محمد شامی کی جنوبی افریقہ کے خلاف بہترین کارکردگی اور ٹیسٹ کرکٹ میں 200 وکٹیں، انڈیا میں سوشل میڈیا پر دلچسپ تبصرے
انڈیا کے فاسٹ بولر محمد شامی نے جب جنوبی افریقہ کے خلاف سنچورین ٹیسٹ کے تیسرے روز پانچ وکٹیں حاصل کرنے کے ساتھ ساتھ اپنے ٹیسٹ کریئر کی 200 وکٹیں بھی مکمل کر لی ہیں جس کے بعد وہ انڈیا کے ایسے پانچویں فاسٹ بولر بن گئے ہیں جنھوں نے ٹیسٹ کرکٹ میں 200 وکٹیں حاصل کرنے کا سنگ میل عبور کیا ہے۔
سنچورین ٹیسٹ میں عمدہ پرفارمنس دکھانے کے بعد انھیں انڈیا میں سوشل میڈیا پر خوب سراہا جا رہا ہے۔
لیکن کیا کیجیے کہ ’یاد ماضی عذاب ہے یا رب‘۔ اور یہی وجہ ہے کہ ان خوشی کے لمحات میں کچھ تیکھے تیکھے تبصرے بھی سامنے آ رہے ہیں جن میں محمد شامی پر ٹی ٹوئنٹی ورلڈ کپ کے دوران انڈیا میں کی جانے والی بدترین تنقید کا حوالہ دیا جا رہا ہے۔
یہ زیادہ پرانی بات بھی نہیں تھی، رواں برس 24 اکتوبر کو ٹی ٹوئنٹی ورلڈ کپ میں انڈیا اور پاکستان کے درمیان کھیلا جانے والے ٹی ٹوئنٹی میچ کو کون بُھلا سکتا ہے۔ پاکستان نے یہ میچ ایک یکطرفہ مقابلے کے بعد 10 وکٹوں سے جیت لیا تھا اور انڈیا کو پاکستان سے ورلڈ کپ مقابلوں میں پہلی مرتبہ شکست ہوئی تھی۔
اس میچ میں جہاں انڈیا کی بیٹنگ بڑا ہدف دینے میں ناکام رہی، وہیں انڈین بولنگ بھی پاکستانی بلے بازوں کو مشکلات میں نہ ڈال سکی۔ تاہم میچ کے بعد چند سوشل میڈیا صارفین نے اس ناقص کارکردگی کا سارا ملبہ محمد شامی کی بولنگ پر ڈال دیا جو اس میچ میں انڈیا کے سب سے مہنگے بولر ثابت ہوئے تھے۔
غصے سے بھرے صارفین کی جانب سے جہاں انھیں اس شکست کا واحد ذمہ دار قرار دیا گیا وہیں بہت سے انڈین شائقین کرکٹ نے سوشل میڈیا پر انھیں ’غدار‘ کے لقب سے بھی نوازا اور انھیں ’پاکستان چلے جانے‘ کے مشورے بھی دیے۔
اب جبکہ شامی نے جنوبی افریقہ کے خلاف بہترین بولنگ کا مظاہرہ کیا ہے اور ایک ایسے موقع پر انڈیا کی بولنگ کو سہارا دیا جب جسپریت بمراہ زخمی ہونے کے باعث گراؤنڈ سے جا چکے تھے، تو ایک صحافی وشنو سوم یہ کہتے دکھائی دیے کہ ’شامی نے پانچ وکٹیں حاصل کر لیں شاید اب وہ پاکستانی نہیں ہیں۔‘
ان کی اس ٹویٹ پر اکثر انڈین صارفین نے خاصی تنقید بھی کی اور کہا کہ ’شامی پر ماضی میں کی گئی تنقید دراصل چند اکاؤنٹس کی طرف سے کی گئی تھی اور اس حوالے سے اب تذکرہ کرنا غیرمناسب ہے۔‘
شامی کا عمدہ سپیل اور 200 وکٹیں
محمد شامی انڈیا کی جانب سے ٹیسٹ میچوں میں 200 سے زیادہ وکٹیں حاصل کرنے والے پانچویں بولر بن گئے ہیں۔
