سیکس ٹارشن: ’خاتون نے کہا تین ہزار پاؤنڈ بھجوا دو ورنہ تمھاری زندگی تباہ کر دوں گی‘
- مصنف, اورن کوکس
- عہدہ, بی بی سی نیوز
سنیپ چیٹ پر ہلکے پھلکے فلرٹ سے شروع ہونے والی کہانی کے اختتام پر شمالی آئر لینڈ کے نیتھن مکرلین کو ایک دھمکی ملی۔ اگر انھوں نے ہزاروں پاؤنڈ رقم نہ بھیجی تو ان کی عریاں تصاویر سوشل میڈیا پر پھیلا دی جائیں گی۔
آن لائن بلیک میلنگ کی اس قسم کو ’سیکس ٹارشن‘ کا نام دیا گیا ہے تاہم اکثر ایسے کیسوں میں خواتین کو نشانہ بنایا جاتا ہے۔ لیکن نیتھن کے معاملے میں الٹ ہوا۔ ان کو دھمکی دینے والی ایک بظاہر ایک خاتون تھیں۔
اس قسم کے بلیک میل میں لوگوں سے آن لائن تعلق قائم کرنے کے بعد انھیں اس بات پر مجبور کیا جاتا ہے کہ وہ اپنی عریاں تصاویر بھیجیں جس کے بعد مجرمانہ عناصر ان کو دھمکی دے کر پیسوں کا مطالبہ کرتے ہیں۔
نیتھن نے اس معاملے پر کھل کر بات کرنے کا فیصلہ کیا ہے کیوں کہ وہ چاہتے کہ ایسی ہی صورتحال میں پھنس جانے والوں کو یہ پیغام دے سکیں کہ ان کی دنیا ختم نہیں ہو جاتی۔
25 سالہ نیتھن پوسٹ مین ہیں اور ان کا کہنا ہے کہ ’ایسی صورت حال میں سب سے محفوظ حل یہ ہوتا ہے کہ آپ پیسے ادا کرنے سے انکار کر دیں۔‘
’یہ ہمارے جسم کا ہی حصہ ہوتا ہے اور لوگ اس کو بھول جائیں گے۔‘
’تم نے مجھے اپنا آپ دکھایا‘
لنڈنری کاؤنٹی سے تعلق رکھنے والے نیتھن سپین میں اپنے دوستوں کے ساتھ چھٹیاں گزار رہے تھے جب سنیپ چیٹ پر ایک خاتون نے ان کو اپنے اکاؤنٹ سے پیغام بھیجا جن کو وہ جانتے نہیں تھے۔
نیتھن بتاتے ہیں کہ ’اس کا پیغام ملنے کے بعد میں نے سنیپ چیٹ پر اس کا سکور چیک کیا اور کافی اچھا تھا۔ عام طور پر جعلی اکاؤنٹ کا سکور کم ہوتا ہے۔‘
’ہم نے بات چیت کی اور میرا خیال تھا کہ میں ایک اصلی انسان سے بات کر رہا ہوں کسی جعلی اکاؤنٹ سے نہیں کیوں کہ خطرے کی کوئی گھنٹی نہیں بجی۔‘
نیتھن کی اس اکاؤنٹ کے ساتھ دو ہفتے تک بات چیت ہوئی جس کے بعد ایک رات دیر گئے ان کو اسی اکاؤنٹ کی جانب سے عریاں تصاویر بھیجی گئیں۔
’پھر اس نے کہا کہ مجھے اپنا آپ دکھاؤ تو میں نے سوچا کہ یہ تو انصاف کی بات ہے کہ اس نے مجھے اپنا آپ دکھایا تو اب مجھے بھی ایسا کرنا ہو گا۔‘
اپنی عریاں تصاویر بھیجنے کے تھوڑی ہی دیر بعد نیتھن کو ایک پیغام ملا جس میں ان کی تصویر کے ساتھ ان کے انسٹا گرام اکاؤنٹ پر فالوورز کی فہرست موجود تھی۔
’اس پیغام میں اس خاتون نے کہا کہ میں یہ تصویر تمہارے تمام فالوورز کو بھیج کر تمھاری زندگی تباہ کر دوں گی اگر تم نے مجھے تین ہزار پاؤنڈ نہ بھیجے۔‘
’اگر تم نے پیسے بھجوا دیے تو میں یہ تصویر ڈیلیٹ کر دوں گی۔‘
’ایسے مطالبوں پر ردعمل نہ دیں‘
ناردرن آئر لینڈ کی پولیس کا مشورہ ہے کہ لوگوں کو ایسے مطالبات پر جواب نہیں دینا چاہیے۔
