شمالی افریقہ سے لیمپیڈوسا تک: گمشدہ بٹوے کے مالک کی تلاش

بی بی سی

اطالوی جزیرے لیمپوڈوسا پر ملنے والے سیاہ رنگ کے بوسیدہ بٹوے کو گھانا سے 3500 کلومیٹر (2200 میل) دور لے جا کر بظاہر ضائع کر دیا گیا تھا۔

اسے کھولا تو ایسے لگا رچرڈ اوپوکو اپنے ڈرائیور لائسنس والی تصویر سے میری طرف دیکھنے لگے ہیں۔

یہ مختلف لوگوں کی ذاتی دستاویزات کے ذخیرے میں سے ایک تھا، جو وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ ایک ایسی جگہ سے ملی تھیں جہاں تارکین وطن کی جانب سے بحیرہ روم کو عبور کرنے کے لیے استعمال ہونے والی چھوٹی کشتیوں کو پھینکا گیا تھا۔

یہ کئی سال پہلے ملا تھا اور اس بارے میں میرا تجسس بڑھ گیا تھا۔۔۔ میں لائسنس کے پیچھے کی کہانی جاننا چاہتا تھا۔

رچرڈ اوپوکو کو کیا ہوا تھا؟

بی بی سی

یہ بٹوہ گمشدہ سامان کے ایک اداس مجموعے کا حصہ تھا جو ان دسیوں ہزاروں افراد کی یاد میں ایک میوزیم کے طور پر کام کر رہا ہے جنھوں نے شمالی افریقہ سے لیمپیڈوسا تک بحیرہ روم کو عبور کرتے ہوئے اپنی جانیں خطرے میں ڈالی ہیں۔

لائف جیکٹس، کھانا پکانے کے برتن، پانی کی بوتلیں، ہیڈ لیمپس اور کیسٹ ٹیپس کو شیلف پر اور اس کمرے کی دیواروں کے ساتھ جزیرے کی بندرگاہ کے بالکل ساتھ ترتیب دیا گیا ہے۔

یہ روزمرہ استعمال کی چیزیں رضاکاروں کے ایک گروپ نے 2009 سے جمع کرنا شروع کی ہیں۔

جمع کرنے والوں میں سے ایک، جیاکومو سفیرلازو کہتے ہیں کہ ’کچھ اپنے ساتھ اپنے ملک کی مٹی لاتے ہیں‘۔۔۔

وہ سفید پولی تھین کا ایک چھوٹا پیکٹ اٹھائے ہوئے ہیں۔

’ہمیں ایسے بہت سے چھوٹے پارسل ملے ہیں جو اسی شخص کے افریقہ کے ساتھ تعلقات کو ظاہر کرتے ہیں۔‘

اس کے بعد وہ تصاویر، پاسپورٹ، ڈرائیور لائسنس اور خطوط سے بھرا ایک بڑا فولڈر نکالتے ہیں، جس میں اوپوکو کا لائسنس بھی شامل ہے۔

بی بی سی

لیمپوڈوسا، یورپ کے مقابلے میں افریقہ سے قریب چھوٹا سی ماہی گیروں کا ایک جزیرہ ہے جہاں تقریباً چھ ہزار افراد رہتے ہیں۔

یہ طویل عرصے سے تارکین وطن اور پناہ گزینوں کے لیے ایک نئی زندگی کی تلاش کا مرکز رہا ہے۔

ہر سال ہزاروں لوگ اپنی جان کو خطرے میں ڈال کر یورپ جانے کی کوشش کرتے ہیں۔

صرف مارچ میں 3,000 سے زیادہ لوگ لیمپوڈوسا پہنچے جو پچھلے سال کے اسی مہینے میں آنے والوں کی تعداد سے دگنا ہے۔

سنہ 2014 سے اب تک 20000 سے زیادہ اموات اور انگنت لاپتہ افراد کے ساتھ، بحیرہ روم کا یہ حصہ نقل مکانی کے لیے دنیا کا سب سے خطرناک راستہ بن چکا ہے۔

لیکن اوپوکو ان لوگوں میں شامل ہو سکتے ہیں جو بچ گئے ہوں اور یہی پتا لگانے کی کوشش میں، میں گھانا واپس آ گیا۔

میں برونگ احفو کے مرکزی علاقے کا سفر کر رہا ہوں، جہاں سے لوگوں کی ایک بڑی تعداد ہجرت کرتی ہے۔

