- مصنف, سیلن گرٹ ،سٹیفن ویسلینووچ
- عہدہ, بی بی سی ورلڈ سروس
- 2 گھنٹے قبل
خلیل کی عمر محض چھ سال تھی جب انھیں اپنا ملک شام چھوڑنا پڑا۔ اس وقت ملک میں خانہ جنگی عروج پر تھی اور روزانہ کی بنیاد پر جھڑپیں معمول کی بات تھی۔وہ مغربی شام کے علاقے حمص میں اپنے ٹیکسی ڈرائیور والد، والدہ اور دو چھوٹی بہنوں کے ساتھ رہ رہے تھے۔خانہ جنگی کے آغاز سے قبل شام کے تیسرے بڑے شہر حمص کی آبادی 15 لاکھ افراد پر مشتمل تھی۔ یہ علاقہ 2011 سے شامی صدر بشار الاسد کے خلاف بغاوت کا ایک اہم میدان رہا ہے۔خلیل اس وقت کو یاد کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ ’میرا گاؤں دو پہاڑوں کے درمیان واقع تھا اور ہر رات وہاں جھڑپیں ہوتی تھیں۔‘
’جب فوجی اور باغی ایک دوسرے پر گولی چلاتے تو ان کی بندوقوں کی نوک سے نکلتی آگ اور روشنی دیکھ کر میں بہت خوفزدہ ہوتا تھا۔‘2015 کے اواخر میں حکومت باغی فورسز کو حمص سے نکالنے میں کامیاب ہو گئیں۔ اب اس علاقے پر حکومت کا کنٹرول تھا۔بغاوت کے دوران ’انسداد دہشت گردی کے قانون‘ کے تحت حزب اختلاف کی تقریباً تمام پرامن سرگرمیوں کو جرم قرار دیا گیا اور ہزاروں افراد کو حراست میں لے لیا گیا۔ ان میں خلیل کے والد ابراہیم بھی شامل تھے۔’حکومت نے انھیں جیل میں ڈال دیا۔ جب وہ باہر نکلے تو ہمیں (بطورِ خاندان) بہت کچھ سہنا پڑا۔ لہذا، ہم نے شام چھوڑنے کا فیصلہ کیا۔‘اس طرح ایک پناہ گزین لڑکے کے طور پر خلیل کا دہائیوں پر محیط سفر کا آغاز ہوا۔،تصویر کا ذریعہAFP
پہلا پڑاؤ لبنان
شام میں جاری تنازعے کے آغاز سے اب تک تقریباً 1 کروڑ 20 لاکھ افراد بے گھر ہو چکے ہیں جبکہ چھ لاکھ سے زائد ملک چھوڑ کر جا چکے ہیں۔ایک اندازے کے مطابق 15 لاکھ شامی ہمسایہ ملک لبنان میں پناہ گزین ہیں۔محض 53 لاکھ کی آبادی پر مشتمل لبنان میں پناہ گزینوں کا تناسب دنیا میں سب سے زیادہ ہے۔خلیل کے خاندان نے بھی اپنا پہلا پڑاؤ لبنان میں ڈالا تھا۔تقریباً ایک سال تک خلیل اور ان کے گھر والے خاندانی دوست کے گھر رہے۔ بالآخر انھوں نے وہاں سے جانے کا فیصلہ کیا کیونکہ ان کا خیال تھا کہ وہاں ان کا کوئی مستقبل نہیں۔اگلے مرحلے میں خلیل کا خاندان قانونی طور پر بذریعہ ہوائی جہاز ترکی پہنچ گیا۔شام میں خانہ جنگی کے آغاز کے بعد ترکی نے شامی پناہ گرینوں کے لیے اپنے دروازے کھول دیے تھے۔اس وقت ترکی 36 لاکھ سے زائد رجسٹرڈ شامی پناہ گزینوں کے ساتھ دنیا میں مہاجرین کی سب سے بڑی تعداد والا ملک ہے۔