مالدیپ نے اسرائیلی شہریوں پر پابندیاں عائد کرنے کے علاوہ فلسطین کے حوالے سے بھی اہم فیصلے کیے ہیں۔
فلسطینی عوام کے لیے کیا فیصلہ کیا گیا؟
،تصویر کا ذریعہGetty Imagesمالدیپ کے صدر کے دفتر کے مطابق صدر محمد معیزو ایک خصوصی ایلچی مقرر کریں گے جو فلسطینیوں کی ضروریات کا جائزہ لیں گے اور ان کے لیے رقم جمع کرنے کی مہم بھی شروع کریں گے۔یہ رقم فلسطینی علاقوں میں بے گھر ہونے والے افراد کی مدد کے لیے استعمال کی جائے گی۔اس کے علاوہ یہ ایلچی صدر کو یہ بھی مشورہ دے گا کہ فلسطینی عوام کو مالدیپ کی کہاں ضرورت ہے۔مالدیپ کی کابینہ نے بھی ایک قومی مارچ نکالنے کا فیصلہ کیا ہے، جسے ’پیپل آف مالدیپ ود فلسطین‘ کا نام دیا گیا ہے۔کابینہ کے اس فیصلے میں مالدیپ اسلامی ممالک کے ساتھ ایک اجلاس منعقد کرنے اور فلسطین تنازع کے معاملے پر ایک تجویز پیش کرنے کا بھی ارادہ رکھتا ہے۔مالدیپ کی حکومت کی جانب سے اسرائیلی عوام پر پابندیاں عائد کرنے کا فیصلہ حزب اختلاف کے ایک رہنما کی کوششوں کے بعد کیا گیا ہے۔مرکزی اپوزیشن مالدیپ ڈیموکریٹک پارٹی (MDP) کے رہنما میکائیل احمد نسیم نے گذشتہ ہفتے اسرائیلی شہریوں کے داخلے پر پابندی کے لیے امیگریشن قانون میں ایک ترمیم متعارف کرائی تھی۔مالدیپ میں نئی پارلیمنٹ نے گذشتہ ہفتے چارج سنبھالا، جس کا دوسرا اجلاس پیر سے شروع ہو رہا ہے۔حال ہی میں ہونے والے انتخابات میں، مرکزی حکمران جماعت پیپلز نیشنل کانگریس (PNC) نے پارلیمنٹ میں بھاری اکثریت حاصل کی، جس نے 93 میں سے 75 نشستیں جیت لیں۔اسی دوران دارالحکومت مالے شہر میں عام لوگ غزہ میں اسرائیلی حملوں کے خلاف مہینوں سے احتجاج کر رہے تھے اور اسرائیلی شہریوں کے ملک میں داخلے پر پابندی کا مطالبہ کر رہے تھے۔،تصویر کا ذریعہGetty Images
اسرائیل نے کیا ردعمل ظاہر کیا؟
مالدیپ کی جانب سے اسرائیلی پاسپورٹ رکھنے والوں کو ملک میں داخلے سے روکنے کے فیصلے کے بعد اسرائیل نے بھی احتیاطی تدابیر اختیار کی ہیں۔اسرائیلی وزارت خارجہ کے ترجمان اورین مارمورسٹین نے کہا ہے کہ وزارت خارجہ نے اسرائیلی عوام کو مشورہ دیا ہے کہ وہ مالدیپ کے سفر کرنے سے گریز کریں۔ہر سال تقریباً 10 لاکھ سیاح مالدیپ کا دورہ کرتے ہیں، جن میں سے تقریباً 15 ہزار کا تعلق اسرائیل سے ہے۔گذشتہ سال اسرائیل کے تقریباً 11 ہزار شہریوں نے مالدیپ کا دورہ کیا جو کہ مالدیپ کے کل سیاحوں کی تعداد کا 0.6 فیصد تھا۔،تصویر کا ذریعہGetty Images
فیصلے کے بعد سوشل میڈیا پر بحث
مالدیپ حکومت کے اس فیصلے کا ذکر سوشل میڈیا پر بھی ہو رہا ہے۔ بہت سے اسرائیلی شہری مالدیپ کی حکومت کو تنقید کا نشانہ بنا رہے ہیں۔اسرائیلی شہری اور سماجی کارکن یوسف حداد نے مالدیپ حکومت کے اس فیصلے کی مذمت کی ہے۔انھوں نے سوشل میڈیا ویب سائٹ ایکس پر پوسٹ کیا ہے جس میں انھوں نے لکھا ہے کہ ’سات اکتوبر کے قتل عام کے بعد فلسطینیوں کے داخلے پر کوئی پابندی نہیں تھی۔‘اس میں انھوں نے لکھا کہ ’انھوں نے ایران، شمالی کوریا یا شام کے شہریوں کے داخلے پر پابندی نہیں لگائی ہے۔ انھوں نے صرف اسرائیلیوں پر پابندی لگائی ہے۔ ان کے پاس خوبصورت جزیرے ہو سکتے ہیں لیکن ان کی پالیسیاں بدصورت ہیں۔‘ازئی بولٹ نامی ایکس صارف کی نظر میں بھی یہ فیصلہ چونکانے والا نہیں۔ انھوں نے لکھا کہ ’مالدیپ کی نسل پرست حکومت نے اسرائیلیوں کے ملک میں داخلے پر پابندی لگانے کا فیصلہ کیا ہے۔ یہ بالکل بھی چونکا دینے والی بات نہیں ہے۔‘جنوبی افریقہ نے غزہ میں قتل عام پر اسرائیل کے خلاف عالمی عدالت انصاف میں قانونی کارروائی شروع کر دی تھی۔اس دوران عدالت نے ایک عارضی فیصلہ جاری کرتے ہوئے غزہ میں فلسطینی عوام کے خلاف تشدد روکنے کا حکم دیا تھا۔یاد رہے کہ سات اکتوبر کو حماس نے اسرائیل پر حملہ کیا، جس میں تقریباً 1200 افراد مارے گئے اور حماس کے جنگجوؤں نے 250 سے زائد اسرائیلیوں کو غزہ میں یرغمال بنا لیا۔اس کے بعد اسرائیل نے غزہ میں زمینی کارروائی شروع کی جس میں اب تک 36 ہزار سے زائد افراد لقمہ اجل بن چکے ہیں جن میں اکثریت عام شہریوں کی ہے۔
مالدیپ اور اسلام
مالدیپ ایک اسلامی ملک ہے۔ مالدیپ 1965 میں سیاسی طور پر برطانیہ سے مکمل طور پر آزاد ہوا اور آزادی کے تین سال بعد مالدیپ ایک آئینی اسلامی جمہوریہ بن گیا۔آزادی کے بعد سے اسلام نے مالدیپ کے لوگوں کی سیاست اور زندگیوں میں اہم کردار ادا کیا ہے۔ آئین میں یہ لازمی قرار دیا گیا ہے کہ صدر اور کابینہ کے وزراء صرف سنی مسلمان ہو سکتے ہیں۔مالدیپ کے قانون کے مطابق یہاں اسلام پر تنقید کو جرم سمجھا جاتا ہے۔ مالدیپ دنیا کا سب سے چھوٹا اسلامی ملک ہے۔صدر بننے کے بعد محمد معیزو کا پہلا غیر ملکی دورہ ترکی تھا۔ اس سے قبل مالدیپ کے نئے صدر کا پہلا غیر ملکی دورہ انڈیا کا ہوا کرتا تھا لیکن صدر معیزو نے اس روایت کو توڑ دیا۔
BBCUrdu.com بشکریہ
body a {display:none;}
Comments are closed.