سپریم کورٹ میں آرٹیکل 63اے کی تشریح کے صدارتی ریفرنس اور سپریم کورٹ بارکی درخواست پر سماعت میں چیف جسٹس پاکستان نے ریمارکس دیئے کہ عدالت چاہے گی کہ سیاسی جماعتیں آئین کے دفاع میں کھڑی ہوں۔
سپریم کورٹ میں وزیر اعظم عمران خان کے خلاف تحریک عدم اعتماد سے متعلق مختلف آئینی و قانونی معاملات کے حوالے سے دائر سپریم کورٹ بار ایسوسی ایشن کی درخواست اور وفاقی حکومت کی جانب سے دائر کیے گئے صدارتی ریفرنس کی سماعت جاری ہے۔
چیف جسٹس پاکستان ،جسٹس عمر عطاء بندیال کی سربراہی میں جسٹس اعجاز الاحسن ،جسٹس مظہر عالم خان میاں خیل ،جسٹس منیب اختر اور جسٹس جمال خان مندوخیل پر مشتمل لارجر بینچ کیس کی سماعت کرے گا۔
چیف جسٹس پاکستان نے سماعت کے آغاز پر کہا کہ غیر متعلقہ افراد عدالت سے باہر چلے جائیں، رش کم کریں،رش کم نہ کیا تو کسی کے دلائل نہیں سنیں گے۔
چیف جسٹس عمر عطاء بندیال نے سماعت شروع کرتے ہوئے ریمارکس دیئے کہ معاونت کے لیے چاروں صوبوں کو نوٹس جاری کر رہے ہیں، تمام صوبائی ایڈوکیٹ جنرلز کو نوٹس کیے جا رہے ہیں۔
چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ مسٹر اٹارنی جنرل ہم نے سیاسی جماعتوں کو پہلے ہی نوٹس جاری کر دیا تھا، اٹارنی جنرل نے کہا کہ تمام سیاسی جماعتیں صوبوں میں پہلے سے ہی نمائندگی رکھتی ہیں۔
چیف جسٹس نے کہا کہ سندھ ہاؤس کی ایف آئی آر والے معاملے پر بات کریں گے، پہلے صوبوں کو باقاعدہ نوٹس جاری کریں گے۔
سماعت کے دوران پی پی سینیٹر رضا ربانی روسٹرم پر آگئے اور کہا کہ میں نے فریق بننے کی درخواست دی ہے۔
چیف جسٹس پاکستان نے رضا ربانی سے کہا کہ آپ بیٹھ جائیں، آپ کو بعد میں سنیں گے۔
عدالت کے حکم پر اٹارنی جنرل نے گزشتہ سماعت کا حکم نامہ پڑھ کر سنایا اور اور دلائل کا آغاز کیا۔
اٹارنی جنرل نے عدالت کو بتایا کہ سپریم کورٹ بار کی درخواست میں اسپیکر قومی اسمبلی بھی فریق ہیں۔
ہائی وے پر اپوزیشن بھی ریلی کر رہی ہے، اس وقت دیگر جماعتوں کے لوگ بھی ادھر سے ہی گزریں گے۔
وکیل جے یو آئی کامران مرتضیٰ نے سپریم کورٹ میں بیان دیا کہ ہم پرامن لوگ ہیں،ہم نے کبھی قانون ہاتھ میں نہیں لیا،ہم امن سے رہیں گے۔
چیف جسٹس پاکستان نے کہا کہ عدالت چاہے گی کہ سیاسی جماعتیں آئین کے دفاع میں کھڑی ہوں،ایڈوکیٹ جنرل سندھ نے کہاکہ ہم نے لکھوا دیا ہے کہ ہم اب تک کی سماعت سے مطمئن ہیں۔
سپریم کورٹ نے کہاکہ اسلام آباد پولیس نے مقدمہ درج کرکے اقدامات شروع کردیے ہیں، سندھ ہاؤس واقعے پر پولیس نے کارروائی کی،اٹارنی جنرل نے سیاسی جماعتوں کے جلسے پر مشاورت سے آگاہ کیا، سیاسی جماعتوں نے ڈی چوک کے علاوہ جلسے کی جگہ بتادی ہے، اٹارنی جنرل نے کہا کہ کشمیر ہائی وے پر جے یو آئی کا جلسہ مشکل ہوگا۔
جسٹس مظہر عالم نے ریمارکس دیئے کہ ٹائیگر فورس اور ڈنڈا بردار فورس ہماری بدقسمتی ہے،تمام جماعتیں قانون پر عمل درآمد یقینی بنائیں گی،عدالت نے ٹائیگر فورس اور ڈنڈا بردار فورس پر اظہار تشویش کیا۔
