- مصنف, ہیلے کومپٹن
- عہدہ, بی بی سی انوسٹیگیشن، ایسٹ مِڈلینڈز
- 23 منٹ قبل
تاریخی طور پر سیکس ورکرز کے خلاف جرائم کو کم رپورٹ کیا گیا ہے لیکن اب کارکن، محققین اور ایک خیراتی ادارہ تبدیلی کے لیے مل کر کام کر رہے ہیں۔الانا ہمارے انٹرویو کے لیے آئیں تو ان کے پاس لیس لگے انڈر ویئر سے بھرا بیگ تھا اور چمڑے کی چابُک تھامے انھوں نے گھٹنوں تک اونچے جوتے پہن رکھے تھے۔پہلے تو وہ خوفزدہ دکھائی دیں لیکن جب ہم نے ان کے کام کے بارے میں بات کرنا شروع کی تو وہ مطمئن ہوتی گئیں۔ الانا وہ نام ہے جو انھوں نے خود اپنے لیے چُنا ہے۔ ایک ماں کی حیثیت سے اپنی روزمرہ کی زندگی سے اپنے کام کو الگ کرنے کے لیے انھوں نے اپنے آپ کو ایک فرضی شناخت دی ہے۔
وہ کہتی ہیں کہ ’دن کے آخر میں ہم اپنا سارا میک اپ اتار لیتے ہیں اور واپس خریداری میں مگن ہو جاتے ہیں یا سکول چلاتے ہیں۔‘برطانیہ کے علاقے ڈربی شائر سے تعلق رکھنے والی الانا نے این ایچ ایس اور تفریحی صنعت میں ملازمتیں کی ہیں لیکن اب وہ ایک ایسی شخصیت ہیں جو سیکس ورک کے ذریعے اپنا گزر بسر کرتی ہیں۔تاہم وہ تسلیم کرتی ہیں کہ اس قسم کا کام انھیں اور دوسروں کو کمزور بنا سکتا ہے خاص طور پر جب کچھ جنسی کارکنوں کو ایک جیسے انتخاب کرنے کا موقع نہیں ملتا ہے۔الانا خود کو خوش قسمت سمجھتی ہیں کہ ان پر تین سال میں صرف ایک بار حملہ کیا گیا ہے کہ جب ان کے ایک گاہک نے ان کی مرضی حاصل کیے بغیر ان کے جسم میں منشیات انجیکٹ کیں۔
’ایسا لگتا ہے کچھ چِھن گیا ہے‘
گھر جاتے ہوئے انھیں یہ سب بھی معمول کے مطابق ہی لگ رہا تھا لیکن الانا کا کہنا تھا کہ انھیں یہ محسوس ہو رہا تھا کہ کہ جیسے کچھ گڑبڑ ہے۔ان کا کہنا تھا کہ یہ واضح ہے کہ درمیانی عمر والا وہ شخص ان کے آنے سے پہلے منشیات لے رہا تھا۔ وہ زیادہ پرجوش ہو گیا اور اس نے زبردستی میرے سر کو زور سے اپنے جسم پر دھکیلا۔ الانا کہتی ہیں کہ وہ ان کے ساتھ جنسی طور پر زیادہ جارحانہ ہو گیا، لیکن وہاں سے جانے کے بجائے الانا نے سوچا وہ اسے غصہ ہونے سے روکنے کے لیے پورے گھنٹے کی بکنگ تک وہیں رکی رہیں۔الانا کہتی ہیں کہ ’میں نے سوچا یہ ایسی صورت حال نہیں تھی جس سے میں بحفاظت وہاں سے نکل سکتی ہوں۔‘حملے کے بعد انھیں طبی امداد حاصل کرنی پڑی لیکن سیکس ورکرز کے خلاف بہت سے دیگر جرائم کی طرح، الانا نے اس کی اطلاع نہیں دی۔وہ کہتی ہیں کہ ’مجھے نہیں لگتا کہ پولیس کو رپورٹ کرنے سے کوئی معاملہ سلجھ سکتا ہے۔