- مصنف, جیک ہارٹن، یی ما، ڈینیئل پلمبو
- عہدہ, بی بی سی ویری فائی
- ایک گھنٹہ قبل
شمالی کوریا اپنے پڑوسی ملک جنوبی کوریا کے ساتھ سرحد کے قریب کئی مقامات پر دیوار نما باڑ تعمیر کر رہا ہے۔ یہ معلومات سیٹلائٹ سے حاصل ہونے والی تصاویر سے عیاں ہوئی ہے۔ بی بی سی ویری فائی کو سیٹلائٹ سے حاصل کردہ تصاویر سے پتا چلا ہے کہ شہری علاقے کے اندر موجود زمین کو خالی کروا لیا گیا ہے۔اس حوالے سے ماہرین کا خیال ہے کہ یہ جنوبی کوریا کے ساتھ دیرینہ جنگ بندی معاہدے کی خلاف ورزی ہو سکتی ہے۔ شمالی کوریا اور جنوبی کوریا کے درمیان چار کلومیٹر چوڑا ایک غیر فوجی ’بفر زون‘ ہے۔یہ تکنیکی طور پر اب بھی حالت جنگ میں ہیں کیونکہ اس کے حوالے سے کبھی کوئی امن معاہدہ نہیں ہوا ہے۔
تقریبا ایک کلومیٹر میں تبدیلی
ماہرین اس حالیہ تبدیلی کو ’غیر معمولی‘ قرار دے رہے ہیں۔ یہ معلومات ایک ایسے وقت میں سامنے آ رہی ہیں جب دونوں ممالک کے درمیان کشیدگی بڑھ رہی ہے۔جنوبی کوریا کے دارالحکومت سیول میں رہنے والے این کے نیوز کے نمائندے شریاس ریڈی کا کہنا ہے کہ ’اس وقت ہم صرف یہ اندازہ لگا سکتے ہیں کہ شمالی کوریا سرحد پر اپنی فوجی موجودگی اور قلعہ بندی کو مضبوط کرنا چاہتا ہے۔‘شمالی کوریا کی جانب سے کی جانے والی تبدیلیوں کی تحقیقات کے ایک حصے کے طور پر، بی بی سی ویری فائی نے سرحد کے سات کلومیٹر کے علاقے کی ہائی ریزولوشن سیٹلائٹ تصاویر لی ہیں۔ان تصویروں کو دیکھ کر یہ واضح ہوتا ہے کہ ڈی ایم زیڈ کے قریب کم از کم تین جگہوں پر دیوار نما ڈھانچے بنائے گئے ہیں۔ یہ علاقہ سرحد کے مشرقی سرے پر ہے جو تقریباً ایک کلومیٹر پر محیط ہے۔ممکن ہے کہ اسی طرح کی تعمیر سرحد کے دوسرے حصوں پر بھی کی گئی ہو۔ اس علاقے کی پرانی ہائی ریزولیوشن تصاویر دستیاب نہیں ہیں جس کی وجہ سے یہ واضح نہیں ہے کہ شمالی کوریا نے یہ تعمیر کب شروع کی تھی۔تاہم نومبر 2023 میں لی گئی تصاویر میں یہ تعمیر نظر نہیں آ رہی تھی۔
،تصویر کا ذریعہReuters
کم جونگ ان کیا چاہتے ہیں؟
سیول میں قائم آسن انسٹی ٹیوٹ فار پالیسی سٹڈیز کے فوجی اور دفاعی ماہر ڈاکٹر یو کے یانگ نے بی بی سی کو بتایا کہ ’میرا اندازہ یہ ہے کہ یہ پہلی بار ہے کہ انھوں نے سرحد کو تقسیم کرنے کے لیے اس قسم کی رکاوٹ بنائی ہے۔‘ڈاکٹر یانگ کا کہنا ہے کہ ’1990 کی دہائی میں شمالی کوریا نے جنگ کی صورت میں ٹینکوں کی پیش قدمی کو روکنے کے لیے ٹینک شکن دیواریں تعمیر کی تھیں لیکن حال ہی میں شمالی کوریا دو سے تین میٹر اونچی دیواریں بنا رہا ہے اور نہیں لگتا کہ یہ دیواریں ٹینک روک سکتی ہیں۔‘سیٹلائٹ امیجز کا جائزہ لینے والے ڈاکٹر یانگ کہتے ہیں کہ ’دیواروں کی شکل بتاتی ہے کہ یہ رکاوٹ صرف (ٹینکوں کے لیے) نہیں ہیں بلکہ ان کا مقصد علاقے کو تقسیم کرنا ہے۔‘اس کے علاوہ شمالی کوریا کی جانب سے شہری علاقے کو خالی کرنے کے شواہد بھی ملے ہیں۔سرحد کے مشرقی سرے کی نئی سیٹلائٹ تصاویر سامنے آئی ہیں۔ ان کو دیکھنے سے پتہ چلتا ہے کہ شمالی کوریا نے حال ہی میں آمدورفت کے لیے سڑکیں بنائی ہیں۔جنوبی کوریا کے جوائنٹ چیفس آف سٹاف کے ایک افسر نے حال ہی میں ایک انٹرویو دیا۔