سی آئی اے بغیر اجازت امریکیوں کی جاسوسی کر رہی ہے: قانون سازوں کا الزام
دو امریکی سینیٹرز نے اس حوالے سے تشویش کا اظہار کیا ہے کہ امریکہ کی سینٹرل انٹیلیجنس ایجنسی (سی آئی اے) ایک بار پھر بغیر اجازت امریکیوں کی جاسوسی کر رہی ہے۔
سینیٹر رون وائیڈن اور مارٹن ہینرک کا الزام ہے کہ ایجنسی نے ایک نئے پروگرام کے ذریعے بغیر کسی وارنٹ کے ’خفیہ طور پر‘ نگرانی کی ہے۔
انٹیلیجنس حکام کو لکھے گئے خط میں ان دونوں ڈیموکریٹس نے اس پروگرام کی تفصیلات ظاہر کرنے کا مطالبہ کیا ہے۔
امریکہ میں حکومتی طور پر ڈیٹا اکٹھا کرنا بہت تنازعات کا شکار رہا ہے۔
سرکاری طور پر سی آئی اے اور نیشنل سکیورٹی ایجنسی (این ایس اے) کو دوسرے ممالک میں جاسوسی کی اجازت ہے اور سی آئی اے کے 1947 کے چارٹر کے مطابق اندرونِ ملک جاسوسی ممنوع ہے۔
لیکن سنہ 2013 میں ایڈورڈ سنوڈن امریکی حکومت کی جانب سے فون اور انٹرنیٹ کے ذریعے وسیع پیمانے پر نگرانی کے پروگرام کی معلومات منظر عام پر لائے تھے۔
سنہ 2013 میں ایڈورڈ سنوڈن امریکی حکومت کی جانب سے فون اور انٹرنیٹ کے ذریعے وسیع پیمانے پر نگرانی کے پروگرام کی معلومات منظر عام پر لائے تھے
امریکی خفیہ ایجنسی کے اس پروگرام کے ذریعے لوگوں کی ذاتی ویڈیوز، تصاویر اور ای میلز تک نکال لی جاتی ہیں تاکہ مخصوص لوگوں پر نظر رکھی جا سکے۔
سنوڈن لیکس کے بارے میں واشنگٹن پوسٹ کے تجزیے سے پتا چلا کہ جن لوگوں کی نگرانی کی جا رہی تھی ان میں سے تقریباً 90 فیصد ’عام امریکی شہری‘ تھے جو ’ایک ایسے جال میں پھنس گئے جو نیشنل سکیورٹی ایجنسی نے کسی اور کے لیے ڈالا تھا۔‘
اس سے پہلے تک اعلیٰ عہدیدار اس سے انکار کرتے آئے تھے حتیٰ کہ انھوں نے کانگریس کے سامنے حلف اٹھا کر بھی جھوٹ بولا تھا کہ وہ جان بوجھ کر اس طرح کا ڈیٹا اکٹھا کر رہے ہیں۔
پرزم نامی اس پروگرام کو بعد میں امریکی عدالت نے غیر قانونی قرار دیا تھا۔
یہ بھی پڑھیے
لیکن گذشتہ سال حکومت کے ایک نگران ادارے نے سی آئی اے کی جانب سے ڈیٹا اکٹھا کرنے کی دو کوششوں کا انکشاف کیا جن کے بارے میں سینیٹرز وائیڈن اور ہینرک نے اب دعویٰ کیا ہے کہ ممکنہ طور پر دوبارہ بغیر وارنٹ کے امریکیوں کی جاسوسی کی جا رہی ہے۔
سی آئی اے نے جمعرات کو ایک پروگرام کے بارے میں ایسے دستاویزات جاری کیے جنھیں پہلے خفیہ رکھا گیا تھا لیکن انھوں نے کئی دوسری دستاویزات کو یہ کہتے ہوئے منظرِ عام پر لانے سے انکار کر دیا کہ ایسا کرتے ہوئے وہ ایجنسی کے ’حساس طریقہ کار اور آپریشنل ذرائع‘ کی حفاظت کر رہے ہیں۔
لیکن اوریگون سے تعلق رکھنے والے وائیڈن اور نیو میکسیکو کے ہینرک کا کہنا ہے کہ یہ دستاویزات منظرِ عام پر لانے سے انکار کر کے ایجنسی ’جمہوریت میں شہریوں کو حاصل حقوق کو نقصان پہنچا رہی ہے اور یہ اقدام انٹیلیجنس کمیونٹی کی طویل مدتی ساکھ کے لیے خطرناک ہے۔‘
انٹیلیجنس کمیٹی میں موجود سینیٹرز کا کہنا ہے کہ عوام یہ جاننے کا حق رکھتے ہیں کہ ان کی ’کیوں اور کس حد تک نگرانی‘ کی جا رہی ہے۔
امریکن سول لبرٹیز یونین (اے سی ایل یو) کا کہنا ہے کہ ’ان رپورٹس سے اس بارے میں سنجیدہ سوالات جنم لیتے ہیں کہ سی آئی اے ہمارے بارے میں کون کون سی معلومات کو بڑے پیمانے پر اکٹھا کر رہی ہے اور ایجنسی ان معلومات کو امریکیوں کی جاسوسی کے لیے کس کس طرح استعمال کرتی ہے۔‘
سی آئی اے کے ترجمان نے جمعے کو بی بی سی نیوز کو بتایا کہ ’کسی بھی قانونی طریقے سے معلومات جمع کرنے کے دوران، سی آئی اے غیر ارادی طور پر ان امریکیوں کے بارے میں معلومات حاصل کر سکتی ہے جو غیر ملکی شہریوں سے رابطے میں ہیں۔‘
ترجمان نے مزید کہا کہ جب سی آئی اے امریکیوں کے بارے میں معلومات اکھٹا کرتی ہے تو وہ ضابطوں کے مطابق اس معلومات کی حفاظت کرتی ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ یہ ضابطے ڈیٹا کے محدود استعمال کو یقینی بناتے ہیں۔
Comments are closed.