سینکڑوں برطانویوں کو ’خودکشی کے لیے ساتھی‘ کی تلاش: ’یہ موت کا ایک ایسا راستہ ہے جہاں سے واپسی ممکن نہیں‘،تصویر کا ذریعہPhil Coomes/BBC
،تصویر کا کیپشناپنے بیٹے کی موت کے بعد سے انجیلا نے خود کشی سے متعلقہ اس ویب سائٹ پر تحقیق کرنے میں برسوں گزارے ہیں

  • مصنف, اینگس کرافورڈ اور ٹونی سمتھ
  • عہدہ, بی بی سی انویسٹیگیشن کے نامہ نگار اور سینئیر انویسٹیگیشن پروڈیوسر
  • ایک گھنٹہ قبل

بی بی سی کی ایک تحقیق سے پتا چلا ہے کہ برطانیہ میں 700 سے زیادہ لوگوں نے خودکشی سے متعلقہ ویب سائٹس پر پوسٹ کیا ہے کہ وہ مرنے کے لیے کسی پارٹنر (ساتھی) کی تلاش میں ہیں۔ہم اس ویب سائٹ کا نام نہیں شائع کر رہے۔اس میں اراکین کے لیے ایک سیکشن ہے جہاں خودکشی کے خواہش مند ممبران ساتھی کی تلاش کر سکتے ہیں۔ہم نے کئی دوہری خودکشیوں کا سرا ’پارٹنر تھریڈز‘ سے جوڑا ہے۔

ہماری تحقیقات سے یہ بھی پتہ چلا ہے کہ لوگوں کی کمزوریوں کا فائدہ اٹھانے والے پیشہ ور افراد نے اس ویب سائٹ کا استعمال کرتے ہوئے کمزور خواتین کو نشانہ بنایا ہے۔دسمبر 2019 میں انجیلا سٹیونز کے 28 سالہ بیٹے بریٹ نے ایک ایسی ہی خاتون سے ملنے کے لیے مڈلینڈز میں واقع اپنے گھر سے سکاٹ لینڈ کا سفر کیا۔ اس خاتون سے ان کا رابطہ پارٹنرز کے تھریڈ پر ہوا تھا۔اس جوڑے نے ایک ایئر بی این بی کرائے پر لیا اور ایک ساتھ خود کشی کی۔انجیلا بتاتی ہیں کہ انھیں بریٹ بہت یاد آتا ہے۔۔۔ اس کی مسکراہٹ، اس کی دل موہ لینے والی ہنسی۔۔۔ سب کچھ یاد آتا ہے۔اپنے بیٹے کی موت کے بعد سے انجیلا نے خود کشی سے متعلقہ اس ویب سائٹ پر تحقیق کرنے میں برسوں گزارے ہیں۔ ان کی دلچسپی خاص طور پر پارٹنرز تھریڈ میں تھی۔انجیلا کہتی ہیں کہ ’یہ ویب سائٹ ایک بہت خطرناک جگہ ہے۔‘ وہ اس کا موازنہ ڈیٹنگ ایپ کے ڈارک ورژن سے کرتی ہیں۔وہ کہتی ہیں ’آپ اپنی جان لینے کے لیے ساتھی تلاش کرنے اور کہاں جائیں گے؟ یہ بہت غلط ہے۔‘یہ تھریڈ صارفین کو اپنی زندگی ختم کرنے کی نہ صرف ترغیب دیتا ہے بلکہ انھیں خودکشی کرنے کے طریقے بھی بتاتا ہے۔ہماری تحقیق کے مطابق دنیا بھر کے لوگوں نے اس تھریڈ پر پانچ ہزار سے زیادہ پوسٹس کی ہیں۔ہم سائٹ کا نام نہیں بتا رہے اور نہ ہی وہاں پر تجویز کیے گئےخودکشی کے طریقوں کے بارے میں تفصیلات بتا رہے ہیں۔مارچ میں بی بی سی کی ایک تحقیق سے پتا چلا کہ سائٹ کی جانب سے پروموٹ کیے گئے کیمیکل کا استعمال کرتے ہوئے 130 سے ​​زیادہ برطانوی افراد نے اپنی زندگیوں کا خاتمہ کیا ہے۔