شامی نے میچ کے بعد پریس کانفرنس کے دوران اس کامیابی کے لیے اپنے والد اور بھائی کو خراج تحسین پیش کیا۔
محمد شامی کا تعلق ریاست اترپردیش کے ضلع امروہا کے ساہاسپور علی نگر گاؤں سے ہے اور ان کے مطابق ’خاندان کی حمایت کے بغیر وہ اس پسماندہ علاقے سے انٹرنیشنل کرکٹر بننے کا سفر طے نہ کر پاتے۔‘
یہ بھی پڑھیے
شامی کا کہنا تھا کہ ‘میں ہمیشہ سے یہ کہتا آیا ہوں کہ میری کامیابی کی وجہ میرے والد ہیں جو مجھے 30 کلومیٹر دور کرکٹ کھیلنے کے لیے بھیجا کرتے تھے اور کبھی کبھار خود بھی ساتھ جایا کرتے تھے۔ آج میں جس مقام پر ہوں، اس کی وجہ وہی مشقت ہے۔‘
یاد رہے کہ شامی کے والد سنہ 2017 میں وفات پا چکے ہیں۔
شامی کو اس میچ میں اچھی کارکردگی پر اس لیے بھی زیادہ سراہا جا رہا ہے کیونکہ انھوں نے ایسا جسپریت بمراہ کی انجری کے بعد کیا اور ان کی غیر موجودگی میں بھی جنوبی افریقی بلے بازوں کو ٹکنے نہیں دیا۔
ایک صارف مرزا واصف بیگ نے لکھا کہ ’آپ کو یاد ہے کہ یہ وہی شامی ہیں جنھیں بُرا بھلا کہا گیا تھا اور پاکستان جانے کا کہا گیا تھا۔ وراٹ کوہلی کو بھی ٹرول کیا گیا تھا اور گالیاں دی گئی تھیں۔ اب نہیں دِکھ رہا اُن (شامی) کا مسلمان نام؟‘
ماضی میں جب پاکستان کے خلاف میچ میں بری کارکردگی پر شامی کو شدید ردِ عمل کے بعد جب انڈیا کی ٹیم نے اپنا اگلا میچ کھیلنا تھا، تو اس وقت کے انڈین کپتان وراٹ کوہلی نے محمد شامی کے حق میں بیان دیا تھا اور اُن کے حوالے سے ہونے والی تنقید کی مذمت کی تھی۔
کوہلی نے کہا تھا کہ ’گذشتہ کچھ برسوں میں محمد شامی نے ہمیں کئی میچ جتوائے ہیں اور ٹیسٹ کرکٹ میں جب بھی بولنگ کی بات کی جاتی ہے تو بمراہ کے ساتھ شامی ہمارے اہم ترین بولر رہے ہیں۔‘
وراٹ کوہلی کا مزید کہنا تھا کہ کسی کو مذہب کی بنیاد پر نشانہ بنانا بدترین انسانی عمل ہے۔ ‘مذہب مقدس اور اتنہائی ذاتی چیز ہے اور اس کو وہیں تک رہنا چاہیے۔ ہم محمد شامی کے ساتھ کھڑے ہیں اور ان کی حمایت کرتے ہیں۔’
اس حوالے سے انڈین کرکٹر کی جانب سے بھی محمد شامی کو خوب سراہا گیا اور انھیں 200 وکٹیں حاصل کرنے پر مبارکباد دی گئی۔ سابق انڈین بلے باز محمد کیف نے لکھا کہ ’محمد شامی ان بولرز میں سے ہیں جنھیں اتنی پذیرائی نہیں ملتی۔ بھائی کو ہلکے میں نہ لینا، یہ تو ہیوی ڈرائیور ہے۔ ان کے پاس وہی صلاحیت ہے جو اینڈرسن، بمراہ اور کمنز کی ہے۔‘
انڈیا کے سابق کوچ روی شاستری نے لکھا کہ ’شاباش سلطان آف بنگال۔ دیکھ کر مزا آ گیا۔‘
Comments are closed.