سیاست، قوانین اور مذہبی نظریات کا تصادم: سویڈن میں قرآن نذرِ آتش کرنے کے واقعات روکے کیوں نہیں جا رہے؟

pakistan

،تصویر کا ذریعہGetty Images

سویڈن میں حالیہ دنوں کے دوران قرآن نذرِ آتش کرنے کے متعدد واقعات کے باعث آزادی اظہار کے حوالے سے بحث ایک مرتبہ پھر سے مرکزی حیثیت اختیار کر گئی ہے اور اب یہ سوال بھی پوچھا جا رہا ہے کہ سویڈن کی حکومت ان واقعات کو روکنے میں ناکام کیوں ہے۔

سویڈن کی حکومت نے ملک کے قوانین پر تنقید اور ان میں ترمیم کے مطالبوں پر ردِ عمل دیتے ہوئے کہا ہے کہ وہ اس بات کا جائزہ لے گی کہ کیا صحیفوں کی بےحرمتی کو روکنے کے لیے پبلک آرڈر ایکٹ میں ترمیم کا جواز موجود ہے یا نہیں۔

’نفرت کے پھیلاؤ‘ کو روکنے کے موجودہ قوانین کے تحت قرآن جلائے جانے کے واقعات کو عدالتی نظرثانی کا سامنا تو ہو سکتا ہے لیکن سویڈن کے قوانین، موجودہ سیاست اور سماجی روایات کو سامنے رکھتے ہوئے اس قانون کے ختم ہونے کا امکان بہت کم ہے۔

خیال رہے کہ سویڈن کی عدالتیں ماضی میں قرار دے چکی ہیں کہ پولیس کسی کو صحیفے جلانے سے نہیں روک سکتی۔

اسلامی ممالک کی تنظیم او آئی سی کی ایما پر اقوامِ متحدہ نے 22 جولائی کو ایک قرارداد منظور کی تھی جس میں رکن ممالک سے کہا گیا ہے کہ وہ مذہبی منافرت روکنے کے لیے اپنے قوانین کا جائزہ لیں گے۔

تاہم سویڈن کی مخلوط حکومت میں ڈپٹی وزیرِ اعظم نے کہا ہے کہ ’ہم ’اسلام ازم‘ کے سامنے جھکنے والے نہیں‘ اور سویڈن اپنے قوانین خود بناتا ہے۔

واضح رہے کہ سویڈن میں اس وقت مخلوط حکومت ہے اور ایسے میں اس بات کا قوی امکان ہے کہ پارلیمان میں دوسری بڑی جماعت سویڈن ڈیموکریٹ کسی ایسے قانون کی حمایت نہیں کرے گی جس سے آزادی اظہار پر قدغن لگے۔

گیلپ کے 2022 کے ایک سروے میں یہ بات سامنے آئی کہ سویڈن میں آبادی کے تناسب سے سب سے زیادہ افراد مذہب کو نہیں مانتے۔

stockholm

،تصویر کا ذریعہGetty Images

پڑوسی ملک فن لینڈ میں مقدس صحیفے نذرِ آتش کرنے کی اجازت نہیں تو سویڈن میں کیوں؟

سویڈن، ناروے اور ڈنمارک میں قرآن کو جلانے کی اجازت ہے لیکن پڑوسی ملک فن لینڈ میں اس کی اجازت نہیں ہے۔ سویڈن میں فن لینڈ کی طرح کا قانون موجود تھا لیکن بعد میں اسے ختم کر دیا گیا تھا۔

سویڈن میں ستر کی دہائی میں ایسے قوانین کو ختم کر دیا گیا تھا جن کے تحت مذہب اور شاہی خاندان کے افراد کا تمسخر اڑانے کی سزا مقرر تھی۔

البتہ سویڈن میں مذہبی، قومی اور جنسی رجحانات کی بنیاد پر نفرت انگیزی کو روکنے کے قوانین موجود ہیں لیکن صحیفوں کو جلانے کے عمل کو نفرت انگیزی تصور نہیں کیا جاتا ہے۔

سویڈن میں ہونے والے واقعات پر پاکستان، ترکی، ایران، قطر، سعودی عرب، مراکش، کویت، متحدہ عرب امارات، اردن، مصر اور عراق سمیت کئی مسلم ملکوں نے سفارتی سطح پر احتجاج کیا ہے اور بعض نے سویڈن سے اپنے سفیر واپس بلا لیے ہیں۔