شاید یہاں کسی نے اوپوکو کے ساتھ شمال کی طرف اپنا سفر کیا تھا۔

کچھ خاندان اب بھی کئی سال پہلے جانے والے اپنے رشتہ داروں کی خبر کے منتظر ہیں۔

ریٹا اوہینیوا اپنے شوہر کی خبر کی امید پر جی رہی ہیں جس نے 2016 میں لیبیا سے لیمپیڈوسا تک بحیرہ روم کو عبور کرنے کی کوشش کی تھی۔

انھوں نے آخری بار ان سے اسی سال دسمبر میں رابطہ کیا تھا۔

انھوں نے مجھے بتایا کہ ’وہ گھانا آنے والے کسی شخص کے ذریعے کچھ رقم بھیجیں گے۔ انھوں نے بچوں کے لیے ایک موبائل فون اور کرسمس کے کپڑے بھیجنے کا وعدہ بھی کیا تھا۔ انھوں نے اس دن صبح و شام فون کیا۔ مگر اس کے بعد پھر ان سے کوئی رابطہ نہیں ہو سکا ہے۔‘

ممکن ہے کہ کوئی بیوی یا رشتہ دار اوپوکو کی خبر کا انتظار کر رہا ہو۔

بی بی سی

واپس گھانا کے دارالحکومت اکرا میں، مایوسیوں کا ایک ناختم ہونے والا سلسلہ ہے کیونکہ ڈیٹا کے تحفظ کے قوانین اور افسر شاہی کی رکاوٹیں مجھے اس شخص کے بارے میں مزید معلومات حاصل کرنے سے روکے ہوئے ہیں۔

لیکن آخرکار مہینوں کی تلاش کے بعد ایک پیش رفت ہوئی۔

گھانا امیگریشن سروس کے ڈاکومنٹ فراڈ ایکسپرٹائز سینٹر کے فرینک اپرونٹی اس ڈرائیونگ لائسنس کے مالک کے رشتہ دار کا فون نمبر تلاش کرنے میں کامیاب ہوتے ہیں۔

یہ ان کی بہن ہے جو میرا رابطہ اپنے بھائی سے کرواتی ہے۔ وہ مجھے بتاتی ہے کہ وہ ابھی تک زندہ ہیں اور جرمنی میں رہ رہے ہیں۔

جب میں نے اوپوکو کو فون کیا تو وہ یہ جان کر رحیران رہ گئے کہ مجھے ان کا ڈرائیونگ لائسنس لیمپوڈوسا میں ملا ہے۔

وہ بتاتے ہیں کہ ان سے لائسنس 2011 میں کھو گیا تھا اور اسے دوبارہ ملنے کی کبھی امید نہیں تھی۔ درحقیقت وہ یقین نہیں کر پاتے کہ یہ میرے پاس ہے جب تک میں نے انھیں تصویر شیئر نہ کر دی۔

میں آخر کار ان سے ملنے جرمنی کا سفر کرتا ہوں۔

یہ بھی پڑھیے

بی بی سی

سردیوں کی ایک شدید سرد صبح انھوں نے شمالی جرمن شہر بریمن کے مضافات میں اپنے ایک بیڈروم کے چھوٹے سے اپارٹمنٹ میں میرا استقبال کیا۔ چالیس سالہ اوپوکو اب وہاں فورک لفٹ ٹرک ڈرائیور کے طور پر کام کرتے ہیں۔

جب وہ گھانا میں تھے تو انھوں نے اپنے سفر کے لیے رقم اکٹھا کرنے کے لیے سونے کی غیر قانونی کان کنی، یا گالمسی کے طور پر کام کیا۔ ہر روز یہ لوگ غیر محفوظ سرنگوں میں اپنی جانوں کو خطرے میں ڈالتے ہیں۔

2009 میں، جب انھوں نے یورپ کے لیے روانہ ہونے کا فیصلہ کیا، تو بقول ان کے وہ جانتے تھے کہ اس سفر میں خطرات لاحق ہوں گے، لیکن انھیں لگا کہ یہ گھانا میں کیے جانے والے کام سے زیادہ خطرناک نہیں تھا۔

وہ سب سے پہلے قریبی بینن میں کوٹونو گئے، اور پھر پڑوسی ملک نائیجیریا میں لاگوس، جہاں انھوں نے ایک موٹر سکوٹر چلا کر پیسے کمانے کی کوشش کی۔

وہاں سے وہ کوٹونو واپس آئے اور شمال کی طرف ہمسایہ ملک نائجر چلے گئے اور مزید دو ماہ تک ایک مقامی ریستوران میں کام کیا۔