‘وہ کہتی ہیں کہ ان کے کام کے ساتھ ایک بدنامی جڑی ہوئی ہے اور انھیں لگتا ہے کہ لوگ اس کا ذمہ دار خود انھیں ہی قرار دیں گے۔ انھوں نے کہا کہ اس دن کے ان پر دوررس اثرات مرتب ہوئے۔ وہ کہتی ہیں کہ ’مجھے ایسا لگا جیسے مجھ سے کچھ چھین لیا گیا ہو۔‘ الانا کی کہانی کوئی بہت مختلف نہیں ہے۔ تحقیق سے پتہ چلتا ہے کہ جسم فروشی کرنے والوں کے خلاف جرائم اور خاص طور پر پرتشدد جرائم کا امکان دیگر عام آبادی کے مقابلے میں زیادہ ہے۔سنہ 2016 کے ایک تحقیق میں بتایا گیا ہے کہ سروے میں شامل 47 فیصد آن لائن سیکس ورکرز کو کسی نہ کسی طرح ایسے جرم کا سامنا کرنا پڑا۔ اس میں ہراسانی سے لے کر ڈکیتی، ریپ، جسمانی حملہ اور اغوا کی کوشش تک شامل ہیں۔سنہ 1999 میں ایک اور تحقیق جسے ’رسکی بزنس: ہیلتھ اینڈ سیفٹی ان دی سیکس انڈسٹری‘ کا نام دیا گیا ہے میں 402 سیکس ورکرز کا نو سال کے عرصے میں سروے کیا گیا اور یہ معلوم ہوا کہ ان کی اموات کی شرح اسی عمر کی خواتین کے مقابلے میں 12 گنا زیادہ تھی۔الانا کہتی ہیں کہ ’بدنامی کی وجہ سے، ہمیں بہت زیادہ تشدد کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔‘تاہم الانا اب تبدیلی لانے میں مدد کر رہی ہیں۔ وہ ان چند سیکس ورکرز میں سے ایک ہیں جنھیں ان کی حفاظت کو بہتر بنانے کے مقصد سے تحقیقی اغراض کے لیے ایک مشاورتی پینل میں بھرتی کیا گیا ہے۔نوٹنگھم یونیورسٹی ایک ایسا رپورٹنگ سسٹم تیار کرنے میں مدد کر رہی ہے، جہاں سیکس ورکرز جنسی یا پرتشدد جرائم کی اطلاع دے سکیں گے۔یہ سسٹم تقریباً اب تیار کر لیا گیا ہے اور امید ہے کہ اس سال کے آخر میں اسے پولیس سمیت دیگر ایجنسیوں کے حوالے کر دیا جائے گا۔ کرمنالوجی کے شعبے کی اسسٹنٹ پروفیسر ڈاکٹر لاریسا سینڈی اس تحقیق کی سربراہ ہیں۔ انھوں نے اپنے آبائی ملک آسٹریلیا میں اس بات پر زور دیا ہے کہ ’سیکس ورک‘ کی غیرقانونی حیثیت کو بدل کر اسے قانونی تحفظ دیا جائے۔ دیگر ممالک، جہاں قوانین میں نرمی لائی گئی ہے، ان میں جرمنی اور نیوزی لینڈ شامل ہیں حالانکہ یہ تنقید کی جاتی رہی ہے کہ قانون میں ایسی ترامیم سے سیکس کی سیاحت کو فروغ ملا ہے اور انسانی سمگلنگ میں اضافہ ہوا ہے۔تاہم ڈاکٹر سینڈی کا کہنا تھا کہ ’یہ پولیس ہے جو قانون نافذ کرتی ہے، لہٰذا جب سیکس ورک جرم نہیں رہے گا تو سیکس ورکرز یہ نہیں سوچیں گی کہ وہ جرائم کی اطلاع دینے سے مشکلات کا شکار ہوں گی اور بالآخر اس سے سیکس ورکرز کو تحفظ حاصل ہوگا۔‘انھوں نے مزید کہا کہ جرائم کی اطلاع دینے میں ایک رکاوٹ کی وجہ غیر واضح قانون ہے۔
