- مصنف, بی بی سی عربی
- عہدہ, بی بی سی ورلڈ سروس
- ایک گھنٹہ قبل
شام میں جاری خانہ جنگی سے بے گھر ہونے والے ابو محمد دس سال سے زیادہ عرصے سے شمالی شام میں اپنے خاندان کے ساتھ ایک خیمے میں رہ رہے ہیں۔اپنے اہل خانہ کی کفالت کے لیے وہ کوئی آمدن نہیں کما پاتے، اس لیے اب انھوں نے بھی سینکڑوں دوسرے لوگوں کی طرح کرائے کے جنگجو کے طور پر کام کرنے کے لیے ترکی کے راستے نائجر جانے کا فیصلہ کیا ہے۔33 سالہ ابو محمد (اصل نام نہیں) اور ان کی بیوی کے چار چھوٹے چھوٹے بچے ہیں۔ ان کے پاس نہ تو صاف پانی دستیاب ہے اور نہ ہی بیت الخلا کا انتظام۔ یہاں تک کہ انھیں اپنے فون کو چارج کرنے کے لیے ایک چھوٹے سے سولر پینل پر انحصار کرنا پڑتا ہے۔ ان کا خیمہ گرمیوں میں تپنے لگتا ہے جبکہ سردیوں میں یخ بستہ ہوتا ہے، اور بارش ہونے پر وہ ٹپکتا بھی ہے۔
وہ بتاتے ہیں کہ ’کام تلاش کرنا انتہائی مشکل ہو گیا ہے۔‘ وہ ترکی کی حمایت یافتہ اپوزیشن فورسز کے رکن ہیں جو ایک دہائی سے زیادہ عرصے سے صدر بشار الاسد کے خلاف برسرپیکار ہے۔وہ جس دھڑے کے لیے وہ کام کرتے ہیں وہ انھیں ماہانہ 50 ڈالر سے کم تنخواہ دیتا ہے۔ اس لیے جب انھوں نے دیکھا کہ نائجر میں کام کرنے کے لیے 1,500 امریکی ڈالر ماہانہ کی پیشکش کی جا رہی ہے تو انھوں نے فیصلہ کیا کہ یہ زیادہ پیسہ کمانے کا بہترین موقع ہے۔ان کا کہنا ہے کہ شامی دھڑے کے رہنما اس عمل کو آسان بنانے میں مدد کرتے ہیں اور ‘دھڑے کے ٹیکس اور ایجنٹوں’ کو ان کی رقم دینے کے بعد بھی ان کے پاس کم از کم دو تہائی رقم باقی رہ جائے گی۔انھوں نے مزید کہا ‘اور اگر میں (نائجر میں جاری) جنگ میں مر جاتا ہوں تو میرے خاندان کو 50,000 امریکی ڈالر کا معاوضہ ملے گا۔’مغربی افریقہ کے ساحلی علاقوں میں حالیہ برسوں میں جہادی گروپوں کے ساتھ تنازعات کے نتیجے میں تشدد میں اضافہ ہوا ہے۔ نائجر اور اس کے پڑوسی ممالک مالی اور برکینا فاسو بھی اس سے متاثر ہیں۔ اور ان تینوں ممالک نے پچھلے کچھ سالوں میں فوجی بغاوتیں دیکھی ہیں جو کہ جزوی طور پر عدم استحکام کا نتیجہ ہیں۔ابو محمد اکیلے نہیں ہیں جو نائجر جانا چاہتے ہیں۔،تصویر کا ذریعہGetty Images
اس میں ترکی کا تعلق کیا ہے؟
ان کے جانے سے پہلے سرکاری طور پر یہ کہا جاتا ہے کہ یہ لوگ نائجر میں ترکی کے منصوبوں اور تجارتی مفادات کی حفاظت کریں گے۔ترکی نے خطے میں اپنے سیاسی اثر و رسوخ اور کاروبار دونوں کو بڑھایا ہے اور نائجر جیسے ممالک کو جنگجو جہادی گروپوں سے نمٹنے میں مدد کے لیے ڈرون جیسے آلات فروخت کیے ہیں۔ ترکی اس ملک کے قدرتی وسائل کی کان کنی میں بھی شامل ہے۔ ان وسائل میں سونا، یورینیم اور لوہا وغیرہ شامل ہیں۔لیکن بھرتی ہونے والے جانتے ہیں ان سے جو کچھ کہا گیا ہے وہاں پہنچنے پر حقیقت اس سے کہیں مختلف ہو سکتی ہے۔