دو سال سے بھی کم عرصے کے بعد یعنی 13 اگست 1981 کو مورگن نے پولیس کو کال کی کہ انھیں اپنی بیوی کی بے جان لاش دکان میں ملی ہے۔قتل کے وقت مورگن اپنے سوتیلے بچوں کے ساتھ ایک سنیما گئے ہوئے تھے۔ اس قتل کے دوران 435 پاؤنڈ نقدی اور سگریٹ کے کئی پیکٹ بھی چوری کر لیے گئے۔لیکن چوری کی خبر بھی قتل کے بارے میں افواہوں کو نہیں روک سکی۔جاسوس کارل فوسٹر کا کہنا ہے کہ ’ابتدائی تفتیش کے دوران ہمیں جلد ہی معلوم ہو گیا تھا کہ ایلن مورگن پر غیر ازدواجی تعلقات کا شبہ تھا۔‘،تصویر کا ذریعہBedfordshire Policeافسران نے مورگن اور اس خاتون (جس کے ساتھ ان کا تعلق تھا) سے پوچھ گچھ کی۔ خاتون کی شناخت مارگریٹ سپونر کے نام سے ہوئی۔جاسوس کانسٹیبل فوسٹر کا کہنا ہے کہ ’ابتدائی تفتیشی ٹیم کو اس کیس کے بارے میں کچھ تحفظات اور خدشات تھے۔ انھیں ایلن اور مارگریٹ کے متعلق شبہات تھے۔‘’مگر ایلن مورگن قتل کے جائے وقوعہ اور وقت پر وہاں نہیں تھے جو ان کے حق میں ثبوت تھا۔‘وہ کہتے ہیں کہ پولیس کی تفتیش سٹور سے باہر بھاگنے والے شخص کی شناخت پر مرکوز تھی۔تاہم افواہیں جاری رہیں اور مورگن نے اپنے آپ کو قتل کے الزام سے بچانے کرنے کے لیے میڈیا کو انٹرویو دینا شروع کر دیے۔ ایک انٹرویو میں انھوں نے کہا، ’میں نے یہ قتل نہیں کیا‘ اور ’جب تک کہ اصلی قاتل گرفتار نہیں ہو جاتا میں اس الزام سے کیسے بری ہو سکتا ہوں؟‘انٹرویو کرنے والے صحافیوں میں سے ایک بی بی سی کے رپورٹر جان کیڈی تھے جنھیں یہ انٹرویو بہت اچھی طرح یاد ہے۔جان کیڈی کہتے ہیں: ’میرا خیال ہے کہ وہ ان لوگوں میں سے ایک تھے جو فلموں میں آنا پسند کرتے ہیں۔۔۔ اور یہ بات بہت عجیب تھی۔‘’ان کا رویہ مجھے عجیب سا لگا۔ ان کے رویے میں اس شخص کی کوئی جھلک نہیں تھی جس کی بیوی کو حال ہی میں بے دردی سے قتل کر دیا گیا تھا۔‘مورگن نے ایک انٹرویو میں اعتراف کیا کہ ان کے متعدد خواتین سے تعلقات تھے۔ یہ تبصرہ جان کیڈی کو ’حیران کن‘ لگا کیونکہ مورگن خود کو مغرور سمجھتے تھے۔ کیڈی کا ماننا ہے کہ ’انھیں عوامی سطح پر یہ معلومات شیئر کرنے کی کوئی ضرورت نہیں تھی۔‘لیکن یہ بات جان کیڈی کے دماغ میں رہ گئی۔وہ کہتے ہیں کہ ’جب میں نے ان سے پوچھا کہ بیوی کے قتل کے بعد آپ کیسا محسوس کر رہے ہیں؟ مجھے توقع تھی کہ وہ رو پڑیں گے۔‘’لیکن وہ نہیں روئے۔ ’بیوی کے قتل کے بعد میں صدمے میں ہوں‘ ایسا کچھ کہنے کے بجائے انھوں نے کہا کہ میں نے اپنا کاروبار اور پیسے کھو دیے ہیں۔ مجھے یقین نہیں آ رہا تھا کہ وہ مجھ سے ایسی بات کہیں گے۔‘جان کیڈی کہتے ہیں: ’میں نے انٹرویو جاری رکھا۔ وہ چاہتے تھے کہ مورگن کوئی جذباتی بات کہیں لیکن انھوں نے ایسا کچھ نہیں کہا۔‘’یہ ردعمل بہت عجیب اور حیران کن تھا جس نے مجھے یہ سوچنے پر مجبور کیا کہ شاید انھوں نے خود ہی ایسا کیا ہو۔