منی بل پر سینیٹ کی قائمہ کمیٹی برائے خزانہ کی رپورٹ سینیٹ میں پیش کردی گئی، جس کی سفارشات ایوانِ بالا نے منظور کرلیں۔
سینیٹر طلحہ محمود نے منی بل پر قائمہ کمیٹی کی رپورٹ پیش کی، جبکہ اپوزیشن کی جانب سے مخالفت میں کوئی آواز نہیں آئی۔
سینیٹر طلحہ محمود نے کہا کہ یہ منی بجٹ آئی ایم ایف کا بجٹ ہے، منی بجٹ کے بعد مہنگائی کا طوفان آئے گا۔
انہوں نے بتایا کہ یہ 343 ارب کا بجٹ نہیں، یہ اس سے کہیں زیادہ کا بجٹ ہے، منی بجٹ سے ایسی مہنگائی آئے گی کہ لوگ ڈاکا ماریں گے۔
سینیٹر طلحہ محمود کا کہنا تھا کہ کاروباری افراد کی عزت سے کھیلا جا رہا ہے، کاروباری افراد کے لاکر توڑکر ڈاکا ڈالنا چاہتے ہیں۔
انہوں نے کہا کہ جن کے پیسے سے یہ ملک، پارلیمنٹ چلتی ہے ان کو چور کہتے ہیں، کاروباری افراد کے ساتھ ظلم کی مذمت کرتا ہوں۔
سینیٹر طلحہ محمود کا کہنا تھا کہ دوائی کی قیمت دُگنی ہوجائے گی، لوگوں کو دوا نہیں ملے گی، عام آدمی کے استعمال کی تمام اشیا مہنگی ہوں گی۔
ان کا یہ بھی کہنا تھا کہ اس ملک میں کس طرح ڈیجیٹل ادائیگی کی جاسکتی ہے؟ کمپیوٹر، لیپ ٹاپ، ٹریکٹر، سب چیزوں کی قیمت بڑھ رہی ہیں۔
سینیٹر طلحہ محمود نے کہا کہ معیشت کی جنگ جیتنا ہے تو کاروباری افراد کو ساتھ لیکر آئیں، وہ چور نہیں ہیں۔
انہوں نے یہ بھی کہا کہ سابق چیئرمین سینیٹ فاروق نائیک کئی مہینے تک کریڈٹ کارڈ نہیں نکلواسکے، ہمارا اکاؤنٹ نہیں کھل سکتا، کیوں ہمارے ساتھ ظلم کرتے ہیں۔
سینیٹر طلحہ محمود کا کہنا تھا کہ کونسا اپارٹمنٹ 20 کروڑ کا ہے؟ انہوں نے دودھ پر، بریڈ، نان، دہی پر ٹیکس لگایا ہے۔
ڈپٹی چیئرمین سینیٹ نے دورانِ تقریر طلحہ محمود کا مائیک بند کردیا تو اپوزیشن ارکان نے نشستوں پر کھڑے ہوکر احتجاج کیا اور طلحہ محمود کو بات کرنے کی اجازت دینے کا مطالبہ کیا۔
دوسری جانب سینیٹر محسن عزیز نے کہا کہ یہ بل 4 جنوری سے موجود تھا، کمیٹی میں زیر غور رہا لیکن طلحہ محمود نے اب پوچھا کہ زلیخا مرد تھا یا عورت۔
سینیٹر یوسف رضا گیلانی نے کہا کہ سانحہ مری پر بحث کروائی جائے۔
ڈپٹی چیئرمین سینیٹ مرزا آفریدی کا کہنا تھا کہ خزانہ کمیٹی کے ممبران منی بل پر رپورٹ پر بات کریں گے۔
Comments are closed.