سیاہ فام مسلمانوں کے مسائل: ’آپ کو ڈیٹ کرتے وقت اپنا ایمان ثابت کرنا پڑتا ہے‘
- منیش پانڈے اور نالینی سواتھاسن
- نیوز بیٹ رپورٹرز
خالوم شہباز
’مجھے ایسے لوگ ملے ہیں جو کہتے ہیں تم اچھے آدمی ہو اور میری بہن کے لیے بھی بہترین ہو لیکن تم سیاہ فام ہو۔ اور مجھے ایسا محسوس ہوتا ہے کہ ۔۔۔یہ کیا۔‘
یہ کہنا ہے انگلینڈ کے شہر برمنگھم کے رہنے والے سیاہ فام خالوم شہباز کا، جن کی نسلی شناخت نے ان کے لیے برطانیہ میں بطور مسلمان ڈیٹ کرنے میں مسائل پیدا کیے ہیں۔’
اٹھائیس سالہ خالوم نے بی بی سی ریڈیو ون کے پروگرام نیوز بیٹ کو بتایا کہ ‘ایک طرف جب مذہب کی بات آتی ہے تو کہا جاتا ہے تم مسلمان ہو لیکن سیاہ فام ہو اور دوسری جانب جب ثقافت کی بات ہو تو سننے کو ملتا ہے کہ تم سیاہ فام ہو یا مسلمان ہو؟ تو ایسے میں آپ کیا کریں؟’
اکتوبر سیاہ فاموں کی تاریخ کے حوالے سے مہینہ تھا اور انھیں یہ محسوس ہوتا کہ اس ماہ کے دوران ہونے والی تقریبات اور خوشیوں میں سیاہ فام مسلمانوں کو بھلا دیا گیا ہے۔
خالوم کو اس تناؤ کا احساس کسی ایسے شخص کے خاندان سے ملاقات کے وقت بھی ہوتا ہے جسے وہ پسند کرتے ہیں۔
ان کے تجربات کا مطلب ہے کہ وہ سوچنا شروع کر دیں کہ کیا وہ اپنی نسل سے باہر کسی کو تلاش کریں۔ ‘اس بات نے مجھے تھوڑا پریشان کر رکھا ہے اور شاید ابھی مجھے شادی نہیں کرنی چاہیے۔’
لیکن اس طرح کے تجربات میں وہ اکیلے نہیں ہیں۔
دنیا کی سب سے بڑی مسلم ڈیٹنگ ایپ ’مزمیچ‘ کے چار سو صارفین کے ایک سروے کے مطابق 74 فیصد سیاہ فام صارف یہ محسوس کرتے ہیں کہ ان کا رنگ و نسل ان کی شادی کی راہ میں حائل ہیں۔ شناخت کی بنیاد پر جنسی خواہش، امتیازی سلوک اور رنگت پر تفریق وہ مسائل ہیں جن پر سیاہ فام افراد نے بات کی۔ ان کا کہنا تھا کہ انھیں ان چیزوں کے متعلق آن لائن ڈیٹنگ ایپس پر موقع نہیں دیا جاتا۔
31 سالہ کایا بھی بطور ایک سیاہ فام مسلم خاتون آن لائن ڈیٹنگ کی دنیا میں ایسے ہی مسائل محسوس کرتی ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ ‘یہ سب کچھ ہمیشہ جان بوجھ کر نہیں کیا جاتا لیکن مجھے وہاں کچھ ایسے مرد ملے ہیں جو کہتے ہیں کہ ‘تم بہت مختلف لگتی ہو، اور وہ سیاہ فام بیویاں اور بچے چاہتے ہیں۔‘
وہ کہتی ہیں کہ ‘یہ محض دل رکھنے والی بات ہے سچی تعریف نہیں ہے۔’ انھیں محسوس ہوتا ہے کہ کچھ معاشروں میں سیاہ فام مسلمانوں کے ساتھ امتیازی سلوک برتا جاتا ہے۔
انھوں نے کہا کہ ‘ایک مرتبہ کسی نے انھیں بتایا کہ ان کی ترجیح اپنی نسل کے شخص کو ڈیٹ کرنا ہے اور اس کے بعد اس نے زیادہ بات نہیں کی۔ ہر کوئی اپنی ترجیح بنا سکتا ہے لیکن یہ تکلیف دہ ہوتا ہے۔’
زینب حسن
ایک مسلمان کی طرح برتاؤ
خالوم اور کایا کو جو تجربات ڈیٹنگ ایپس پر ہوئے ہیں ایسی ہی چیزیں سیاہ فام مسلمانوں کو معاشرے میں برداشت کرنا پڑتی ہیں۔ خالوم جو پیدائشی مسلمان ہیں کا کہنا ہے کہ ‘لوگ مجھے عجیب طرح سے دیکھتے ہیں’ اور اکثر ان سے پوچھا جاتا ہے کہ انھوں نے اسلام کب قبول کیا۔
