شام پر حملے میں پاسداران انقلاب کے چار سینیئر اہلکاروں کی ہلاکت، ایران نے ذمہ داری اسرائیل پر عائد کر دی
- مصنف, اولیور سلو
- عہدہ, بی بی سی نیوز
- 2 گھنٹے قبل
شام کے دارالحکومت دمشق پر ایک مشتبہ فضائی حملے میں ایرانی فورس پاسداران انقلاب کے چار سینئر اہلکار ہلاک ہو گئے ہیں۔ایران کے پاسداران انقلاب نے اس حملے کا الزام اسرائیل پرعائد کرتے ہوئے کہا ہے کہ اس حملے میں ایران کے چار فوجی مشیروں کے علاوہ متعدد شامی فوجی ہلاک ہوئے ہیں۔اسرائیل کی جانب سے اب تک اس پر کوئی تبصرہ یا بیان سامنے نہیں آیا ہے۔ تاہم اس بارے میں متعدد شواہد موجود ہیں کہ کئی برسوں سے اسرائیل نے شام میں ایرانی اہم اہداف کو نشانہ بنایا اور اُن پر حملے کیے ہیں۔حماس کی جانب سے سات اکتوبر کو اسرائیل پر حملوں کے بعد سے شروع ہونے والی جنگ کے بعد اس طرح کے حملوں میں تیزی آئی ہے۔
ایران کی ایک بڑی فوجی، سیاسی اور اقتصادی قوت پاسداران انقلاب کی اعلیٰ شخصیات 2011 میں شام میں خانہ جنگی شروع ہونے کے بعد سے وہاں موجود ہیں، جو صدر بشار الاسد کی حکومت کے خلاف وسیع پیمانے پر بغاوت کے خلاف ان کی حمایت میں مدد کر رہے ہیں۔یہ خیال ظاہر کیا جاتا ہے کہ سنیچر کو ہونے والا یہ حملہ دمشق کے جنوب مغربی علاقے مزہ میں کیا گیا، جہاں ایک فوجی ہوائی اڈہ واقع ہے، اس کے علاوہ دمشق میں اقوام متحدہ کے ہیڈکوارٹرز، سفارت خانوں اور ریستورانوں میں بھی حملہ کیا گیا۔ایک رہائشی نے خبر رساں ادارے اے ایف پی کو بتایا کہ انھوں نے مغربی مزہ کے علاقے میں ’دھماکے‘ اور ’دھوئیں کے بادل‘ دیکھے۔ان کا مزید کہنا تھا کہ ’یہ آواز میزائل دھماکے جیسی تھی اور چند منٹ بعد مجھے ایمبولینس کی آواز بھی سُنائی دی۔‘ایران کی نیم سرکاری خبر رساں ایجنسی مہرنیوز نے دعویٰ کیا ہے کہ ان حملوں میں پاسداران انقلاب کے شام میں انٹیلی جنس چیف، ان کے نائب اور پاسداران انقلاب کے دو دیگر ارکان ہلاک ہوئے ہیں۔مبینہ طور پر حملے کے بعد سامنے والے والی ویڈیوز میں دھوئیں کے بادل اور تباہ شدہ عمارتوں کو دکھایا گیا ہے تاہم بی بی سی آزاد ذرائع سے ان کی تصدیق نہیں کر سکا۔گذشتہ ماہ بھی اسی طرح کا ایک واقعہ پیش آیا تھا کہ جس میں دمشق کے قریب کے ایک علاقے میں مشتبہ اسرائیلی فضائی حملے میں پاسداران انقلاب کے ایک سینئر کمانڈر ہلاک ہوئے تھے۔خیال رہے کہ سات اکتوبر کو حماس کی جانب سے جنوبی اسرائیل پر حملے کے بعد سے مشرق وسطیٰ میں ہائی الرٹ جاری ہے۔ اسرائیل پر حماس کے اس حملے میں 1300 افراد ہلاک ہوئے تھے جن میں زیادہ تر عام شہری تھے اور 240 یرغمالیوں کو غزہ لے جایا گیا تھا۔خیال کیا جاتا ہے کہ 132 سے زائد یرغمالی اب بھی اس علاقے میں حماس کی قید میں ہیں۔حماس کی وزارت صحت کے مطابق اسرائیل کی جانب اس حملے کے بعد سے شروع ہونے والی جنگ کی وجہ سے غزہ میں 24 ہزار 900 سے زائد افراد ہلاک ہو چکے ہیں۔ اسرائیل کا کہنا ہے کہ غزہ میں اس کی زمینی اور فضائی کارروائی کا مقصد حماس کو تباہ اور انھیں علاقے سے ہمیشہ کے لیے ختم کرنا ہے۔،تصویر کا ذریعہGETTY IMAGESاس تنازعے نے خطے میں وسیع پیمانے پر جنگ کے پھیلنے کے بارے میں خدشات کو جنم دیا ہے، خاص طور پر پُرانے حریفوں اسرائیل اور ایران کے مابین۔اسرائیل فلسطینی گروپ حماس کو نشانہ بنا رہا ہے جسے تہران کی حمایت حاصل ہے۔ اسرائیل لبنان میں ایران کی حمایت یافتہ حزب اللہ کے ساتھ بھی فائرنگ کا تبادلہ کر رہا ہے۔عراق اور شام میں ایران کے حمایت یافتہ گروہ خطے میں امریکی افواج کو بھی نشانہ بنا رہے ہیں اور امریکہ اور برطانیہ نے یمن میں ایران کے حمایت یافتہ ایک اور گروہ حوثیوں کو بھی نشانہ بنایا ہے جو بحیرۂ احمر میں مال بردار بحری جہازوں پر حملے کر رہے ہیں۔اس ہفتے اس سے بھی بڑے تنازعے کے خدشات اس وقت بڑھ گئے جب ایران نے اپنے ہمسایہ ملک پاکستان پر حملہ کیا اور اس کے جواب میں اگلے ہی دن پاکستان نے بھی ایران میں دہشت گردوں کے ٹھکانوں کو نشانہ بنایا۔منگل کے روز ایران نے پاکستان کے جنوب مغربی صوبے بلوچستان میں میزائل اور ڈرون حملے میں دو بچوں کی ہلاکت کا اعتراف کرتے ہوئے کہا تھا کہ وہ پاکستان میں ایک ’ایرانی دہشت گرد گروہ‘ کو نشانہ بنا رہا تھا۔اس کے اگلے روز اسلام آباد نے جوابی کارروائی کرتے ہوئے کہا کہ وہ جنوب مشرقی ایران میں ’دہشت گردوں کے ٹھکانوں‘ کو نشانہ بنا رہے ہیں جس میں نو افراد ہلاک ہوئے۔اگرچہ دونوں فریقوں نے اس بات پر اصرار کیا کہ وہ ایک دوسرے کے ممالک میں عسکریت پسندوں کے ٹھکانوں کو نشانہ بنا رہے ہیں، ایران اور پاکستان نے اپنے اپنے دارالحکومتوں سے اپنے سفیروں کو واپس بلا لیا ہے۔لیکن اس مختصر دورانیے کی شورش کے بعد مذاکرات کا ایک کامیاب دور ہوا جس میں سفارتی تعلقات بحال ہو گئے۔
BBCUrdu.com بشکریہ
body a {display:none;}
Comments are closed.