خلیل اور ان کا خاندان ترکی کے سب سے بڑے شہر استنبول میں آباد ہوئے۔ ایک کروڑ 60 لاکھ کی آبادی والا یہ شہر تقریباً پانچ لاکھ سے زیادہ شامی باشندوں کی میزبانی کر رہا ہے۔چار سال تک وہاں رہنے کے باوجود وہ اس معاشرے میں ضم نہ ہو سکے۔ اس کی وجہ مقامی افراد اور پناہ گزینوں کے درمیان بڑھتا ہوا تناؤ تھا۔خلیل کہتے ہیں کہ اکثر استنبول میں مقامی لوگ انھیں آکر کہتے کہ وہ شام واپس کیوں نہیں چلے جاتے۔ ’مجھے بہت پریشانیوں کا سامنا کرنا پڑا لیکن میں نے سوچا کہ اگر میں اس کے بارے میں روتا رہوں گا تو کچھ نہیں ہونے والا لہذا مجھے اپنی زندگی کو جاری رکھنا ہوگا۔‘سنہ 2019 کے وسط تک ایسی اطلاعات آنا شروع ہو گئیں کہ ترکی سینکڑوں شامی مہاجرین کو ان کی مرضی کے خلاف واپس بھیج رہا ہے۔ اس وقت ترک حکومت اس کی تردید کر رہی تھی۔خلیل کے گھر والوں کو بھی ڈر لگنے لگا کہ کہیں انھیں بھی زبردستی واپس نہ بھیج دیا جائے۔اسی خوف کے پیشِ نظر خلیل کے خاندان نے ترکی چھوڑنے کی غرض سے جنوب مغربی ساحلی قصبے بوڈرم کا رخ کیا۔ یہاں سے انھوں نے بحیرہ ایجیئن پار کر کے یونان پہنچنے کی کوشش شروع کر دی۔انھوں نے تین بار بحیرہ ایجیئن پار کرنے کی کوشش کی لیکن ہر بار انھیں ناکامی کا منہ دیکھنا پڑا۔بالآخر چوتھی کوشش میں خلیل اور ان کا خاندان یونانی جزیرے کوس پہنچنے میں کامیاب ہو گئے۔وہ کہتے ہیں کہ انھیں لگا جیسے وہ کوئی خواب دیکھ رہے ہوں۔ ’ہمیں لگا ہم جیت گئے اور اب ہم اپنا مستقبل بنا سکتے ہیں۔‘
- یونانی کوسٹ گارڈز پر تارکینِ وطن کو بحیرہِ روم میں پھینکنے کا الزام: ’انھوں نے ہمیں مدد کے لیے پکارتے سُنا مگر مدد نہیں کی‘18 جون 2024
- افغان پناہ گزینوں کی واپسی: ’حکومت پاکستان کے اعلان کے بعد میرا کاروبار آسمان سے زمین پر آ گیا‘4 نومبر 2023
- برطانیہ پناہ کے خواہشمند غیر قانونی تارکین وطن کو روانڈا کیوں بھیج رہا ہے؟23 اپريل 2024
’میری بس ہو گئی ہے، میں بہت تھک چکا ہوں‘
لیکن ان کا یہ خواب زیادہ دیر نہیں چلا۔ سنہ 2020 میں یونان کی جانب سے تارکین وطن افراد کو ترکی کی طرف بے دخل کیے جانے کے واقعات رپورٹ ہونے لگے۔انسانی حقوق کی تنظیموں کی جانب سے یونان کو پناہ کے متلاشیوں کے ساتھ ناروا سلوک پر تنقید کا سامنا رہا ہے۔ اس وقت یونانی حکام نے ان اطلاعات کی تردید کی تھی۔ابراہیم کو ڈر تھا کہ کہیں ان کے ساتھ بھی ایسا کچھ نہ ہو۔ خلیل نے اپنے والد کو تجویز دی کہ وہ باقی خاندان سے الگ ہو کر اکیلے یورپ کا سفر کریں گے۔