لیکن نائیجر سے لیبیا تک صحرا کے پار گاڑی میں سفر اب تک کا سب سے بڑا امتحان تھا۔ انھوں نے نائیجیریا اور نائجر میں کام کرنے سے حاصل ہونے والی رقم سے کرایہ ادا کیا۔

وہ حیران تھے کہ ڈرائیور کو کیسے پتہ چلا کہ ایسی جگہ کہاں جانا ہے جہاں سڑکیں نہیں ہیں۔

’کبھی کبھی آپ کو ایک گروپ ملے گا جہاں ڈرائیور کے ساتھ پورے 35 افراد مر چکے ہوں گے۔‘

انھیں یقین نہیں ہے کہ وہ کیسے مرے۔۔۔ شاید وہ پیاس سے مر گئے۔

’پانی سفر میں سونے یا ہیروں کی طرح قیمتی ہوتا ہے۔ شاید پورے دن میں آپ صرف ایک یا دو بار پانی پیتے ہیں۔ وہ بھی ایک چھوٹا سا گھونٹ۔‘

چاڈیاں بارڈر پر گاڑی کو جرائم پیشہ افراد نے روکا اور مسافروں کے کپڑے اور پیسے چھین لیے۔

اوپوکو اپنی نقد رقم بچانے میں کامیاب رہے۔

لیکن لیبیا پہنچنے کے بعد ان کی مشکلات ختم نہیں ہوئیں۔ انھیں تاوان کے لیے اغوا کیا گیا اور مارا پیٹا گیا کیونکہ وہ ادائیگی کے لیے کسی رشتہ دار سے رابطہ نہیں کر پا رہے تھے۔ آخر کار ایک خاتون جو گھریلو ملازم کی تلاش میں تھی، ان کی رہائی کے لیے رقم ادا کی۔

بی بی سی

پھر 2011 میں گھانا چھوڑنے کے دو سال بعد اور لیبیا کے رہنما معمر قذافی کے خلاف بغاوت کے دوران اوپوکو طرابلس میں ایک کشتی پر سوار ہوئے تاکہ لیمپیڈوسا کراس کر سکیں۔

لیکن بحیرہ روم کے وسط میں کشتی کا انجن کٹ گیا۔ اوپوکو اور ان کے ساتھی مسافروں کو اس وقت تک یخ بستہ ہواؤں کے رحم و کرم پر انحصار کرنا پڑا جب تک کہ انھیں اطالوی کوسٹ گارڈ نے بچا نہیں لیا۔

اس دوران انھوں نے اپنا لائسنس کھو دیا۔

انھیں ابتدائی طور پر انھیں ایک کیمپ میں رکھا گیا اور پھر سسلی کے ایک مہاجر مرکز میں منتقل کر دیا گیا۔ ام کا پلان جرمنی جانے کا تھا، اور انھوں نے گھانا میں لوگوں سے سن رکھا تھا کہ یہ ایک اچھی جگہ ہے۔

اٹلی میں رہتے ہوئے انھوں نے سیاسی پناہ کی درخواست دی۔

ابتدائی طور پر ان کی درخواست مسترد کر دی گئی تھی لیکن ان کا کہنا ہے کہ وہ یورپ میں رہنے کی اجازت حاصل کرنے میں کامیاب ہو گئے کیونکہ اقوام متحدہ نے اٹلی سے سفارش کی تھی کہ جو بھی 2011 کے بحران کے دوران لیبیا سے فرار ہوا ہے اسے ایک سال تک رہنے کی اجازت ملنی چاہیے۔ میں اس دعوے کی تصدیق کرنے سے قاصر رہا ہوں۔

وہ بتاتے ہیں کہ ’سفر بہت مشکل تھا۔ یہ جہنم تھا۔‘

’لیکن اپنے ملک میں کوئی امید نہیں ہے لہذا آپ تکلیف برداشت کریں گے اور سفر جاری رکھیں گے۔‘

اوپوکو نے یورپ میں ایک آسان زندگی کا تصور کیا تھا، لیکن ان کا کہنا ہے کہ یہاں حالات مختلف تھے۔

’جب میں افریقہ میں تھا تو میں نے سوچا کہ یورپ میں آپ کو آسانی سے پیسے کمانے کا موقع مل جائے گا لیکن ایسا نہیں ہے، آپ کو سخت محنت کرنا ہوگی۔‘

’لیکن اپنے ملک میں میرے زندہ بچنے کا کوئی چانس نہیں تھا، اس لیے میں کہوں گا کہ میں یہاں آکر شکر گزار ہوں۔‘

BBCUrdu.com بشکریہ