بی بی سی کی ٹیم نے ایک گمنام اکاؤنٹ بنا کر اس تھریڈ میں موجود پیغامات کی تعداد اور مواد کا تجزیہ کیا۔ہمیں معلوم ہوا کہ خودکشی کے لیے ساتھی کی تلاش میں ممبران یہاں اپنی عمر، جنس، مقام اور موت کا ترجیحی طریقہ پوسٹ کرتے ہیں۔ہیلن کائٹ کی بہن لنڈا نے 2023 میں ایک پارٹنر کے لیے ایسا ہی اشتہار دیا۔ہیلن کا کہنا ہے کہ یہ ایک ایسا فورم ہے جو ’مایوس افراد کو شکار بناتا ہے۔ پارٹنرز سیکشن انھیں موت کے ایک ایسے راستے پر لے آتا ہے جہاں سے واپسی ممکن نہیں ہوتی۔‘لنڈا نے لکھا ’میں 55 سالہ عورت ہوں اور لندن کے قریب رہتی ہوں۔ میں سفر کر سکتی ہوں اور ہوٹل کا بل بھی ادا کر سکتی ہوں مگر مناسب ہو گا کہ ہم پہلے آپس میں تھوڑی بات چیت کریں۔‘لنڈا نے پارٹنرز تھریڈ کے ذریعے ایک شخص سے رابطہ کیا اور مشرقی لندن میں رومفورڈ کے ایک ہوٹل میں اس سے ملاقات کی۔ان دونوں نے ایک زہریلا کیمیکل کھایا اور یکم جولائی 2023 کو ایک ساتھ مر گئے۔ہیلن کا کہنا ہے کہ لنڈا کی لاش ایک بالکل اجنبی شخص کی لاش کے پاس پڑی ہوئی ملی۔ان کا ماننا ہے کہ حکام کی جانب سے کسی روک ٹوک کے بغیر اس فورم کے ذریعے ہر روز مدد کے متلاشی معصوم افراد کو پھنسایا جاتا ہے۔وہ کہتی ہیں کہ یہ چیز لواحقین کے لیے ناقابلِ بیان مصائب کا سبب ہے۔لیکن ہیلن کو پتا نہیں تھا کہ ابھی ان کے ساتھ کچھ بہت بہت برا ہونے والا تھا۔۔۔ستمبر 2023 میں ہیلن کی دوسری بہن سارہ جو لنڈا کی موت کے صدمے سے بے حال تھیں، وہ بھی اس فورم کی ممبر بنیں اور وہی زہریلا کیمیکل کھا کر مر گئیں۔

کمزور افراد کی مجبوریوں کا فائدہ اٹھانے والے لوگ

ہماری تحقیقات کے دوران پارٹنرز تھریڈ کا ایک اور پریشان کن پہلو بھی سامنے آیا۔ایسا لگتا ہے کہ لوگوں کی کمزوریوں کا فائدہ اٹھانے والے پیشہ ور افراد کمزور اور خودکشی کے رجحانات رکھنے والے ممبران خصوصاً خواتین کو نشانہ بنانے کے لیے اس ویب سائٹ کا استعمال کرتے ہیں۔2022 میں گلاسگو کی عدالت میں ایک ایسے مقدمے کی سنوائی ہوئی جس کے مطابق 31 سالہ کریگ میکنیلی نے پارٹنرز تھریڈ میں پوسٹس کی ایک سیریز کا جواب دیا تھا۔ یہ پوسٹس ایسی نوجوان خواتین کی طرف سے کی گئی تھیں جو مرنے کے لیے کسی ساتھی کی تلاش کر رہی تھیں۔میکنیلی نے ان میں سے ایک 25 سالہ خاتون کو اپنے فلیٹ میں آ کر خودکشی کی پریکٹس کرنے پر راضی کیا۔انھوں نے اس خاتون کا گلا دبایا حتیٰ کہ وہ ہوش کھو بیٹھی۔