خلیل کہتے ہیں کہ ابتدائی طور پر ان کے والد اس بات کے لیے نہیں مانے لیکن کچھ سوچنے کے بعد انھوں نے خلیل کو اجازت دے دی۔’انھوں نے مجھ سے پوچھا کہ بیٹا کیا تم واقعی ایسا کرنا چاہتے ہو؟ جب میں نے ہاں میں نے جواب دیا تو انھوں نے کہا کہ ٹھیک ہے۔ تیار ہو جاؤ، تم جلد ہی جاؤ گے۔‘محض 13 سال کی عمر میں خلیل تارکینِ وطن کے ایک گروپ کے ہمراہ البانیہ کے لیے روانہ ہو گئے۔ان کو 165 کلومیٹر سے زیادہ پیدل چلنا پڑا۔ اس دوران انھیں پہاڑوں اور دریاؤں کو پار کرنا پڑا۔ اس سفر میں ان کے پاس خوراک کے نام پر صرف ٹیونا پچھلی اور چاکلیٹ تھا۔گروپ نے اس بات کو یقینی بنانے کی کوشش کی کہ سفر کے دوران ان کے پاس وافر مقدار میں پانی اور سلیپنگ بیگز موجود ہوں۔انھوں نے اپنے اس مشکل سفر کی اپنے سمارٹ فونز کے ذریعے فلم بندی کی کوشش کی تاکہ منزل پر پہنچنے کے بعد وہ یہ یادیں اپنے خاندان کے ساتھ بانٹ سکیں۔دو ہفتے چلنے کے بعد وہ کوسوو کے دارالحکومت پرسٹینا پہنچ گئے لیکن مزید آگے جانے کے لیے پرعزم تھے لہذا انھوں نے جلد ہی سربیا کی طرف کوچ کرنا شروع کر دیا۔نومبر 2020 میں خلیل سربیا کے دارالحکومت بلگریڈ پہنچنے میں کامیاب ہوگئے۔صبح 5 بجے اپنے موبائل فون پر ویڈیو بناتے ہوئے انھوں نے کہا، ’میری بس ہو گئی ہے، میں بہت تھک چکا ہوں۔‘یہ ان کے ورچوئل پوسٹ کارڈز میں سے ایک تھا جو جلد ہی ان کے اہلخانہ کو ملنے والا تھا۔
’بلغراد میرا شہر نہیں لیکن میں یہاں خوش ہوں‘
مگر خلیل کا سفر ابھی ختم نہیں ہوا تھا۔ وہ سربیا سے مزید آگے آسٹریا یا نیدرلینڈ تک جانا چاہتے تھے۔انھوں نے 11 مرتبہ ہنگری، تین بار کروشیا اور ایک بار رومانیہ میں داخل ہونے کی کوشش کی لیکن ہر مرتبہ وہ پکڑے جاتے۔چار ماہ کی مسلسل کوشش کے بعد خلیل کی صحت خراب ہونا شروع ہو گئی۔ اس کی وجہ شدید موسم میں پیدل چلنا تھا۔ بالآخر تھک ہار کر وہ سربیا کے دارالحکومت بلغراد میں آباد ہو گئے۔ایک اندازے کے مطابق سنہ 2015 سے دنیا بھر سے تقریبا 10 لاکھ سے زیادہ تارکین اور مہاجرین نے یورپی یونین کے مختلف ممالک تک پہنچنے کے لیے بلقان روٹ کا انتخاب کیا۔پناہ گزینوں اور جلاوطنی سے متعلق یورپی کونسل (ای سی آر ای) کا کہنا ہے کہ ان میں سے ہزاروں کو ہر سال سمگلروں یا سکیورٹی فورسز کی طرف سے واپس دھکیل دیا جاتا ہے جبکہ انھیں تشدد اور ایذا رسانی کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ ان میں افراد کو غیر انسانی حالات میں رہنا ہڑتا ہے جس کی وجہ سے انھیں کئی طرح کے صحت کے خطرات لاحق ہوتے ہیں۔