھی نہیں کیا جا سکتا تھا۔’انھوں نے مزید کہا: ‘ان دنوں معائنہ ٹیموں کے ذریعے سرکاری کریک ڈاؤن کے بجائے لیکچرز کے دوران اس کے متعلق تھوڑی دیر کے لیے احتیاط کی تلقین کی جاتی ہے۔’دریں اثنا شمالی کوریا کے باشندوں کے لیے مختص ڈریس کوڈ کے ضوابط کے برعکس کچھ رہنماؤں نے ‘غیر روایتی لباس’ میں نمودار ہو کر توجہ مبذول کرائی جو پہلے کبھی نہیں دیکھی گئی تھی۔اس کی مثالوں میں لی سیول جو کا ایک لباس شامل ہے جو ان کے جسم کو ظاہر کرتا ہے۔ اسی طرح کم جو-آئے کا لباس جسے سی تھرو بلاؤز کہا جاتا ہے۔
،تصویر کا کیپشنایک ثانوی سکول کے طلبہ کو ہتھکڑی پہنائی جا رہی ہے اور اسے 12 سال قید کی سزا سنائی گئی ہے

’میں اس دن کا خواب دیکھتی ہوں جب شمالی کوریا میں میری والدہ میرے بنائے ہوئے کپڑے پہنیں‘

دو عورتیں اپنی مرضی کے کپڑے پہننے کے لیے شمال سے فرار ہو گئیں۔ فیشن ڈیزائنر بننے کا خواب پورا کرنے کے بعد اب وہ کس قسم کے خواب دیکھتی ہیں؟کوون بوم نے کہا کہ وہ زیادہ ثقافتی قسم کی ڈیزائنر بننا چاہتی ہیں۔ ان کا مقصد کوریائی روایتوں پر مبنی ڈیزائنز بننا ہے۔اس کی ایک وجہ ان کا اپنا آبائی شہر چھوڑنا ہے جہاں ان کے والدین رہتے ہیں۔کوون نے کہا: ‘میں نے فرار کا راستہ چنا لیکن انحراف کے بعد میں نے تاریخ کے بارے میں سیکھا اور اس حقیقت سے متاثر ہوئی کہ بہت سے ممالک ہیں جنھوں نے جدوجہد کے ذریعے جمہوریت حاصل کی ہے۔”میں نے سوچا کہ ایک ملک (شمالی کوریا) جس کے شہریوں پر اتنی سخت نگرانی ہے اگر دنیا کی دلچسپی ختم ہو جائے تو سب اسے بھول جائیں گے۔۔۔ میں نے یہ بھی سوچا کہ اگر میں ایک بااثر شخص بن گئی تو کیا میری آواز سنی جائے گی؟’جیہیون کانگ گریجویٹ سکول میں انٹرپرینیورشپ کی تعلیم حاصل کر رہی ہیں اور مختلف قسم کی نمائشیں بھی منعقد کرتی ہیں۔ ان کی تعلیم کے شعبے میں دلچسپی ہے۔ انھوں نے کہا: ‘میرے کوریا آنے کی وجہ یہ ہے کہ میں نے ڈرامے اور کپڑوں کے ذریعے آزادی کو دیکھا اور میں لوگوں کو برانڈ انٹرپرینیورشپ کے بارے میں آگاہی دینے میں مدد کرنا چاہتی ہوں تاکہ وہ اس آزادی اظہار کا احساس کر سکیں۔’اگرچہ اس کا تصور کرنا بھی مشکل ہے کیونکہ ‘حقیقت میں، اتحاد مشکل لگتا ہے’ کانگ اس دن کا خواب دیکھتی ہیں کہ جب ان کی والدہ ان کے بنائے ہوئے کپڑے پہنیں گی۔’مجھے لگتا ہے کہ میری ماں میرے بنائے ہوئے کپڑوں کے بارے میں شیخی مارتے ہوئے محلے میں جائیں گی اور کہیں گی کہ انھیں اپنی بیٹی پر بہت فخر ہے۔۔ کیا وہ دن کبھی آئے گا؟’
BBCUrdu.com بشکریہ

body a {display:none;}