مسلم ممالک کے علاوہ اِن واقعات کی مذمت دیگر ممالک اور اہم شخصیات نے بھی کی ہے۔ مسیحی پیشوا پوپ فرانسس نے کہا کہ مسلمانوں کی مقدس کتاب کی بے حرمتی پر انھیں دکھ ہوا ہے۔

اسی طرح روسی صدر ولادیمیر پوتن کہہ چکے ہیں کہ روس میں قرآن جلانا قانوناً جرم ہے۔

ادھر چین کا موقف ہے کہ ’آزادئ اظہار‘ کے بہانے ایک تہذیب کو دوسری تہذیب سے لڑوانے کی اجازت کسی کو بھی نہیں دینی چاہیے۔‘

اگر ایک طرف یورپی یونین نے ان واقعات کو ’ناگوار، گستاخانہ اور کھلی اشتعال انگیزی‘ قرار دیا تو دوسری طرف برطانیہ نے کہا کہ وہ ’آزادئ اظہار اور آزادئ مذہب یا عقیدے کا حامی جبکہ نفرت کا مخالف ہے۔‘

تاہم امریکہ کا موقف ہے کہ سویڈن کا واقعہ قابل مذمت تو ہے، مگر ایسا کرنے کی اجازت آزادئ اظہار ہے، نہ کہ اس عمل کی تائید۔

خود سویڈن کے وزیر اعظم کا کہنا تھا کہ قرآن کو نذرِ آتش کرنا ’قانون کے مطابق تو ہے مگر ہے نامناسب۔‘

جبکہ ڈنمارک نے کہا کہ ’ایسی اشتعال انگیز اور شرمناک حرکتیں سرکاری موقف کی عکاس نہیں ہوتیں۔‘

stockholm

،تصویر کا ذریعہGetty Images

سویڈن میں قرآن نذرِ آتش کرنے کے واقعات

سٹاک ہوم میں پاکستانی صحافی عارف محمود کسانہ نے بی بی سی سے بات کرتے ہوئے بتایا ہے کہ ’سویڈن میں پہلی مرتبہ قرآن کو ملک کے سب سے بڑے شہر مالمو میں 28 اگست 2020 کو نذرِ آتش کیا گیا تھا۔ ایسا سویڈن کے سیاستدان راسموس پلوڈن نے کیا تھا۔‘

اس کے بعد سنہ 2022 کو ایسٹر کے موقع پر بھی پلوڈن نے سویڈن کے کئی شہروں میں یہ عمل دہرایا۔

21 جنوری 2023 میں پلوڈن نے ترکی کے سفارتخانے کے سامنے پھر قرآن کو نذرِ آتش کیا۔

سنہ 2023 میں ہی 28 جون کو عین عید الضحیٰ کے روز سویڈن میں سیاسی پناہ لینے والے 37 سالہ عراقی شہری سلوان مومیکا نے بھی سویڈن کے دارالحکومت سٹاک ہوم کی سب سے بڑی مسجد کے سامنے قرآن کو نذرِ آتش کیا۔

مغرب، آزادی اظہار اور انتشار

مواد پر جائیں

ڈرامہ کوئین

ڈرامہ کوئین

’ڈرامہ کوئین‘ پوڈکاسٹ میں سنیے وہ باتیں جنہیں کسی کے ساتھ بانٹنے نہیں دیا جاتا

قسطیں

مواد پر جائیں

باتھ یونیورسٹی میں پروفیسر ڈاکٹر افتخار ملک نے سویڈن میں آزادی اظہار اور مذہب کے نام پر انتشار کی تاریخ اور اس حوالے سے متصادم نظریات پر بی بی سی سے تفصیل سے بات کی ہے۔

ان کا کہنا ہے کہ ’آزادی تحریر اور تقریر مغرب کا جدید ورثہ ہے۔ مذہب کے نام پر صدیوں سے ہونے والی لڑائیاں جن پر خون بھی بہایا گیا اس کے بعد سیکولرزم کی ترویج دیکھی گئی۔‘

انھوں نے کہا کہ ’19ویں صدی میں جو یورپ اور مغربی ممالک میں آئین بنے ان میں آزادی اظہار کو اہمیت دی گئی ہے اور انھیں یہ بھی ڈر ہے کہ مذہب کہیں چور دروازے سے واپس نہ آ جائے۔‘

ان کا مزید کہنا تھا کہ ’یہ بھی ذہن میں رکھنے کی ضرورت ہے کہ پچھلے پچاس، ساٹھ سالوں میں یورپ میں پناہ گزین آنا شروع ہو گئے ہیں جن کے مختلف مذہبی پسِ منظر ہیں۔