خلیل اب 17 سال کے نوجوان ہیں۔ بی بی سی سے بات کرتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ ’مجھے نہیں لگتا کہ بلغراد میرا شہر ہے لیکن میں یہاں بہت خوش ہوں۔‘پچھلے تین سال سے سربیا کا دارالحکومت خلیل کا نیا گھر بن گیا ہے۔ اںھوں نے یہاں سکول جانا شروع کر دیا اور انگریزی کے ساتھ ساتھ سربیائی زبان بھی سیکھ لی۔ سب سے بڑی بات یہ ہے کہ انھوں نے یہاں بہت سے دوست بھی بنالیے ہیں۔وہ غیر سرکاری تنظیم جیسوٹ ریفیوجی سروس (جے آر ایس) کی جانب سے فراہم کیے گئے ایک چھوٹے سے گھر میں رہتے ہیں۔ جے آر ایس سربیا میں موجود پناہ گزین بچوں کی فلاح و بہبود کے لیے کام کرتے ہیں۔بی بی سی سے ملاقات کے دوران انھوں نے اپنا گھر اور اپنی ڈرائنگ بھی دکھائیں۔ ’مجھے فارغ اوقات میں ڈرائنگ کرنا پسند ہے۔‘خلیل کے بنائے خاکے دیوار پر چسپاں تھے۔ ان میں سے ایک میں انھوں نے اپنی ماں کے نام کے پہلے حرف کو دل کی شکل میں ملاتے ہوئے لکھا ہوا تھا جبکہ دوسرے خاکے میں ایک لڑکی کی تصویر کشی کی گئی تھی جس کے فرشتوں جیسے پر تھے جو سمندر سے آسمان کی جانب اڑ رہی تھی۔اپنی ڈرائنگ کے بارے میں بات کرتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ ’یہ لڑکی بالکل اکیلی ہے، اس وقت میں بھی بالکل ایسا ہی محسوس کر رہا تھا۔‘’یونان، البانیہ، کوسووو، میں جو کچھ ہوا، اس کے بعد میں تھک گیا ہوں۔ میں یہاں پہنچا تو میں نے خدا کا شکر ادا کیا۔ مجھے لگا کہ میری زندگی اب پرفیکٹ ہے، میں سو سکتا ہوں، سکول جا سکتا ہوں۔‘
چار سال کا طویل انتظار
جب خلیل سربیا میں تھے تب بھی ان کے والد اور بہنیں یونان میں موجود تھے تاہم ان کی والدہ نیدرلینڈ پہنچ کر وہاں پناہ گزین کا درجہ حاصل کرنے میں کامیاب ہو گئی تھیں۔خلیل کو اپنے پیاروں سے ملے تقریباً چار سال بیت چکے تھے۔ بالآخر ستمبر 2023 میں ان کی فیملی نے دوبارہ ملاپ کے لیے کوالیفائی کر لیا۔اس کے کچھ ہی مہینوں کے اندر خلیل نیدرلینڈ میں اپنے گھر والوں کے ساتھ تھے۔ اب ان کی پوری فیملی کو پناہ مل گئی ہے۔ان کو امید ہے کہ اگلے سال وہ کالج میں داخلہ لے پائیں گے۔ وہ کمپیوٹر پروگرامنگ کی تعلیم حاصل کرنا چاہتے ہیں۔’میں نئے دوست بنانا چاہتا ہوں اور اپنے خاندان کے ساتھ ایک پرامن زندگی گزارنا چاہتا ہوں۔‘’زندگی کے تجربات نے مجھے اپنے آپ پر یقین کرنا اور کچھ بھی حاصل کرنے کے لیے خود کو مضبوط کرنا سکھایا۔‘
BBCUrdu.com بشکریہ
body a {display:none;}
Comments are closed.