،تصویر کا کیپشنمیکنیلی نے روبرٹا کو بتایا کہ انھیں اس کام کا ’بہت تجربہ ہے‘ اور انھوں نے ’آخر تک‘ روبرٹا کے ساتھ رہنے کا وعدہ کیا۔
میکنیلی کو ان کے گھر سے گرفتار کیا گیا۔ بعد میں معلوم ہوا کہ انھوں نے خودکشی کی خواہش مند دوسری نوجوان خواتین کو بھی اسی طرح کے مشورے اور مدد‘ کی پیشکش کی تھی۔وہ ان سب سے پارٹنرز تھریڈ پر ملے تھے۔ان میں سے ایک رومانیہ کی 22 سالہ طالبہ روبرٹا باربوس تھی۔بی بی سی کی طرف سے دیکھے گئے پیغامات میں میکنیلی نے روبرٹا کو بتایا کہ انھیں اس کام کا ’بہت تجربہ ہے‘ اور انھوں نے ’آخر تک‘ روبرٹا کے ساتھ رہنے کا وعدہ کیا۔وہ میکنیلی سے صرف ایک بار ملیں اور پھر اس سے دوبارہ ملنے سے انکار کر دیا تاہم فروری 2020 میں روبرٹا نے اکیلے اپنی جان لے لی۔روبرٹا کی والدہ ماریہ باربوس کا کہنا ہے کہ ’یہ کسی ڈراؤنی فلم جیسا ہے۔ میں یقین نہیں کر سکتی تھی کہ اس طرح کی ویب سائٹ بھی موجود ہو گی۔‘میکنیلی پر تاحیات پابندی کا حکم (او ایل آر) عائد کی گئی۔ یہ سکاٹ لینڈ میں جنسی اور پرتشدد جرم کے لیے دی جانی والی سنگین سزا ہے۔اس سزا کی شرائط کے تحت میکنیلی کو کم از کم دو سال اور تین ماہ قید کی سزا سنائی گئی اور باقی زندگی وہ نگرانی میں گزاریں گے۔

ہماری تحقیقات میں یہ بھی معلوم ہوا کہ پچھلے دو سالوں میں کچھ صارفین نے پارٹنرز سے ملنے کے لیے بیرون ملک سفر بھی کیا تھا۔ہم کم از کم دو ایسے کیسز کے بارے میں جانتے ہیں جن میں امریکہ سے تعلق رکھنے والے مردوں نے خودکشی کے رجحانات رکھنے والی نوجوان کمزور خواتین سے ملنے اور اس کام (خودکشی) میں ان کی مدد کے لیے برطانیہ کا سفر کیا۔ہم ان کے اہل خانہ کی درخواست پر ملوث افراد میں سے کسی کا نام نہیں شائع کر رہے۔ایک کیس میں ریاست مینیسوٹا سے ایک شخص برطانیہ گیا اور تھریڈ پر ملنے والی ایک 21 سالہ خاتون کے ساتھ ایک ہفتے سے زیادہ عرصے تک ہوٹل میں ٹھہرا۔ہوٹل میں قیام کے 11ویں دن اس نوجوان خاتون نے زہریلا کیمیکل کھایا اور وہ مر گئی۔

،تصویر کا کیپشنروبرٹا کی والدہ ماریہ باربوس کا کہنا ہے کہ ’یہ کسی ڈراؤنی فلم جیسا ہے۔ میں یقین نہیں کر سکتی تھی کہ اس طرح کی ویب سائٹ بھی موجود ہو گی‘
اس شخص نے دعویٰ کیا کہ جب اس خاتون نے کیمیکل لیا اس وقت وہ سو رہے تھے۔ جب انھیں احساس ہوا کہ اس نے کیا کر دیا ہے تو انھوں نے ایمرجنسی سروسز کو کال کی۔پولیس نے اس شخص کو گرفتار کرکے پوچھ گچھ کی تاہم بعد میں انھیں بغیر کسی الزام کے رہا کر دیا گیا اور اپنے ملک جانے کی اجازت دے دی گئی۔دوسرے کیس میں فلوریڈا سے تعلق رکھنے والے ایک شخص کے بارے میں خیال کیا جاتا ہے کہ اس نے ایسے چار لوگوں سے ملنے کا انتظام کیا جن سے اس کا رابطہ تھریڈ پر ہوا تھا۔ ان میں سے ایک کا قیام برطانیہ میں تھا۔ہماری تحقیقات سے پتا چلا ہے کہ انھوں نے امریکہ میں ایک خاتون کو بندوق بھی دی تھی۔ تاہم اس خاتون کے خودکشی کرنے سے پہلے ہی پولیس نے انھیں ڈھونڈ لیا تھا۔اس شخص نے لندن جانے اور ہوٹل میں ایک نوجوان برطانوی خاتون سے ملاقات کا اعتراف بھی کیا ہے۔یہ معلوم نہیں ہوسکا کہ یہ خاتون کون تھیں اور ان کے ساتھ کیا ہوا۔ تاہم اس شخص پر کسی مجرمانہ فعل کا الزام عائد نہیں کیا گیا۔