’لوگ برا سمجھتے ہیں‘
برطانیہ کی میٹروپولیٹن پولیس کے مطابق پیسے کے لیے جنسی خدمات کا تبادلہ برطانیہ میں قانونی ہے۔ تاہم شمالی آئرلینڈ میں جنسی تعلقات کے لیے ادائیگی کرنا غیر قانونی ہے۔لیکن برطانیہ میں ایسی متعلقہ سرگرمیاں ہیں جو غیر قانونی ہیں، جیسے سیکس ورک کی تشہیر کرنا اور قحبہ خانے کا مالک ہونا یا اس کا انتظام چلانا۔کراؤن پراسیکیوشن سروس کا کہنا ہے کہ ان کا مقصد سیکس ورکرز کے خلاف قانونی چارہ جوئی نہیں بلکہ ان لوگوں کے خلاف ہے جو دوسروں سے زبردستی کرتے ہیں یا ان کا استحصال کرتے ہیں۔سی پی ایس کا یہ بھی کہنا ہے کہ مجرم اکثر جان بوجھ کر سیکس ورکرز کو’اس یقین کے ساتھ نشانہ بناتے ہیں کہ ان کی جانب سے جرم کی اطلاع دینے یا انھیں استغاثہ کی مدد ملنے کا امکان نہیں ہے۔‘تاہم الانا کا کہنا ہے کہ لوگ اس کام پر شرمندگی محسوس کرتے ہیں۔وہ کہتی ہیں ’زیادہ تر لوگ سیکس کرتے ہیں، تو جب لوگ پیسے کے لیے ایسا کرتے ہیں تو انھیں کیوں برا سمجھا جاتا ہے۔‘
’ہم سیکس ورک کو کام کے طور پر دیکھتے ہیں‘
جیسیکا برینن نوٹنگھم میں جسم فروشی کی آؤٹ ریچ سروس چلاتی ہیں۔ جیسیکا برینن کہتی ہیں ’سیکس ورک غیر قانونی نہیں ہے، لیکن اکثر اسے غیر اخلاقی سمجھا جاتا ہے۔‘وہ کہتی ہیں کہ یہ شرمندگی، سزا کے خوف اور عدم یقین کے والے احساس کے ساتھ، سیکس ورکرز کو جرائم کی اطلاع دینے سے روکتی ہے۔ان کی تنظیم سنہ 1990 سے سڑکوں پر اور اس سے ہٹ کر بھی سیکس ورکرز کی مدد کرتی آ رہی ہے۔۔۔ مگر ابھی بھی یہ تنظیم مجرموں کو سزا دلوانے میں کامیاب نہیں ہو سکی ہے۔ وہ کہتی ہیں کہ ’ایسا کوئی ہفتہ نہیں گزرتا جس میں ہم جن خواتین یا مردوں کی حمایت کرتے ہیں ان میں سے کسی ایک پر پرتشدد حملہ نہ ہوا ہو، لیکن ان میں سے کوئی بھی معاملہ عدالت میں نہیں گیا۔‘ان کے مطابق ’ہم سیکس ورک کو کام اور سخت محنت والے کام کے طور پر دیکھتے ہیں۔ ہم چاہتے ہیں کہ ہمارے گاہک ایمانداری سے اس بارے میں بات کریں کہ وہ کیا کر رہے ہیں۔‘الانا اس سے متفق ہے۔ وہ چاہتی ہیں کہ انھیں افرادی قوت کے ایک قابل قدر اور معاون رکن کے طور پر دیکھا جائے، اور وہ سمجھتی ہیں کہ جنسی تعلقات فروخت کرنے والے ہر شخص کے ساتھ معاشرے کو بہتر سلوک کرنا چاہیے۔وہ کہتی ہیں ’میں ٹیکس اور نیشنل انشورنس ادا کرتی ہوں، سیکس ورکرز ڈسپوزایبل نہیں ہیں۔ یہ اچھا ہوگا اگر اسے ایک عام کام کے طور پر سمجھا جائے۔‘
BBCUrdu.com بشکریہ
body a {display:none;}
Comments are closed.