انھوں نے کہا کہ فوج نے سٹریٹجک نقطہ نظر سے سڑکوں کو مضبوط بنانے، بارودی سرنگیں بچھانے اور بنجر زمینوں کو صاف کرنے سے متعلق جاری سرگرمیوں کی نشاندہی کی ہے۔کوریا یونیورسٹی میں بین الاقوامی سلامتی کے پروفیسر کِل جو بان کہتے ہیں کہ ’زمین کی صفائی فوجی اور غیر فوجی دونوں مقاصد کے لیے ہو سکتی ہے۔‘انھوں نے کہا کہ اس کی مدد سے شمالی کوریا کے لیے جنوبی کوریا میں فوجی سرگرمیوں پر نظر رکھنا آسان ہو جائے گا۔ اس کے علاوہ سرحد پار کر کے جنوبی کوریا میں داخل ہونے کی کوشش کرنے والے افراد کی بھی آسانی سے شناخت کی جا سکتی ہے۔سینٹر فار سٹریٹیجک اینڈ انٹرنیشنل ریلیشنز کے ایشیا اور کوریا کے سینئر نائب صدر پروفیسر وکٹر کے مطابق ’سویلین علاقے میں تعمیرات غیر معمولی ہے اور یہ جنگ بندی کی خلاف ورزی ہو سکتی ہے۔‘،تصویر کا ذریعہGetty Images
شمالی کوریا کی پالیسی میں بڑی تبدیلی
کوریائی جنگ 1953 میں ایک جنگ بندی کے معاہدے کے ساتھ ختم ہوئی جس میں دونوں فریقوں نے غیر فوجی زون میں، اس کے ذریعے یا اس کے خلاف کوئی دشمنانہ کارروائیاں نہ کرنے کا عہد کیا تھا۔ لیکن کوئی امن معاہدہ نہیں ہو سکا تھا۔گذشتہ کئی سالوں سے ایک بار پھر دونوں ممالک کا ایک ملک بننے کا امکان بہت کم دکھائی دے رہا تھا لیکن 2024 کے آغاز تک شمالی کوریا کے ہر رہنما کا یہ طے شدہ ہدف تھا لیکن اب کم جونگ ان نے اس خیال کو ترک کرنے کا اعلان کرتے ہوئے کہا ہے کہ وہ اس کا پیچھا نہیں کریں گے۔کچھ ماہرین نے کم جونگ ان کے اس اعلان کو غیر معمولی قرار دیا تھا۔ اس سال کے شروع میں کم جونگ نے جنوبی کوریا کو اپنا سب سے بڑا دشمن قرار دیا تھا۔ ماہرین نے اسے شمالی کوریا کی پالیسی میں ایک بڑی تبدیلی بھی قرار دیا تھا۔اس کے بعد شمالی کوریا نے بھی دونوں ممالک کے اتحاد کو ظاہر کرنے والی علامتوں کو ہٹانا شروع کر دیا ہے۔ اس میں یادگاروں کو مسمار کرنا اور سرکاری ویب سائٹس سے حوالہ جات کو ہٹانا شامل ہے جس میں ایک ملک کے قیام کی بات کی گئی تھی۔کنگز کالج لندن میں یورپی اور بین الاقوامی مطالعات کے سربراہ ڈاکٹر رامون پچیکو پارڈو کہتے ہیں کہ ’شمالی کوریا کو درحقیقت جنوبی کوریا کے حملے کو روکنے کے لیے زیادہ رکاوٹوں کی ضرورت نہیں ہے، لیکن سرحد کے ساتھ اس قسم کے ڈھانچے بنا کر یہ اشارہ دے رہا ہے کہ اب وہ انضمام پر یقین نہیں رکھتا۔‘کچھ ماہرین کا یہ بھی کہنا ہے کہ سرحد پر نظر آنے والی حالیہ تبدیلیاں کم جونگ کے وسیع تر اقدامات سے ملتی ہیں۔آکسفورڈ یونیورسٹی میں جزیرہ نما کوریا پر تحقیق کرنے والے ڈاکٹر ایڈورڈ ہاویل کا کہنا ہے کہ ’شمالی کوریا امریکہ یا جنوبی کوریا کے ساتھ بات چیت کا ڈرامہ بھی نہیں کر رہا ہے۔ اس نے حال ہی میں مذاکرات کے لیے جاپان کی کوششوں کو بھی مسترد کر دیا ہے۔‘ان کا کہنا ہے کہ ’شمالی کوریا کے روس کے ساتھ مضبوط ہوتے ہوئے تعلقات کے باعث ہمیں اس بات پر حیران نہیں ہونا چاہیے کہ اس سال کے آخر تک شمالی اور جنوبی کوریا کے درمیان اشتعال انگیزی بڑھ جائے گی۔‘
BBCUrdu.com بشکریہ
body a {display:none;}
Comments are closed.