‘،تصویر کا ذریعہBedfordshire Policeبیڈ فورڈ شائر کے ایک گرم اور گندے کرائم روم میں اس قتل کیس پر 80 سے زیادہ پولیس افسران کام کر رہے تھے۔پولیس نے جن چیزوں کے متعلق تفتیش کی ان میں سے ایک ریئل اسٹیٹ کمپنی کی گہرے سبز رنگ کی کار بھی شامل تھی جو قتل کے وقت دکان کے قریب پارک تھی۔کیرول کی موت کے ایک ماہ بعد پولیس نے بغیر کسی گرفتاری کے فرانزک ہپناٹسٹ (ہپناٹزم کرنے والے ماہر) کی مدد سے گواہوں سے مزید معلومات حاصل کرنے کی کوشش کی۔ایک مقامی کاروباری شخصیت نے معلومات دینے کے لیے پانچ ہزار ڈالر انعام کا اشتہار دیا اور جاسوسوں نے شہر کے تقریباً 12 ہزار فٹ بال شائقین کو اس اپیل سے آگاہ کرنے کے لیے لوٹن کی فٹ بال ٹیم کے کمپیوٹر بورڈ کا استعمال کیا۔مگر کوئی فائدہ نہیں ہوا۔ قاتل کا کوئی سرا نہ مل سکا اور لوگ اپنی معمول کی زندگی کی جانب لوٹ گئے۔تاہم پولیس ہر دو سال بعد اس کیس کی دوبارہ جانچ کرتی رہی۔
،تصویر کا ذریعہBedfordshire Policeسنہ 2018 میں جاسوس فوسٹر کو بیڈ فورڈ شائر، کیمبرج شائر اور ہرٹ فورڈ شائر کے غیر حل شدہ کیسز کی دوبارہ تفتیش کے لیے ایک یونٹ کا سربراہ مقرر کیا گیا۔انھوں نے سب سے پہلے جو کام کیا وہ مورگن کے قتل کی دوبارہ تفتیش تھی۔وہ کہتے ہیں کہ ’اپیل رپورٹ لکھنے والے افسر سے میں نے پہلا سوال پوچھا ’جب آپ نے ایلن مورگن کو گرفتار کیا تو اس نے کیا کہا؟‘ اس وقت مجھے احساس ہوا کہ اسے کبھی گرفتار ہی نہیں کیا گیا تھا۔‘اس سے انھیں علم ہوا کہ ان کے پاس تمام گواہوں سے دوبارہ ملنے کا فیصلہ کرنے کی کافی وجوہات ہیں۔وہ کہتے ہیں ’گواہوں میں سے ایک خاص طور پر اہم تھا کیونکہ جب میں اس کے پاس گیا تو اس کا پہلا ردعمل تھا ’میں 40 سال سے آپ کے ملنے کا انتظار کر رہا ہوں۔‘اس گواہ کا نام جین بنٹنگ تھا۔ قتل کے وقت ان کی عمر 17 سال تھی اور مارگریٹ نے ان کے لیے رہنما کا کردار ادا کیا تھا۔جین بنٹنگ نے بعد میں مقدمے کے دوران بتایا کہ مورگن نے ڈولفن کیفے میں ان سے پوچھا تھا کہ کیا وہ کیرول کے کسی ایسے سابق بوائے فرینڈ کو جانتی ہیں جو انھیں مار سکتا ہو؟جین بنٹنگ کا کہنا ہے کہ انھوں نے اس واقعے کے بارے میں پولیس کو انٹرویو میں کچھ نہیں بتایا کیونکہ ’مارگریٹ نے مجھ سے کسی کو کچھ نہ بتانے کو کہا تھا اور میں ان کی مقروض ہوں۔ میں ان کے ساتھ وفا نبھانا چاہتی تھی۔‘نئی تحقیقات کے وقت یہ جوڑا شادی شدہ تھا اور وہ وہیں رہ رہے تھے۔پولیس نے تقریباً 6000 دستاویزات اکٹھی کیں، جوڑے کو تین بار گرفتار کیا اور ان مواقع کو خفیہ طور پر ان کی گفتگو ریکارڈ کرنے کے لیے استعمال کیا۔،تصویر کا ذریعہLaura Foster/BBC
BBCUrdu.com بشکریہ
body a {display:none;}
Comments are closed.