سیٹلائیٹ سے نظر آنے والے دو سُرمئی خاکے اور امریکہ کی پریشانی: کیا چین کمبوڈیا میں مستقل فوجی اڈہ بنا رہا ہے؟
- مصنف, جوناتھن ہیڈ
- عہدہ, نامہ نگار، جنوب مشرقی ایشیا
- 2 گھنٹے قبل
سیٹلائٹس سے لی گئی تصاویر بتاتی ہیں کہ کمبوڈیا کے ’ریام‘ نامی بحری اڈے پر گذشتہ ایک سال سے دو سرمئی رنگ کی چیزیں یا خاکے نظر آ رہے ہیں۔بظاہر یہ ایک عام سی بات لگتی ہے مگر اس کے پیچھے بڑی کہانی ہے۔یہ سرمئی رنگ کے خاکے واشنگٹن کے بڑھتے ہوئے اندیشوں کی بظاہر تصدیق کرتے ہوئے نظر آ رہے ہیں۔درحقیقت یہ بحیرہ جنوبی چین کے تین متنازع جزیروں سے آگے چین کی فوجی موجودگی کے شواہد ہیں۔ خیال رہے ان تینوں متنازع جزیروں پر چین پہلے ہی قابض ہے اور اس نے انھیں قلعہ بند کیا ہوا ہے۔
سیٹلائٹس سے نظر آنے والی یہ شکلیں در اصل چینی بحریہ کے 1500 ٹن وزنی جہاز ’اے-56 کارویٹ‘ ہیں۔ اور انھیں ایک نئے چینی ساختہ بندرگاہ کے ساتھ لنگرانداز کروایا گیا ہے۔ یہ بندرگاہ بہت بڑے بحری جہازوں کو اپنے اندر سمونے کی صلاحیت رکھتا ہے۔کمبوڈیا کے ساحل پر دوسری ایسی سہولیات بھی میسر ہیں جنھیں چین نے تیار کیا ہے اور اُن سہولیات کے بارے میں یہ خیال ظاہر کیا جاتا ہے کہ وہ چینی بحریہ کے زیرِ استعمال ہیں۔کمبوڈیا کی حکومت نے اپنے آئین کا حوالہ دیتے ہوئے بارہا ایسے کسی امکان سے انکار کیا ہے اور کہا ہے کہ ’ریام‘ نامی بحری اڈہ تمام دوست ممالک کے بحری افواج کے استعمال کے لیے کُھلا ہے۔ واضح رہے کہ کمبوڈیا کا آئین اپنے ملک میں کسی بھی مستقل غیر ملکی فوجی موجودگی پر پابندی لگاتا ہے۔کمبوڈیا کی رائل اکیڈمی میں پالیسی تجزیہ کار سیون سام کا کہنا ہے کہ ’براہ کرم سمجھیں کہ یہ (ریام بحری اڈہ) کمبوڈیا کا ہے، یہ چینی اڈہ نہیں ہے۔ کمبوڈیا بہت چھوٹا ملک ہے اور ہماری فوجی صلاحیتیں محدود ہیں۔‘’ہمیں بیرونی دوستوں سے ،خاص طور پر، چین سے زیادہ تربیت کی ضرورت ہے۔‘تاہم، دوسرے ممالک اسے شکوک و شبہات کی نگاہ سے دیکھ رہے ہیں۔
خوشگوار تعلقات
ابھی کچھ سال پہلے تک کمبوڈیا کے جنوبی سرے پر واقع بندرگاہ ’ریام‘ کو امریکی مدد سے اپ گریڈ کیا جا رہا تھا اور ایسا کمبوڈیا کو فراہم کی جانے والی دسیوں ملین ڈالر کی سالانہ فوجی امداد کی مدد سے کیا جا رہا تھا۔ لیکن جب کمبوڈیا کی مرکزی اپوزیشن جماعت پر پابندی لگا دی گئی اور اس کے رہنماؤں کو جلاوطن کر دیا گیا یا جیل بھیج دیا گیا تو امریکہ نے سنہ 2017 کے بعد اس فوجی امداد کو روک دیا۔چینی امداد اور سرمایہ کاری پر پہلے سے زیادہ انحصار کے بعد کمبوڈیا کی حکومت نے اچانک اپنا پارٹنر بدل لیا۔ اس نے امریکہ کے ساتھ منعقد ہونے والی باقاعدہ مشترکہ فوجی مشقوں کو منسوخ کر دیا اور اُن کی جگہ چین کے ساتھ نام نہاد ’گولڈن ڈریگن‘ مشقوں میں حصہ لینا شروع کر دیا۔سنہ 2020 میں ریام میں امریکی امداد سے چلنے والی دو عمارتوں کو منہدم کر دیا گیا اور وہاں موجود دیگر سہولیات کی چینی امداد سے توسیع شروع کر دی گئی۔ پچھلے سال کے آخر تک ایک نئی گودی (جہاز کے لنگرانداز ہونے کی جگہ) کی تعمیر مکمل ہو چکی تھی۔یہ جبوتی کے بندرگاہ پر بنائی گئی 363 میٹر لمبی گودی سے تقریباً مماثل ہے اور یہ اتنی بڑی ہے کہ چین کے سب سے بڑے طیارہ بردار بحری جہاز کو وہاں لنگرانداز کیا جا سکتا ہے۔اس کے بعد جلد ہی دو جنگی بحری جہاز ریام کی بندرگاہ پر لنگرانداز کر دیے گئے اور ایسا دیکھا گیا کہ وہ جہاز یا اسی قسم کے دوسرے جہاز وہاں سال بھر زیادہ تر ٹھہرے نظر آئے ہیں۔کمبوڈیا کا دعویٰ ہے کہ یہ جہاز تربیت کے لیے ہیں اور یہ رواں سال کی گولڈن ڈریگن مشقوں کی تیاری کے لیے آئے ہیں۔ اس کا یہ بھی کہنا ہے کہ چین اپنی بحریہ کے لیے دو نئے اے-56 کارویٹ بنا رہا ہے اور اس کا کہنا ہے کہ ریام میں چین کی موجودگی مستقل نہیں ہے، اس لیے اسے چینی بیس کے طور پر شمار نہیں کیا جا سکتا۔
بہرحال کمبوڈیا کی ان وضاحتوں نے امریکی حکام کے خدشات کو دور نہیں کیا اور وہ بدستور تشویش کا اظہار کر رہے ہیں کیونکہ سیٹلائٹ کی تصاویر میں نئی گودی کی تعمیر کے علاوہ وہاں ایک نئی خشک گودی، گودام، انتظامی دفاتر، رہائشی کوارٹرز اور چار باسکٹ بال کورٹس کی طرح دکھائی دینے والی چیزیں نظر آ رہی ہیں۔
پڑوس کا خوف
،تصویر کا ذریعہGetty Images
BBCUrdu.com بشکریہ
body a {display:none;}
Comments are closed.