اٹارنی جنرل نے بتایا کہ جے یو آئی اور پی ٹی آئی نے ضلعی انتظامیہ سے ملاقات کی، جے یوآئی نے کشمیر ہائی وے پر دھرنے کی درخواست کی ہے، کشمیر ہائی وے اہم سڑک ہے جو راستہ ائیرپورٹ کو جاتا ہے،اس ہائی وے سے گزر کر ہی تمام جماعتوں کے ارکان اسلام آباد آتے ہیں۔
جسٹس اعجازالاحسن نے کہا کہ جمہوری عمل کا مقصد روزمرہ امور کو متاثر کرنا نہیں ہوتا۔
جسٹس اعجازالاحسن نے دوران سماعت سوال کیا کہ جے یو آئی کی مانگی گئی جگہ سڑک پر ہے؟اٹارنی جنرل نے بتایا کہ جے یو آئی کی طرف سے سڑک کے قریب جگہ مانگی گئی ہے،جے یو آئی نے نہ صرف احتجاج بلکہ جلسہ کی کال دی ہے، عدالت اس طرح کی کاروائیاں روکنے کی ہدایت کرے۔
اٹارنی جنرل نے کہا کہ جے یو آئی پر امن رہے تو مسئلہ ہی ختم ہوجائے گا۔
وکیل جے یو آئی کامران مرتضیٰ نے کہا کہ درخواست میں واضح کیا ہے کہ قانون پر عمل کریں گے، ہمارا جلسہ اور دھرنا پرامن ہوگا،اس پر چیف جسٹس پاکستان نے وکیل جے یو آئی سے مکالمہ کیا کہ آپ سے حکومت والے ڈرتے ہیں؟چیف جسٹس کی آبزرویشن پر کمرۂ عدالت میں قہقہے گونج اٹھے۔
اٹارنی جنرل نے بتایا کہ سیاسی جماعتوں کے ممبران غلط سرگرمیوں میں ملوث ہوئے،وکلا ءمحاصرہ کیس اور دیگر کیسز میں سپریم کورٹ منحرف اراکین پر آبزرویشن دے چکی ہے، وفاداریاں تبدیل کرنے والے اراکین نے آج تک استعفیٰ نہیں دیا،چیف جسٹس پاکستان نے کہا کہ آپ کا کام ہے کہ سیاسی جماعتوں کو قائل کریں۔
سماعت کے آغاز سے قبل اٹارنی جنرل خالد جاوید خان کے علاوہ پیپلزپارٹی کے وکیل فاروق ایچ نائیک اور جے یو آئی کے وکیل سینیٹر کامران مرتضیٰ سپریم کورٹ پہنچے۔
سپریم کورٹ کے باہر میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے سینیٹر کامران مرتضیٰ نے کہا کہ بینچ کے آپس کے مسائل ہیں، آپس میں ہی حل ہونے چاہئیں۔
انہوں نے کہا کہ تحریک عدم اعتماد جمع ہونے سے واضح ہوگیا کہ ممبران آپ کے ساتھ نہیں، اسپیکر قومی اسمبلی بارہویں کھلاڑی کے طور پر مدد کر رہے ہیں، اسپیکر نے 14 دن کے بعد اجلاس بلا کر غلط کیا ہے۔
پیپلز پارٹی رہنما اور وکیل فاروق نائیک نے میڈیا سے بات کرتے ہوئے کہا کہ ایک ریفرنس ہے اور ایک پٹیشن، ابھی کورٹ میں جا کر معلوم ہوگا کیسے سب چلتا ہے۔
فاروق نائیک نے کہا کہ الیکشن کمیشن فیصلہ کرے گا جس کے بعد سپریم کورٹ میں رائٹ آف اپیل ہے، سیٹ خالی ہوجائے گی۔
انہوں نے کہا کہ آرٹیکل 63 اے میں نااہلی نہیں لکھی ہوئی۔
اسلام آباد میں صدارتی ریفرنس کی سماعت کے موقع پر ریڈ زون مکمل طور پر سیل کر دیا گیا ہے، سیرینا چوک، نادرا چوک، ڈی چوک، میریٹ چوک سمیت تمام راستے بند کردیے گئے ہیں۔
سماعت کے آغاز سے قبل پولیس کی بھاری نفری ریڈ زون کے داخلی راستوں پر تعینات ہے، سپریم کورٹ اور سیکریٹریٹ جانے والے سائلین اور ملازمین کو شدید مشکلات کا سامنا ہے۔
سیکرٹریٹ اور سپریم کورٹ جانے کیلئے صرف مارگلہ روڈ والا راستہ کھلا ہے، سپریم کورٹ کے اندر اور باہر پولیس کی بھاری نفری تعینات ہے، واٹر کینن بھی قریب پہنچادی گئی ہے۔
اس کے علاوہ ریڈ زون کے داخلی راستوں پر بھی پولیس کی بھاری نفری تعینات ہے۔
