شاہراہ ریشم پر قدیم سمرقند کی طرز پر بسایا گیا نیا ’ابدی شہر‘ جس نے ملازمتوں کے سینکڑوں مواقع پیدا کیے
- مصنف, ہیدی فلر لو
- عہدہ, بی بی سی ٹریول
- ایک گھنٹہ قبل
تیز ہوائیں چلیں اور اس کے ساتھ شدید بارش کا آغاز ہوا جس کی وجہ سے گلیوں میں لگے پتھر جگمگانا شروع ہو گئے۔پیغمبر اسلام کے کزن قاسم ابن عباس کے دیوہیکل روضے کی اونچی دیواروں سے ملحق گلیوں میں گھومتے ہوئے میری گائیڈ کاٹیا نے سرگوشی کے انداز میں کہا ’شاہ زندہ سمرقند کا سب سے مقدس مقام ہے۔‘ شاہراہِ ریشم کا زیور اور ثقافتوں اور مذاہب کا گہوارہ کہلوائے جانے والے سمرقند کے ہلچل سے بھرے بازاروں اور زبردست یادگاروں نے لاتعداد شاعروں کو متاثر کیا۔ ان شاعروں میں جیمز ایلروئے فلیکر بھی شامل ہیں، جنھوں نے اپنی نظم ’گولڈن روڈ ٹو سمرقند‘ میں تیل اور مسالوں کے بارے میں لکھا ہے۔سمرقند کے نئے ایئرپورٹ سے 20 منٹ دور نیا ’سلک روڈ سمرقند ریزورٹ‘ موجود ہے جو امیر تیمور کے خوابوں کی طرح شاندار ہے۔ امیر تیمور نے وسطیٰ ایشیا میں تیموری سلطنت کی بنیاد رکھی تھی۔
سویت یونین کے دور میں یہاں تعمیر کی گئی ایک چوڑی کے گرد آٹھ بڑے لگژری ہوٹل اور صحت کے مراکز ہیں۔یہاں سائیکل سواروں کے لیے بنائے گئے راستے ہیں جبکہ ہزاروں کی تعداد میں پودے لگائے گئے ہیں جس کی وجہ سے یہ جگہ نئی اور دلکش لگتی ہے۔ درختوں کے درمیان سے ان چھوٹے کمروں کو دیکھا جا سکتا ہے جن میں وہ 15 ہزار مزدور عارضی طور پر رہتے تھے جنھوں نے ڈھائی سال کے عرصے میں اس جگہ کو یہ نئی پہچان دی۔اس جگہ کو تعمیر کرنے میں 580 ملین ڈالر لگے ہیں اور اس کے لیے سرمایہ تیل اور پراپرٹی کے شعبے سے وابستہ کاروباری شخصیت بختیار فضلوف اور چین کے ایک ہوٹل گروپ نے لگایا ہے۔،تصویر کا ذریعہSilk Road Samarkand
چھٹی نسل کے سیرامکس ماسٹر عبداللہ نرزولایف کہتے ہیں کہ ’جیسے امیر تیمور نے سمرقند کو ثقافت کا مرکز بنایا، ایٹرنل سٹی کا مقصد ازبکستان کے فنون اور قدیم روایات کی حفاظت کرنا ہے۔‘جب 2021 میں موجودہ صدر شوکت مرزیوئیف دوبارہ منتخب ہوئے تو انھوں نے عدلیہ میں اصلاحات، معیشت کو بہتر اور آزاد کرنے اور شفافیت اور رواداری کی نئی پالیسی کے ساتھ ایک نیا ازبکستان بنانے کی بات کی۔کچھ مسائل پر تو توجہ دی گئی ہے۔ غلاموں کی مزدوری، جس نے کبھی لاکھوں ازبکوں (بشمول بچوں) کو کھیتوں میں کپاس چننے پر مجبور کیا تھا، پر مارچ 2022 میں پابندی لگا دی گئی۔ لیکن دیگر معاملات بشمول انسانی حقوق کے بارے میں اب بھی خدشات موجود ہیں، اور مقامی دکانوں کے مالکان کو خدشہ ہے کہ انسانی حقوق کی صورتحال کے پیش نظر سیاح ممکنہ طور پر یہاں آنے سے رُک سکتے ہیں۔،تصویر کا ذریعہRobert Preston Photography/Alamy
BBCUrdu.com بشکریہ
body a {display:none;}
Comments are closed.