پر ہجوم رہائش: سکول والے نہیں سمجھ سکتے تھے کہ رضوان کلاس میں کیوں سو جاتا تھا
- مائیکل بیوکینن
- سماجی امور کے نامہ نگار، بی بی سی نیوز
رضوان کہتے ہیں کہ وہ ہر رات بڑی مشکل سے 6 گھنٹے سو پاتے ہیں
لاک ڈاؤن کے دوران، رضوان حسین ’ زرافے کی طرح بڑھے‘، صرف چند ماہ میں ان کا قد 5 فٹ 5 انچ سے 6 فٹ 1 انچ ہوگیا۔
اب، وہ اپنے پرانے بستر کے لیے بہت لمبے ہیں اور چونکہ ان کا کمرہ کسی بڑے فرد کے لیے بہت چھوٹا ہے، وہ اب صوفے پر سوتے ہیں۔ وہ اپنے دو بیڈ روم والے فلیٹ میں والدین اور دو بہنوں کے ساتھ رہتے ہیں۔
اس سولہ سالہ نوجوان کا کہنا ہے کہ ’مجھے بمشکل چھ گھنٹے کی نیند آتی ہے۔‘
’سکول کو سمجھ نہیں آتا۔ میں کلاسوں میں سو جاتا ہوں لیکن اگر میں تین بار سو جاتا ہوں تو مجھے معطل کر دیا جاتا ہے۔‘
بستر بانٹنا
رضوان انگلینڈ میں ایک اندازے کے مطابق 20 لاکھ بچوں میں سے ایک ہیں جو غیر موزوں یا زیادہ بھیڑ والے گھر میں رہتے ہیں۔
اس کی بہنیں، 13 سالہ مائیشا اور 11 سالہ ملیحہ ایک ڈبل بیڈ پر سوتی ہیں۔
مائیشا کہتی ہیں ’گھر افراتفری اور ہجوم رہتا ہے۔ کمرے میں ہمیشہ کوئی نہ کوئی ہوتا ہے اور رضوان کو ہمیشہ یہ شکایت رہتی ہے کہ اسے کبھی بستر نہیں ملتا۔‘
ہاؤسنگ رجسٹر
رائل اوک، مغربی لندن میں مقیم یہ خاندان 2013 سے کسی نئی جگہ منتقل ہونے کی کوشش کر رہا ہے۔
ہر بدھ کو صبح 6 بجے، ماں حسن آرا، جو بچوں کی دیکھ بھال سے متعلق پڑھ رہی ہیں، ویسٹ منسٹر کونسل کے ہاؤسنگ رجسٹر پر یہ دیکھنے کے لیے جاتی ہیں کہ آیا کوئی بڑا گھر دستیاب ہو گیا ہے۔
’میں فہرست میں 125 ویں، 86 ویں، 105 ویں نمبر پر رہی ہوں لیکن کبھی کچھ نہیں ملا،‘ وہ کہتی ہیں۔
’یہ تمام نئے گھر بنتے رہتے ہیں لیکن یہ کہاں جا رہے ہیں، کس کو مل رہے ہیں؟‘
تنگ گھر
اسی تناؤ بھری صورتحال میں مزید اضافہ تب ہوا جب والد محمد، جو ایک ٹیکسی ڈرائیورہیں، ان کو فروری میں دل کا دورہ پڑا اور وہ اب کام نہیں کر سکتے۔ وہ صحت یاب ہو رہے ہیں لیکن ذہنی دباؤ اور اتنے تنگ گھر میں رہنے سے ان کی صحت کو کوئی فائدہ نہیں ہوتا۔
ایک موقعے پر، اس خاندان نے ویسٹ یارکشائر منتقل ہونے پر بھی غور کیا، جب حسن آرا نے ایک فیملی کو ان سے مکان تبدیل کرنے پر آمادہ کر لیا تھا۔
رضوان کا کہنا تھا کہ ’میں نے کہا، ‘آپ کو جو بھی آپشن ملے، ہمیں اسے لینے کی ضرورت ہے،‘
’میں جانتا ہوں کہ یہ 200 میل دور ہے لیکن میں اس چھوٹے سے بستر پر لیٹا نہیں رہ سکتا تھا۔‘
حسن آرا کہتی ہیں کہ بدقسمتی سے، یہ تبادلہ نہیں ہو سکا اور اس فیملی کے پاس ’اس وقت کوئی آپشن نہیں ہے۔‘
وہ کہتی ہیں کہ ’ہم ہر وقت لڑتے رہتے ہیں جس سے ہم سب پر ذہنی دباؤ ہے۔‘
’میں اس علاقے میں پیدا ہوئی اور پرورش پائی لیکن میں کہیں بھی جاؤں گی، کہیں بھی۔‘
اضطراب کا باعث
انگلینڈ کی ہاؤسنگ ایسوسی ایشنز کی نمائندہ تنظیم نیشنل ہاؤسنگ فیڈریشن کا اندازہ ہے کہ ملک میں تقریباً 20 لاکھ بچے یعنی تقریباً ہر پانچ میں سے ایک، رش والے، غیر موزوں یا ناقابل برداشت گھروں میں رہتے ہیں۔
ان میں سے، 11 لاکھ کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ وہ انتہائی تنگ مکانوں میں زندگی گزار رہے ہیں۔ فیڈریشن کا کہنا ہے کہ، ان بچوں کی صحت اور زندگی میں ترقی پر نقصان دہ اثر پڑ سکتا ہے، جس سے اضطراب اور ڈپریشن ہو سکتا ہے۔
ایک تحقیق میں یہ بھی پتہ چلا کہ بچے انگلینڈ کی آبادی کا 19 فیصد ہیں، اور ان میں سے 30 فیصد کو سوشل ہاؤسنگ یعنی حکومتی مکانات کی ضرورت ہے۔
نیشنل ہاؤسنگ فاؤنڈیشن کی چیف ایگزیکٹو کیٹ ہینڈرسن کا کہنا ہے کہ ’آج کی رپورٹ سے پتا چلتا ہے کہ ہمارے بچے تیزی سے اس تباہ شدہ ہاؤسنگ مارکیٹ کا سب سے بڑا شکار بن رہے ہیں۔‘
’یہ افسوسناک صورتحال سے کم نہیں ہے کہ بہت سارے بچے انتہائی مشکل حالات میں رہنے پر مجبور ہیں، والدین اور بہن بھائیوں کے ساتھ سونے کے کمرے اور بعض اوقات بستر بانٹتے ہیں، جب کہ ان کے خاندان اپنے کھانے، کپڑوں اور رہائش کے اخراجات کو پورا کرنے کے لیے جدوجہد کرتے ہیں۔‘
’ہم ایسے لوگوں کو مکانات نہ فراہم کر کے، ہم لاکھوں بچوں کو زندگی کے موزوں مواقع سے محروم کر رہے ہیں۔‘
ایک حکومتی ترجمان نے کہا ’تمام بچے ایک محفوظ اور مناسب گھر میں رہنے کے مستحق ہیں اور ہم زیادہ بھیڑ سے نمٹنے اور حکومتی مکانات کے انتظار کی فہرستوں کو کم کرنے کے لیے کونسلوں کے اختیارات کو مضبوط کر رہے ہیں۔ ان فہرستوں میں 2010 اور 2021 کے درمیان 550,000 گھرانوں کی کمی واقع ہوئی ہے۔ ‘
حکومت نے اگلے پانچ سالوں میں سستے گھروں میں ساڑھے گیارہ ارب ڈالر کی سرمایہ کاری کرنے کا وعدہ کیا ہے۔
Comments are closed.