حالیہ سیلاب اور بارشوں نے ملک میں تباہی مچا دی ہے۔ پی ڈی ایم اے سندھ نے سیلاب کی تباہ کاریوں کے حوالے سے پیش کی گئی رپورٹ میں بتایا ہے کہ 20 جون سے17 ستمبر تک مختلف حادثات میں 678 افراد جاں بحق، 8422 زخمی ہوئے ہیں۔
وہ خواتین جن کے گھر خوفناک سیلاب کی وجہ سے تباہ وبرباد ہوئے انہیں امدادی کیمپوں میں کئی مسائل کا سامنا ہے۔ سیلاب کی وجہ سے بیماریوں میں بھی اضافہ ہورہا ہے۔
سیلاب متاثرین کو امدادی پیکیجز کے رحم و کرم پر چھوڑ دیا گیا ہے لیکن اس امدادی سامان میں سینیٹری کٹس اور دیگر حفظان صحت کی مصنوعات شامل نہیں ہیں۔
قیامت کی اس گھڑی میں سیلاب سے متاثرہ خواتین کی مدد کرنےکے لیے کراچی میں مقیم، فری لانس صحافی کنول انیس نے اپنے شوہرانیس الدین کے ساتھ ایک مہم کا آغاز کیا ہے۔ جس کے تحت وہ اب تک 8 ہزار سے زائد سینٹری کٹس سیلاب سے متاثرہ خواتین کو پہنچا چکی ہیں۔
وہ نہ صرف ان اشیاء کی فوری فراہمی کو ممکن بنا رہی ہیں بلکہ ان مصنوعات کے استعمال اور بعدازں استعمال انہیں مناسب جگہ ٹھکانے لگانے کا طریقہ بھی بتاتی ہیں۔
اس مہم کا مقصد پاکستان میں سیلاب سے متاثر 33 ملین سے زائد افراد جن میں بڑی تعداد خواتین کی ہے، میں سینیٹری کٹس اور دیگر حفظان صحت کی مصنوعات تقسیم کرنا ہے۔
کنول انیس نے 6 اگست کو اپنے شوہر کے ساتھ امدادی سامان لیکر بلوچستان کے ضلع لسبیلہ جانے کا فیصلہ کیا۔ انہوں نے امدادی سامان کے ساتھ کچھ سنیٹری نیپکین بھی تقسیم کئے۔
انہوں نے بتایا کہ میں نے ان خواتین سے صحت سے متعلق مسائل کے بارے میں پوچھا تو عورتیں شرم کی وجہ معمولی تکلیف کے سوا کچھ نہیں بتاتی تھیں اس لیے اس وقت فیصلہ کیا کہ ان کے لئے کچھ کرنا چاہیے۔
خواتین کی ماہواری اور حفظان صحت سے متعلق مسائل میں مدد کرنے کے لیے پرعزم، کنول انیس نے اپنے شوہرکو بتایا کہ میں کچھ کرنا چاہتی ہوں تو انہوں نے ان کی بھرپور حمایت کی۔
اس جوڑے نے اگست میں ایک مہم کا آغاز کیا جس کے تحت ترجیحی بنیادوں پر سیلاب سے متاثرہ خواتین کو مخصوص ایام کے دوران صحت عامہ کی مصنوعات جن میں سینیٹری پیڈز، زیر جامہ، صابن اور درد کش ادویات تقسیم کیں اور اس کے استعمال اور اہمیت کے حوالے سے معلومات فراہم کیں۔
کنول انیس، شوہر کے ساتھ 14 اگست کو صحت عامہ کی مصنوعات لے کر دوبارہ لسبیلہ گئی۔
ان کا کہنا تھا کہ چونکہ پاکستان میں حیض یا ماہواری کوممنوع موضوع سمجھا جاتا ہے اور شہری علاقوں میں خواتین پیڈز جبکہ دیہی علاقوں میں کپڑا ستعمال کرتی ہیں۔
