سینیٹ کی قائمہ کمیٹی برائے خزانہ کے اجلاس میں افسران کے اثاثے پبلک کرنے کا مطالبہ کیا گیا۔
قائمہ کمیٹی برائے خزانہ کے اجلاس کی صدارت کرتے ہوئے چیئرمین سینیٹر سلیم مانڈوی والا نے کہا کہ کہا جا رہا ہے فیڈرل بورڈ آف ریونیو (ایف بی آر) کے لوگوں کے بے نامی اثاثے ہیں۔
سینیٹر سعدیہ عباسی نے کہا کہ ارکان پارلیمنٹ کے اثاثے ظاہر کیے جاتے ہیں تو افسران کے بھی ہونے چاہئیں۔
کمیٹی نے اثاثے ظاہر کرنے کے قواعد میں تبدیلی کو کابینہ اجلاس میں پیش کرنے کا مطالبہ کرتے ہوئے کہا کہ تمام افسران کے اثاثے عوام کے سامنے لائے جانا ضروری ہیں، وفاقی حکومت کی منظوری کے بعد افسران کے اثاثے پبلک کیے جائیں۔
چیئرمین ایف بی آر زبیر امجد ٹوانہ نے کہا ہے کہ ایف بی آر میں تعیناتی اور ترقی کے موقع پر ملازمین کے اثاثے ظاہر کرنا ضروری ہے۔ اگر ایف بی آر کو پتہ چلے کہ کسی ملازم کے بے نامی اثاثے ہیں تو اس کے خلاف کارروائی کی جاتی ہے۔ 25 ہزار ملازمین ہیں ہر ملازم کے اثاثے چیک کرنا آسان نہیں ہے۔
قائمہ کمیٹی برائے خزانہ اجلاس میں سینیٹر سیف اللّٰہ نیازی کا کہنا تھا کہ ایف بی آر کے افسران کو تعیناتی کے وقت اور موجودہ اثاثے ڈیکلیئر کرنے چاہئیں، جبکہ سینیٹر کامل علی آغا نے سوال اٹھایا کہ ایف بی آر 25 ہزار ملازمین کے اثاثے چیک نہیں کر سکتا تو 25 کروڑ لوگوں کے کیسے کرے گا؟
ان کا کہنا تھا کہ جنہوں نے عوام کو انصاف دینا ہے وہی انصاف نہیں کر رہے تو کیا ہوگا؟
چیئرمین ایف بی آر نے کہا کہ 5 سے 6 سو ارب کی کرپشن ایف بی آر میں ہوتی ہے، جو لوگ کرپشن کرتے ہیں وہ کہیں تو پیسہ لگاتا ہے۔
اسپیشل سیکرٹری خزانہ اویس سمرا نے کمیٹی میں انکشاف کیا کہ افسران کے اثاثے چیک کرنے کا میکنزم حکومت کے پاس نہیں ہے، میکنزم نہ ہونے کی وجہ سے کئی لوگوں کی ترقی رک جاتی ہے، کئی افسران پر الزام لگتا ہے جس سے ان کی ترقی متاثر ہوتی ہے، اسٹیبلشمنٹ ڈویژن نے ان قواعد میں ترمیم کرنی ہے۔
Comments are closed.