گزشتہ سال پولیس کو سیکس ٹارشن یا عریاں تصاویر کے ذریعے بلیک میلنگ کی 600 شکایات موصول ہوئیں اور پولیس کے مطابق یہ معاملہ بڑھتا جا رہا ہے۔
پولیس انسپکٹر ڈیوڈ مکبرنی کا کہنا ہے کہ ’ایک جعلی خوبصورت چہرے کے پیچھے مجرم چھپے ہوتے ہیں جو اکثر منظم گروہ کا حصہ ہوتے ہیں اور بیرون ملک سے ایسا کام کرتے ہیں۔‘
2016 میں پولیس کے سائبر کرائم یونٹ نے رونان نامی سکول کے بچے کو ایسی ہی بلیک میل واردات کا نشانہ بنائے جانے کے بعد تفتیش میں اس کمپیوٹر کا سراغ لگایا جو استعمال کیا گیا تھا اور معلوم ہوا کہ یہ رومانیہ میں ایک 31 سالہ شخص کے زیر استعمال تھا۔
رونان نے بلیک میل کے بعد پیسے ادا نہیں کیے اور ان کی عریاں تصاویر ان کے چند دوستوں کو بھجوا دی گئیں جس کے بعد انھوں نے خودکشی کر لی تھی۔
نیتھن نے کچھ الگ کیا۔ انھوں نے پیسے دینے کے بجائے بلیک میلر کو یہ احساس دلایا کہ ان کو اس بات کی کوئی پرواہ نہیں کہ ان کی تصاویر کسی کو بھیج دی جاتی ہیں۔
لیکن پھر انھوں نے دیکھا کہ بلیک میلر نے ان کے انسٹا گرام فالوورز کو نشانہ بنانا شروع کر دیا۔
وہ کہتے ہیں کہ ’جب انسٹا گرام گروپس پر تصاویر بھجوائی جانے لگیں تو مجھے یقین نہیں آیا کہ ایسا واقعی ہو رہا ہے۔‘
نیتھن نے اپنے انسٹا گرام کی سیٹنگ بدلیں اور اپنے فالوورز کو تنبیہ کی کہ وہ ان تصاویر کو کھول کر نہ دیکھیں۔
نیتھن نے انسٹا گرام کی بھی تعریف کی جس نے ان کی تصاویر کو ہٹا دیا۔
نیتھ بال بال بچے تھے۔
وہ بتاتے ہیں کہ ’میں نے ایک گروپ چیٹ میں دو جانے پہچانے نام دیکھے جن میں سے ایک میری بہن کا نام تھا لیکن شکر ہے کہ وہ اس کا پرانا اکاؤنٹ تھا۔‘
نیتھن کے لیے اس پریشان کن کہانی کا اختتام یہیں پر ہو گیا۔ اس کے بعد کبھی کبھار اس واقعے کی وجہ سے چھیڑا ضرور جاتا ہے۔
تاہم ایک سال بعد انھوں نے دوسروں کو خبردار کرنے کے لیے اپنی کہانی سنائی ہے۔
وہ بتاتے ہیں کہ ’اس بارے میں آگہی پھیلی ہے لیکن پھر بھی اس پر زیادہ بات نہیں ہوتی اس لیے میں نے ٹک ٹاک پر اس معاملے پر بات کی۔‘
نیتھن کو ملتے جلتے تجربات سے گزرنے والوں کی جانب سے پیغامات ملنا شروع ہو گئے۔
وہ کہتے ہیں کہ ’لوگ غلطیاں کرتے ہیں اور اگر آپ ایسی بلیک میلنگ کا نشانہ بنے ہیں تو آپ تنہا نہیں ہیں۔ معصوم لوگ اکثر شرمندگی کا شکار ہو جاتے ہیں۔‘
ان کا کہنا ہے کہ ’میرا پیغام یہ ہے کہ اپنی شرمندگی کی وجہ سے اس واقعے کو رپورٹ کرنا مت بھولیں۔‘
عارضی مسئلہ
بلیک میل کرنے والوں کے بارے میں نیتھن کے خیالات واضح ہیں۔
’یہ گھٹیا لوگ ہوتے ہیں جو لوگوں کو دھوکہ دے کر ان سے پیسے نکلواتے ہیں۔ ان کا کوئی ضمیر نہیں ہوتا۔‘
ان کا دوسرے لوگوں کو مشورہ ہے کہ پرسکون رہیں اور جلدبازی میں کوئی قدم مت اٹھائیں۔
’دنیا یہاں ختم نہیں ہو جاتی اور اپنی جان لینا بہت بڑی غلطی ہو گی۔ یہ ایک عارضی مسئلے کا مستقل حل تلاش کرنے جیسا ہے۔‘
Comments are closed.