’اس لیے ان معاشروں میں اب کچھ اس قسم کے قوانین بنانے کی ضرورت ہے جس کے ذریعے یہ دیکھا جا سکے کہ کس حد تک آزادی اظہار کی اجازت دی جا سکتی ہے تاکہ ان معاشروں میں اس قسم کا انتشار نہ پھیل سکے۔‘

انھوں نے کہا کہ ’مغربی ممالک بلاشبہ آزادی اظہار کی بہت قدر کرتے ہیں اور اس سے کسی صورت بھی دستبردار نہیں ہونا چاہیں گے۔

’آزادی اظہار کسی بھی جمہوریت کا لازمی جز ہے۔ لیکن فلسفی، دانشور اور آزاد خیال کارکن اس بات پر بھی زور دیتے ہیں کہ اگر آپ کروڑوں لوگ کا دل دکھاتے ہیں اور ان کے مذہبی عقائد کی توہین کرتے ہیں تو ایسی آزادی کا کوئی فائدہ نہیں۔‘

pak

،تصویر کا ذریعہGetty Images

سویڈن میں بڑھتا اسلامو فوبیا، وجہ کیا ہے؟

معرض وجود میں آنے کے بعد جیسے جیسے سویڈش سلطنت پھیلتی گئی، اسی طرح اس کے مذہبی خیالات بھی پھیلتے گئے۔ اگرچہ ابتدا میں سویڈن میں کیتھولک آبادی زیادہ تھی، لیکن یہ ملک 16ویں صدی میں لوتھرن پروٹسٹنٹ ملک بن گیا۔ جس کے بعد سنہ 1665 میں سویڈن نے اُس مذہب کو غیر قانونی قرار دے دیا جس پر وہ پہلے عمل پیرا تھا اور یہ وہی وقت تھا جب کیتھولک مذہب کے ماننے والوں اور مسلمانوں کو ’حقیقی عیسائیت‘ کے دشمن کے طور پر دیکھا جاتا تھا۔

دوسری عالمی جنگ کے بعد سویڈن میں سماجی و اقتصادی ترقی کے ساتھ ساتھ لبرل جذبہ بھی پیدا ہوا اور فی الحال ملک سیکولر قوانین کے تحت چل رہا ہے۔

سویڈش اسلامک ایسوسی ایشن کے صدر عمر مصطفیٰ کا کہنا ہے کہ وقت کے ساتھ سویڈن کے رویے میں بڑی تبدیلی آئی ہے اور اب یہاں اسلاموفوبیا بڑھ رہا ہے جس کا اظہار نہ صرف انٹرنیٹ پر ملتا ہے جبکہ حقیقت میں یہاں بسنے والے مسلمانوں کی زندگیوں میں بھی۔

قرآن نذر آتش کرنے کے حالیہ واقعہ کے بعد اس ضمن میں مختلف نفرت انگیز سرگرمیوں کی تفصیلات بتائیں جیسا کہ سویڈن کی سڑکوں پر مسلم خواتین کو ہراساں کرنا، مسلمانوں کے گھروں کو نقصان پہنچانا اور مساجد پر چھوٹے موٹے حملے۔

صحافی تسنیم خلیل ایک عرصے سے سویڈن میں مقیم ہیں اور سویڈش معاشرے سے ان کی شناسائی کافی گہری ہے۔ اُن کا خیال ہے کہ ’ان واقعات کے پیچھے سیاست کارفرما ہے اور یہ کہ پورے یورپ میں انتہائی دائیں بازو کے نظریات کے عروج کی جھلک سویڈن میں دیکھنے کو مل رہی ہے۔‘

وہ بتاتی ہیں کہ ’سویڈن کی موجودہ حکومت ایک واحد بڑی پارٹی، سویڈن ڈیموکریٹس کی حمایت سے برسراقتدار ہے، جس نے گذشتہ انتخابات میں 20 فیصد ووٹ حاصل کیے تھے۔ انھوں نے 349 نشستوں والی پارلیمان میں 72 نشستیں حاصل کیں۔

’سویڈن ڈیموکریٹ پارٹی ماضی میں ایک انتہائی دائیں بازو کی جماعت تھی جو کبھی نازی نظریے پر یقین رکھتی تھی اور ایک حد تک، وہ اب بھی نسل پرست اور امیگریشن مخالف ہیں۔‘

BBCUrdu.com بشکریہ