انہوں نے بتایا کہ خواتین اپنے مسائل بتانے میں ہچکچا رہی تھیں۔ مجھےایک نوجوان لڑکی نے اپنی تکلیف کے بارے میں بتانے کی کوشش کی لیکن اس کی ماں نے اسے روک دیا۔
جب میں نے اس سے پوچھا کہ اس نے اپنی بیٹی کو بات کرنے سے کیوں روکا، تو اس کی ماں نے کہا کہ وہ ‘غیر شادی شدہ لڑکی ہے اور غیر شادی شدہ لڑکیاں اس طرح بات نہیں کرتیں۔
یہ جوڑا بلوچستان (بیلا، لسبیلہ اور حب) سندھ میں کیٹی بندر، ماتلی ،دادو، سیہون، بدین، فریدآباد، ٹنڈو آدم ، ٹنڈو اللہ یار کا کیمپس کا دورہ کرچکا ہے۔
انہوں نے بتایا کہ ان علاقوں کے کیمپ میں جاکر معلوم ہوا کی یہاں خواتین میں ماہواری کا عمل تاخیر سے شروع ہوتا ہے جس کے وجہ سے یہ بڑی عمر تک جاری رہتا ہے۔
کنول انیس نے اس مہم کے حوالے سے درپیش مسائل کے بارے میں بتایا کہ سیلاب سے متاثرہ خواتین کوقائل کرنا ہمارے لئے سب سے بڑا چیلنج تھا، وہ سمجھ رہی تھیں کہ یہ ہماری پروڈکٹ ہے اور ہم کسی این جی اوز یا حکومت کی طرف سے آئے ہیں۔
یہاں خواتین کو سینٹیری پیڈز استعمال کرنا ہی نہیں آتا تھا، کچھ خواتین نے مجھے یہ کہا کہ آپ لوگوں کو ان چیزوں کی ضرورت ہوگی کیونکہ آپ لوگ چست کپڑے پہنتے ہیں۔
انہوں نے ان خواتین کو ان کے استعمال کرنے کے حوالے سے ٹریننگ دی اور صحت و صفائی کو ممکن بنانے کیلئے کوڑے دان بھی رکھوائے۔
کنول نے اپنے شوہر انیس الدین کی تعریف کرتے ہوئے کہا کہ ‘اگر میرے شوہر میرا ساتھ نہ دیتے تو مجھے نہیں لگتا کہ میں وہ کر پاتی جو میں اب کر رہی ہوں۔
کنول اور انیس الدین سیلاب سے متاثرہ خواتین میں 8000 سے زائد سینیٹری کٹس تقسیم کرچکے ہیں اور اپنے مقصد کو آگے بڑھانے کے لیے سوشل میڈیا کا استعمال کررہے ہیں۔
انیس الدین کا کہنا تھا ہے کہ جب ہم نے اس مہم کا آغاز کیا تو ان علاقوں کے مقامی افراد نے ڈرایا دھمکایا لیکن ہم نے نیک نیتی اورجذبے سے اپنا کام جاری رکھا۔
ہم نے ان کو بتایا کہ ہم اپنی مدد آپ کے تحت اس مہم پر کام کررہے ہیں ، ہم ذاتی طور پر سیلاب زدگان میں سینیٹری کٹس تقسیم کرتے ہیں۔
انہوں نے بتایا کہ کچھ این جی اوز نے ہم سے رابطہ تو کیا ہے لیکن انہوں نے مالی طور پر کوئی سپورٹ نہیں کیا۔
میں حکومت پاکستان اوردوسرے اداروں سے اپیل کرتا ہوں کہ وہ اس مہم میں ان کا ساتھ دیں، ان کو سیکورٹی فراہم کریں۔
ان کا خیال ہے کہ حکومت کو چاہیے کہ جس طرح پولیو مہم چلائی جاتی ہے اسی طرح گاؤں دیہات میں ان مصنوعات کو مفت تقسیم کیا جائے کیونکہ متاثرین ان مصنوعات کو خریدنے کی سکت نہیں رکھتے۔
Comments are closed.