ایس او ایچ آر اور کرائے کے فوجیوں کے دوستوں نے جو پہلے نائجر میں کام کر چکے ہیں انھوں نے بی بی سی کو بتایا کہ شامی باشندے روسی کمانڈ کے تحت نائجر، مالی اور برکینا فاسو کے درمیان سرحدی مثلث میں عسکریت پسند جہادی گروپوں سے لڑ رہے ہیں۔نائجر کے جمہوری طور پر منتخب صدر محمد بازوم کو ایک سال قبل معزول کر دیا گیا تھا اور اس کے بعد سے جنٹا نے مغربی ممالک سے تعلقات منقطع کر لیے ہیں۔
- ’شام میں امریکی افواج کی موجودگی جارحیت ہے‘18 جنوری 2018
- کردوں کا ترکی سے نمٹنے کے لیے شامی فوج سے معاہدہ14 اکتوبر 2019
- ترک آپریشن: کیا دولتِ اسلامیہ پھر سر اٹھا سکتی ہے؟10 اکتوبر 2019
،تصویر کا ذریعہAFP
نائجر میں زندگی
نائجر کے حالات میں رہنے کا مطلب ہے کہ شام میں خاندانوں کے ساتھ رابطے میں رہنا بہت مشکل ہو سکتا ہے۔ ایس او ایچ آر کے عبدالرحمان کا کہنا ہے کہ جب بھرتی کرنے والے آتے ہیں تو ان بھرتی ہونے والوں کے فون ضبط کر لیے جاتے ہیں۔ جبکہ ابو محمد کا کہنا ہے کہ افریقہ میں ان کے دوست ‘ہر دو ہفتے میں ایک بار اپنے اہل خانہ سے رابطہ کر سکتے ہیں، کبھی کبھی اس سے بھی کم۔’انھوں نے مزید کہا کہ وہ خود اپنی بیویوں یا والدین سے براہ راست بات نہیں کر سکتے اور انھیں اپنی بات چیت نائجر میں اپنے اعلیٰ افسران کے سامنے کرنی پڑتی ہے جو ان جنگجوؤں کے خاندانوں کو یقین دلاتے ہیں کہ وہ ٹھیک ہیں۔’مسٹر علی نے مزید کہا کہ ان کے کچھ دوست جنھوں نے نائجر کا سفر کیا تھا انھیں بتایا کہ وہ اپنا زیادہ تر وقت ‘فوجی اڈوں کے اندر، لڑائی کے احکامات کے انتظار میں گزارتے ہیں۔’اور وہ یہ سب اپنے گھر والوں کو نہیں بناتے ہیں۔ ایس او ایچ آر کے مطابق دسمبر 2023 سے نائجر میں نو ایسے فوجی ہلاک ہو چکے ہیں۔ ان میں سے چار کی لاشیں ادلب واپس آ گئی ہیں لیکن ابھی تک ان کی شناخت نہیں ہو سکی ہے۔رائد اور علی کا کہنا ہے کہ ان کے گھر والے نہیں چاہتے کہ وہ نائجر جائیں۔ اس لیے وہ ان سے جھوٹ بولتے ہیں اور یہ بہانہ کرتے ہیں کہ وہ کچھ مہینوں کی تربیت کے لیے ترکی جا رہے ہیں۔ابو محمد کے خاندان والے بھی ان کے اس خیال کے حامی نہیں ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ ‘اگر میرے پاس ایک باوقار زندگی گزارنے کا ذریعہ ہوتا اور پھر آپ مجھے اگر ایک ملین ڈالر کی بھی پیشکش کرتے تو میں اس قسم کی نوکری نہیں کرتا۔’وہ مزید کہتے ہیں کہ ‘اگر میرے بیٹا مجھ سے موٹر سائیکل مانگتا ہے تو میں کبھی بھی اسے نہیں دلا سکوں گا۔ اور یہی وہ چیزیں ہیں جو مجھے (نائجر) جانے پر مجبور کر رہی ہیں۔’سکیورٹی وجوہات کی بنا پر ابو محمد، علی اور رائد کے نام تبدیل کیے گئے ہیں۔
BBCUrdu.com بشکریہ
body a {display:none;}
Comments are closed.