امریکی فوجی تحقیقات: آئی ایس پر فضائی حملے میں کسی قانون کی خلاف ورزی نہیں ہوئی
- ڈیوڈ گرٹن
- بی بی سی نیوز
یہ فضائی حملہ شام کے قصبے باغوز میں ہوا، جو اس وقت نام نہاد دولت اسلامیہ کا آخری گڑھ تھا
امریکی فوج کی جانب سے کی گئی تحقیقات میں سامنے آیا ہے کہ 2019 میں شام میں نام نہاد دولت اسلامیہ پر حملے میں کسی جنگی قوانین کی خلاف ورزی نہیں کی گئی۔ باغوز میں دولت اسلامیہ کے گڑھ پر امریکی فوج کے حملے میں درجنوں افراد ہلاک ہو گئے تھے۔
یہ تحقیق نیویارک ٹائمز میں چھپنے والی ایک رپورٹ کے بعد شروع کی گئی تھی جس میں دعویٰ کیا گیا تھا کہ دولت اسلامیہ پر حملے کے حوالے فوج نے چیزوں کو چھپانے کی کوشش کی تھی۔
تحقیق میں فوج کی جانب سے واقعات پر پردہ داری کے دعوے کو رد کیا گیا ہے۔
البتہ اس تحقیق میں کہا گیا ہے کہ مختلف مراحل پر بعض پالیسوں میں خامیوں کی وجہ سے واقعے کی رپورٹنگ میں تاخیر ہوئی تھی۔
امریکہ سربراہی میں بین الاقوامی اتحاد تسلیم کرتا ہے کہ 2014 سے شام اور عراق میں نام نہاد دولت اسلامیہ کے آپریشنز میں 1,417 عام شہریوں کی ہلاکتیں ہوئیں۔
لیکن مانیٹرنگ گروپ ایئر وارز کا خیال ہے کہ عام شہریوں کی ہلاکتوں کی اصل تعداد 8,192 اور 13,244 کے درمیان ہے۔
مشرقی شام کے قصبے باغوز میں فضائی حملہ 18 مارچ 2019 کو ہوا، جب امریکی حمایت یافتہ سیریئن ڈیموکریٹک فورسز ملیشیا اتحاد کے جنگجو اسلامک سٹیٹ گروپ کے آخری گڑھ پر قبضہ کرنے کے لیے لڑ رہے تھے۔
پینٹاگون کی تحقیقات کی قیادت کرنے والے جنرل مائیکل گیریٹ نے اپنی رپورٹ میں کہا ہے کہ ایس ڈی ایف نے آئی ایس کے جوابی حملے کے بعد فضائی مدد کی درخواست کی تھی۔
امریکی گراؤنڈ فورس کمانڈر جی ایف سی میں فضائی مدد کے ذمہ دار نے آئی ایس کے عسکریت پسندوں کے حملے کی بار بار توثیق کی کہ حملے کی جگہ کوئی عام شہری نہیں تھا اور فضائی حملوں کی اجازت دی۔
رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ جی ایف سی کے علم میں نہیں تھا کہ دھماکے کے دائرے میں عام شہری موجود تھے جس کی وجہ شہریوں کی ہلاکتیں ہوئیں۔
نیویارک ٹائمز نے گذشتہ نومبر میں اطلاع دی تھی کہ حملے میں ایک کیمپ کو نشانہ بنایا جہاں خواتین، بچے، آئی ایس کے قیدی اور متعدد زخمی مرد پناہ لیے ہوئے تھے، جس میں تقریباً 70 افراد مارے گئے۔
لیکن پینٹاگون کے ترجمان نے منگل کو کہا کہ 52 دشمن جنگجو جن میں 51 مرد اور ایک بچہ مارے گئے۔ اس حملے میں چار عام شہری مارے گئے۔ انھوں نے مزید کہا کہ مزید 15 شہری جن میں 11 خواتین اور چار بچے زخمی ہوئے اور یہ جنگی قانون کی خلاف ورزی نہیں۔
کمانڈر نے ’صدارتی طور پر منظور شدہ کے دفاعی اصولوں کے اندر کام کیا، جان بوجھ کر یا بے جا نظر انداز کرتے ہوئے شہری ہلاکتوں کا سبب نہیں بنایا، اور جنگ کے قوانین کی خلاف ورزی نہیں کی۔‘
تاہم، جنرل نے شہری ہلاکتوں کے واقعے کی رپورٹنگ میں تاخیر پر تنقید کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ ان نتائج کی اطلاع کانگریس کو نہیں دی گئی۔
امریکی وزیر دفاع لائیڈ آسٹن نے ایک میمو میں لکھا ہے کہ ابتدائی جائزے کو غلط طریقے سے ہینڈل کرنے پر انہیں مایوسی ہوئی ہے کیونکہ اس سے یہ تاثر پیدا کیا کہ پینٹاگون شفافیت کے لیے پرعزم نہیں تھا اور اس واقعے کو سنجیدگی سے نہیں لے رہا تھا۔
Comments are closed.