- مصنف, کسری ناجی
- عہدہ, بی بی سی
- 3 گھنٹے قبل
گذشتہ اتوار اردن میں اپنے فوجی اڈے پر حملے کے جواب میں امریکہ نے شام اور عراق میں 85 اہداف پر فضائی کارروائیاں کی ہیں۔ عراق کا کہنا ہے کہ امریکی فضائی حملوں کے خطے کے لیے تباہ کن نتائج ہوں گے۔ اس کا دعویٰ ہے کہ امریکی حملوں میں 16 معصوم شہری ہلاک ہوئے ہیں۔ تاہم امریکہ نے کہا کہ اس کے فضائی حملوں میں عراق اور شام میں ایرانی حمایت یافتہ گروہوں کو نشانہ بنایا گیا۔ امریکی صدر جو بائیڈن نے جمعے کو ایک بیان میں کہا تھا کہ ’ہمارا جواب آج شروع ہوگا۔ یہ جواب ہمارے چُنے ہوئے وقت اور مقامات پر دیا جائے گا۔‘
خیال رہے کہ وائٹ ہاؤس نے اس ڈرون حملے کا الزام ایران کے حمایت یافتہ مسلح گروہوں پر عائد کیا تھا جس میں تین امریکی فوجیوں کی ہلاکت ہوئی تھی۔ دوسری طرف ایران نے اس بات کا اعادہ کیا ہے کہ وہ امریکہ کے ساتھ جنگ نہیں چاہتا لیکن ساتھ ہی اس نے خبردار کیا ہے کہ وہ اپنی سرزمین پر یا مشرق وسطیٰ میں ایرانی مفادات کے خلاف کسی بھی حملے کا بھرپور جواب دے گا۔ایران کے صدر ابراہیم رئیسی نے جمعے کے روز اس موقف پر تاکید کی۔ انھوں نے کہا کہ ’ہم کوئی جنگ شروع نہیں کریں گے، لیکن اگر کوئی ملک یا ظالم طاقت جارحیت کی کوشش کرے گی تو ایران بھرپور جواب دے گا۔‘ایرانی صدر کا بیان ان اطلاعات کے بعد سامنے آیا کہ امریکہ شام اور عراق میں ایرانی اہداف پر حملوں کی منصوبہ بندی کر رہا ہے۔اسرائیل کی جانب سے حماس کے حملے کے جواب میں غزہ میں بڑے پیمانے پر فوجی آپریشن شروع کرنے کے بعد سے یہ پہلا موقع تھا کہ کوئی امریکی فوجی ہلاک ہوا جس نے خطے کو ایک وسیع تر تنازعے کے قریب پہنچا دیا ہے۔،تصویر کا ذریعہGetty Images
- ایران پر براہ راست حملہ یا پاسداران انقلاب کے کمانڈروں کو نشانہ بنانا: فوجی اڈے پر ڈرون حملے کے بعد امریکہ کیا سوچ رہا ہے؟30 جنوری 2024
- امریکہ اور برطانیہ کی فضائی کارروائیاں حوثیوں کے بحری جہازوں پر حملے روکنے میں ناکام کیوں؟2 فروری 2024
- ٹاور 22: ڈرون حملے کا نشانہ بننے والا پُراسرار فوجی اڈہ جسے امریکہ اور اردن دونوں خفیہ رکھنا چاہتے تھے31 جنوری 2024
،تصویر کا ذریعہGetty Images
امریکہ کے جواب میں تاخیر کیوں ہوئی؟
بائیڈن انتظامیہ امریکہ کے جواب میں تاخیر پر تنقید اور دباؤ کی زد میں رہی ہے۔ تاہم خارجہ پالیسی کے ماہرین کا خیال ہے کہ اس تاخیر نے ایران کو یہ مہلت دی کہ وہ اپنے دستے واپس بلا سکے اور امریکہ و ایران کے درمیان مزید تناؤ سے بچ سکے۔ مشرق وسطی کے سابق امریکی ڈیفنس سیکریٹری مک ملرائے نے کہا کہ ’اس سے ایرانی حمایت یافتہ ملیشیا کی صلاحیت کم ہوئی اور کشیدگی میں مزید اضافے سے بچا گیا۔۔۔ یہ ضروری نہیں کہ اس سے مستقبل میں (ڈرون) حملوں سے بچا جا سکے گا۔‘ان کا کہنا ہے کہ اس کا اصل فائدہ یہ ہے کہ امریکہ اور ایران کے درمیان براہ راست جنگ کے خدشات ختم ہوں گے۔ عرب گلف سٹیٹس انسٹیٹیوٹ آف واشنگٹن کے فیلو حسین ایبش کا کہنا ہے کہ تاخیر سے بظاہر امریکہ نے یہ عندیہ دیا کہ وہ ایران کے اندر حملہ نہیں کرے گا۔ ملرائے نے بی بی سی کو بتایا کہ یہ ممکن ہے کہ امریکہ نے تنصیبات پر حملے سے قبل پاسداران انقلاب کو اپنے دستے نکالنے کی مہلت دی۔تجزیہ کار بریڈلی بومین نے کہا کہ امریکہ کی حکمت عملی سے ’دشمن کو نقصان پہنچا جس سے وہ ہماری فورسز پر مزید حملے نہیں کرے گا۔ مگر اتنا نقصان نہیں کہ کشیدگی میں بے پناہ اضافہ ہو۔ لہذا علاقائی جنگ کے خدشات تھم گئے۔‘
BBCUrdu.com بشکریہ
body a {display:none;}
Comments are closed.