اس کی روک تھام کیسے ممکن ہے؟

سنہ 2023 میں پچھلی کنزرویٹو حکومت نے آن لائن سیفٹی ایکٹ متعارف کرایا تھا جس کے مطابق اس کا کہنا تھا یہ ریگولیٹر ’آف کام‘ کو ویب سائٹ کے خلاف کارروائی کرنے کی اجازت دے گا۔نئی لیبر انتظامیہ کا کہنا ہے کہ وہ نئے قانون کے حوالے سے پرعزم ہے اور آن لائن ہونے والے اس نقصان کو روکنے کے لیے کارروائی کرنے کا ارادہ رکھتی ہے۔ایک ترجمان نے بی بی سی کو بتایا کہ ہم تحفظ کے حوالے سے اقدامات کو جلد از جلد لاگو کرنا چاہتے ہیں۔اس قانون کو کس طرح بہتر طریقے سے نافذ کیا جائے ’آف کام‘ ابھی تک اس بارے میں مشاورت کر رہا ہے۔ تاہم یہ اس سال کے آخر تک لاگو نہیں ہو سکے گا۔ہماری سابقہ رپورٹنگ کے بعد آف کام نے سائٹ کے منتظمین سے رابطہ کیا ہے۔ریگولیٹر (آف کام) نے یہ تسلیم کیا ہے کہ یہ ایک چھوٹی سائٹ ہے جو امریکہ میں واقع ہے اسی لیے اس کے خلاف قانونی کارروائی کرنا ’بہت مشکل ہو گا۔‘لیکن سائٹ پر ہماری تحقیقات کے دوران ہمیں معلوم ہوا کہ اس کی پرنسپل ماڈریٹر (نگران) ایک خاتون ہیں جو انگلینڈ کے مغرب میں رہتی ہیں۔ہم ان کی ذہنی صحت کے خدشات کے پیشِ نظر ان کا نام نہیں شائع کر رہے۔آف کام کی چیف ایگزیکٹو میلانیا ڈیوس کا کہنا ہے کہ ویب سائٹ کے خلاف کارروائی کی دھمکیوں سے ابھی تک کوئی فرق نہیں پڑا ہے۔ان کا کہنا ہے کہ ’ہم نے سائٹ سے رابطہ کر کے انھیں بتایا کہ یہ غیر قانونی کام ہے اور وہ خودکشی کو فروغ دے رہے ہیں۔ شروع میں انھوں نے برطانوی صارفین کی اس تک رسائی روک دی تھی تاہم اب دوبارہ سے ان کی رسائی کو بحال کر دیا گیا ہے۔‘،تصویر کا ذریعہPhil Coomes/BBC

،تصویر کا کیپشنانجیلا سٹیونز کے 28 سالہ بیٹے بریٹ
برطانیہ میں خودکشی غیر قانونی ہے چاہے آن لائن ہو یا آف لائن۔ سوگوار خاندانوں کا کہنا ہے کہ پارٹنرز تھریڈ خودکشی کو فروغ دے رہا ہے۔انجیلا سٹیونز کہتی ہیں کہ ان کے خیال میں پارٹنرز تھریڈ کسی ایسے شخص کے خوابوں کی تعبیر ہے جسے لوگوں کو زیادتی کا شکار بنا کر تسکین ملتی ہو۔ وہ کہتی ہیں کہ اس ویب سائٹ پر کھلے عام خودکشی کو فروغ دیا جا رہا ہے اور یہ بہت خوفناک ہے۔
BBCUrdu.com بشکریہ

body a {display:none;}