ایک میک اپ انفلوئنسر زینب حسن ہیں کا کہنا ہے کہ ایک سیاہ فام کی حیثیت سے آپ کو اپنے برتاؤ سے یہ ثابت کرنا پڑتا ہے کہ آپ مسلمان ہیں۔ جبکہ دیگر افراد کے لیے ایسا نہیں ہے۔ مانچسٹر میں رہنے والی 27 سالہ زینب کا کہنا ہے کہ ‘آپ کا ماحول اس میں بڑا اثر ڈالتا ہے۔ جب میں نائجیریا میں تھی تو وہاں سب مسلمان اور سیاہ فام تھے لیکن میں نے محسوس کیا کہ جب سے میں نے حجاب پہننا شروع کیا تو میں ظاہری طور پر مسلم بن گئی ہوں۔’
ان کا کہنا ہے کہ کچھ مسلم معاشروں میں بھی سیاہ فام مخالف جذبات ہیں۔ ‘اگر آپ وہاں کچھ غلط کرتے ہیں تو ایسے ہوتا ہے کہ یہ سیاہ فام مسلمان جو ہے تو ایسا تو ہونا ہی تھا۔’
کایا نے اسلام مذہب کو قبول کیا ہے اور وہ اس امتیازی سلوک پر افسردہ ہیں۔ وہ کہتی ہیں کہ ان کا اسلام کی تعلیمات پر عمل کسی اس شخص سے کم نہیں جو پیدائشی مسلمان ہے۔ وہ کہتی ہیں کہ ‘مختلف معاشروں میں مختلف مسائل ہیں یہاں کچھ افراد یا خاندانوں کی ایسی توقعات ہیں جو اسلامی نہیں بلکہ معاشرتی ہیں۔’
ان کا کہنا ہے کہ ان کے سابق شوہر کے خاندان نے ایسے مسائل پیدا کیے تھے کیونکہ وہ اس بات سے خوش نہیں تھے کہ ان کے شوہر نے ایک سیاہ فام عورت سے شادی کر لی ہے۔ لیکن میں یہ چھپا نہیں سکتی تھی کہ میں سیاہ فام ہوں۔’
امریکہ میں گذشتہ برس سیاہ فام جارج فلائیڈ کی ہلاکت کے بعد سیاہ فاموں کے حقوق کے لیے شروع ہونے والی احتجاجی تحریک ‘بلیک لائیوز میٹرز’ سے انھیں کچھ تبدیلی محسوس ہوتی ہے۔
وہ کہتی ہیں کہ ‘میرے خیال میں اس تمام تحریک میں اور اس کے وقت میں چاہے آپ اپنے والدین کے ساتھ گھر میں تھے فرق ڈالا ہے۔ یہ کہنا قبل از وقت ہے کہ سب کچھ تبدیل ہو گیا ہے لیکن جو مباحثے میں دیکھ رہی ہوں، یا سوشل میڈیا پر جن پیجز کو میں فالو کرتی ہوں مجھے لگتا ہے وہاں اب سیاہ فام مسلمانوں کی شمولیت بڑھی ہے۔’
یہ بھی پڑھیے
خالوم کے خیال میں مکمل تبدیلی کے لیے صرف سیاہ فام مسلمانوں کے لیے مواقع ہونے چاہیے اور انھیں سوشل میڈیا پر بھی سپیس ملنی چاہیے۔ ان کا مزید کہنا ہے کہ ‘ ہر کسی کو یہ محسوس ہونا چاہیے کہ وہ وہاں ٹھیک ہیں اور یہ بھی محسوس کرنا اچھا ہے کہ آپ یہاں اکیلے نہیں ہیں۔’
کایا کا بھی خیال ہے کہ سیاہ فام مسلمانوں کو زیادہ مواقع ملنا چاہیے اور ان کی نمائندگی زیادہ ہونی چاہیے۔ وہ کہتی ہیں کہ ‘آپ کو سیاہ فام مسلمان بطور امام کلاسز لیتے ہوئے زیادہ نظر نہیں آئیں گے۔’
ان کا مزید کہنا ہے کہ ‘اگر آپ کسی ایسے کو نہ دیکھیں جو آپ جیسا ہے تو آپ کو معاشرے میں اپنا آپ الگ تھلگ محسوس ہوگا اور آپ کو سب کے ساتھ کبھی شامل نہیں کیا جائے گا۔
‘ہم سب ایک ساتھ رہ سکتے ہیں’
زینب کا کہنا ہے کہ مسلمان تنظیمیں بہت کچھ کر سکتی ہیں لیکن یہ معاشرے کے لوگوں کی بھی ذمہ داری ہے۔ وہ کہتی ہیں کہ صرف سیاہ فام مسلمانوں کے لیے مواقع پیدا کرنے کا مطلب تفریق پیدا کرنا نہیں ہے۔
‘جب آپ کو یہ محسوس ہوتا ہے کہ آپ کو کسی چیز سے محروم رکھا گیا ہے تو اس کے لیے پہلے وہ موقع فراہم کرنا اہم ہے۔’
ان کا مزید کہنا تھا کہ ہم سب اپنی شناخت کھوئے بغیر ایک ساتھ اکٹھے رہ سکتے ہیں۔ ہماری سیاہ فام یا مسلمان ہونے کی شاخت کا ختم ہونا ضروری نہیں ہے۔’
Comments are closed.