گزشتہ روز سپریم کورٹ کے سینئر ترین جج جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے سپریم کورٹ بار ایسوسی ایشن کی درخواست اور صدارتی ریفرنس کی اکٹھی سماعت کے لیے پانچ رکنی لارجر بینچ کی تشکیل کے حوالے سے چیف جسٹس کے نام ایک خط لکھ کر اپنے شدید تحفظات کا اظہارکیا۔
جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے22مارچ کو چیف جسٹس کے نام لکھے گئے ایک خط میں موقف اختیار کیا کہ جمعرات کے روز آئین کے آرٹیکل 184(3)کے تحت فائل کی گئی ۔
سپریم کورٹ بار ایسوسی ایشن کی درخواست کی ہفتہ کے روز سماعت کے بعد عدالت نے حکمنامہ میں تحریر کیا ہے کہ اس درخواست کی سماعت مجوزہ صدارتی ریفرنس(اگر کوئی ہے تو) کے ساتھ کی جائے گی۔
فاضل جج نے لکھا ہے کہ مجھے شدید حیرت ہے کہ ایک ایسا صدارتی ریفرنس جو کہ ابھی عدالت میں دائر ہی نہیں ہوا ہے ،اس کو دو رکنی بینچ نے سماعت کے لئے کیسے مقرر کر دیا ہے؟ مجھے معلوم ہے کہ آئین کے آرٹیکل 184(3)کے تحت فائل کی گئی درخواست میں تو حکم نامہ کا اجراء بنتا ہے۔
تاہم ایسی درخواست کی تو صدارتی ریفرنس ،جس میں چند آئینی سوالات پر سپریم کورٹ کی رائے طلب کی گئی ہو؟کے ساتھ سماعت بنتی ہی نہیں ہے ،کیونکہ آئین کے آرٹیکل 184(3)اور 186کا دائرہ کار ایک دوسرے سے یکسر مختلف ہے ۔
فاضل جج نے لکھا ہے کہ دو رکنی بینچ نے آئینی درخواست اور صدارتی ریفرنس کو پانچ رکنی لارجر بینچ کے سامنے سماعت کے لئے مقررکرنے کا حکم جاری کیا ہے ،اور اس بینچ میں سنیارٹی میں چار ،آٹھ اور تیرھویں نمبر پر آنے والے ججوں کو شامل کیا گیا ہے ۔
فاضل جج نے لکھا ہے کہ بینچ کی تشکیل کا یہ طریقہ کار آپ کے پیشروئوں(سابق چیف جسٹسز)کی جانب سے مروج کئے گئے طریقہ کار کوتباہ کرنے کے مترادف ہے۔
جنہوں نے بینچوں کی تشکیل میں چیف جسٹس کی صوابدید جبکہ اہم آئینی مقدمات کی سماعت کے بینچوں میں سینئر ترین ججوںکو ہی شامل کرنے کا طریقہ رائج کیا تھا ،اور اس طریقہ کار کے علاوہ کوئی قابل فہم طریقہ کار موجود ہی نہیں ہے ۔
ایسی صورت میں بہت سے مسائل اور غیر ضروری بدگمانیاں پیدا ہوں گی،فاضل جج نے لکھا ہے کہ آئین ایک سینئر جج کو اس کی سنیارٹی کی بناء پر ذمہ دار ترین جج تصور کرتا ہے ،اور بینچوں کی تشکیل کے معاملے میں اس اصول سے کسی طور پر بھی پہلو تہی ممکن نہیں ہے۔
سینئر ججز، بطور ادارہ سپریم کورٹ کے تسلسل کو یقینی بناتے ہیں،میرے علم کے مطابق آپ کے پیشروئو اہم مقدمات کی سماعت کے لئے بینچ کی تشکیل کے لئے سینئر ترین ججوں سے مشاورت کرتے تھے ،اگر اس مروجہ پریکٹس کو تباہ کیا گیا تو اس کے سپریم کورٹ پر بطور ادارہ بہت ہی منفی اثرات مرتب ہوں گے ۔
فاضل جج نے خط کے آخر میں کسی معاملے پر خاموش بیٹھنے کی بجائے سامنے لانے سے متعلق قرآن پاک کی سورہ لقمان کا حوالہ بھی دیا ہے ،فاضل جج نے اس خط کی نقول سپریم کورٹ کے تمام ججوں، صدر مملکت ، اٹارنی جنرل ،ایڈوکیٹ جنرل ،سپریم کورٹ بار ایسوسی ایشن کے صدر اور سپریم کورٹ کے رجسٹرار کو بھی بھجوائی ہیں۔
Comments are closed.