سندھ میں آنے والے سیلاب میں بھی کئی لوگوں کی زندگی چلی گئی، زندگی بھر کی جمع پونجی بہہ گئی، امید اور آس ختم ہوگئی، سیلاب متاثرین کا صبر جواب دے گیا اور بچے بھوک سے نڈھال ہوگئے۔
بلوچشتان کے ضلع نصیر آباد میں سڑک کنارے چارپائیوں پر پلاسٹک کے تھیلوں کی چھت تلے بچے تیز بارشوں سے سہم گئے۔
سیلاب سے متاثرہ علاقوں میں جب کھانے کو پوچھنے والا کوئی نہیں تو بیماروں کا حال کون پوچھے گا؟
مٹیاری، ہالہ، بھٹ شاہ اور سعید آباد میں ہر طرف پانی کا راج نظر آرہا ہے، 400 سے زائد کچے مکانات گر گئے، پانی میں ڈوبی آبادیوں سے 10 ہزار سے زائد افراد نے نقل مکانی شروع کردی، ٹنڈو جام میں بھینسیں گردنوں تک پانی میں ڈوب گئیں، کئی روز سے پانی میں ڈوبے حیدر آباد میں 24 گھنٹوں کے دوران مزید 101 ملی میٹر بارش ریکارڈ ہوئی، نواب شاہ میں سیم نالوں میں شگاف پڑنے کے باعث پانی نے آبادیوں کا رخ کرلیا، گھر اور مکین پانی میں گِھر گئے۔
موسلا دھار بارشوں کے باعث نواب شاہ ایئرپورٹ بند کردیا گیا، پنو عاقل سیم نالے کا شگاف 300 تک بڑھ گیا، 400 سے زائد مکانات متاثر، ہزاروں ایکڑ اراضی زیرِ آب آگئی، سکھر میں ایک ہفتے کے بعد بھی کئی گلی محلے اور سڑکیں تالاب بنی ہوئی ہیں، کشتیوں کے بغیر سفر ناممکن ہوگیا ، بازاروں اور تجارتی علاقوں سے بھی پانی کی نکاسی نہیں ہوسکی۔
دادو میں 21 گھنٹوں کی بارش نے سب کچھ ڈبو دیا، ضلع بدین میں زیرو پوائنٹ کے مقام پر بارش کے باعث پانی کی سطح بلند ہوگئی، سیم نالے کا پانی پُل کے اوپر سے گزرنے لگا، ٹھٹھہ میں بارشوں سے سرکاری عمارتیں بھی محفوظ نہیں رہ سکیں، جانور بھی متاثر ہوگئے۔
Comments are closed.